اردو اور پنجابی‘ دونوں اصل میں ایک ہیں!

پنجابی بڑی میٹھی، رسیلی اور گہری زبان ہے۔ پنجابی شاعری میں نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ زندگی کی گنجلک گتھیوں کو یوں سلجھایا جاتا ہے کہ قاری اش اش کر اٹھتا ہے۔ حیات و موت جیسے پیچیدہ مسائل اور معاملات سے لے کر رنگ برنگے انسانی رویوں تک کو پنجابی شاعری میں اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ عام اور خاص دونوں طرح کے لوگوں کے دل میں بات جا کر ترازو ہو جاتی ہے۔ پنجابی کی صوفیانہ شاعری کی تو ایک دنیا مداح ہے۔ غیرملکی زبانوں میں بھی اس شاعری کے تراجم ہو چکے ہیں۔ دو تین مثالیں دیکھئے‘ میاں محمد صاحب فرماتے ہیں:
ہجر تیرا جے پانی منگے، تے میں کھوہ نیناں دے گیڑاں
دل کردا اے تینوں کول بٹھا کے درد پرانے چھیڑاں
اور یہ شعر دیکھئے:
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
اور ذرا تصوف کے اس شعر کی سادگی اور مضمون کی گہرائی پر غور کیجئے:
لوئے لوئے بھر لے کڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا
شام پئی بن شامِ محمد، گھر جاندی نے ڈرنا
کالم کی تنگ دامانی کے باعث بلھے شاہ کے کلام سے صرف ایک ہی مثال پیش خدمت ہے:
چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے
بجھدے دیوے بلدے ویکھے
ہیرے دا کوئی مُل نہ تارے
کھوٹے سکے چلدے ویکھے
جنہاں قدر نہ کیتی یار دی بلّھیا
ہتھ خالی او ملدے ویکھے
چند روز پہلے لاہور میں پنجابی پرچار، پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان اور کئی پنجابی تنظیموں کے زیراہتمام ''پنجابی پڑھائو‘‘ ریلی نکالی گئی جس میں بہت سے وکلا، اساتذہ، پنجابی شعرا اور ادیبوں نے شمولیت کی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ پہلی جماعت سے پنجابی کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ مظاہرین نے یہ بھی کہا کہ پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں پنجابی نہ پڑھا کر 12 کروڑ باسیوں سے اُن کی زبان کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مشہور سماج سیوک دیپ سعیدا نے اس بات پر زوردیا کہ پنجاب کی حکومت پنجابی نہ پڑھا کر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ برطانیہ سے آئی ہوئی شگفتہ صاحبہ نے کہا کہ گورے بلھے شاہ کے کلام پر دھمال ڈالتے ہیں پنجاب کو بھی چاہئے کہ وہ بلھے شاہ کے کلام سے دنیاکو روشناس کرائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجابی شاعری بالخصوص مشہور شعرا کا صوفیانہ کلام دلوں کی دنیا میں ہلچل مچا دیتا ہے۔ اسی لیے میں نے کالم کے آغاز میں پنجابی کے دو عظیم شعرا کے کلامِ معجز بیاں کے چند نمونے پیش کیے‘ مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو چار سو خواتین و حضرات پنجابی کو پہلی جماعت کے نصاب میں شامل کرنے کا مطالبہ کس بنیاد پر کررہے ہیں۔ پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کے گھروں میں بچوں کے ساتھ گفتگو اردو میں کی جاتی ہے۔ بچے اردو پڑھتے‘ لکھتے اور اس میں اظہارِ خیال اپنی مادری زبان سے کہیں بڑھ کر سہولت سے کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک دل چسپ رویہ ہے کہ جس کا جو ذوق ہو وہ اسے بذریعہ نصاب کڑوی گولی کی طرح بچوں کے حلق میں اتارنا چاہتا ہے۔ دوسرے صوبوں میں وہاں کی علاقائی زبانیں شاید سکولوں میں پڑھائی جاتی ہوں مگر وہاں بھی بچے اردو میں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیز اُن صوبوں کے گھروں میں وہاں کی زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ اہل پنجاب اردو اور پنجابی میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔ وہ دونوں زبانوں کو اصل میں ایک ہی سمجھتے ہیں۔ پنجاب کے زیادہ تر گھرانوں میں چاہے والدین آپس میں پنجابی بولتے ہوں مگر بچوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہیں۔ پنجابی سنگت والوں کو ہم یہ مشورہ دیں گے کہ وہ پنجابی زبان کی عظیم شاعری سے لوگوں کو روشناس کرائیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دیہات میں ہی نہیں شہروں میں بھی پنجابی کلام ترنم سے پیش کرنے کی محفلیں سجائی جائیں۔ ٹی وی چینلوں پر بھی پنجابی کلام پیش کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے طالب علمی کے دور میں اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی مباحثے ہوتے تھے جو بڑے دلچسپ ہوا کرتے تھے۔ طالب علم بڑے ذوق شوق سے ان میں حصہ لیتے تھے اور سامعین بھی بڑی توجہ سے سنتے اور دل کھول کر داد دیتے تھے‘ مثلاً ایک مقرر نے کہا ''پردھان جی ایہہ دنیا واقعی پاگلاں دا گھر ایہہ۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے نیانڑا ایانڑا ہوندا ایہہ (یعنی بچہ ناسمجھ ہوتا ہے) جوانی دیوانی ہوندی اے تے بڈھا کملا یملا ہوندا اے۔ گویا زندگی کی ہر سٹیج پر ''کملے‘‘ ہی نظر آتے ہیں۔ ایس واسطے گل سچ اے کہ ایہہ دنیا پاگلاں دا گھر اے۔ اسی طرح مصرع طرح یا عنوان دے کر پنجابی کی سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کے مقابلے بھی ہوتے تھے بلکہ آج بھی یقینا ہو رہے ہوں گے۔ میں نے یہ مثالیں اس لیے دی ہیں کہ پنجابی کو سیاسی مطالبہ بنانے اور اردو کا اپنے تئیں مقام و مرتبہ کم کرنے والے مٹھی بھر ''دانشوروں‘‘ کو اندازہ ہوکہ نصاب کا حصہ بنائے بغیر بھی طلبا و طالبات حسب موقع خوب پنجابی بولتے اور سمجھتے ہیں۔ 
حافظ محمود شیرانی اپنی تحقیقی تصنیف ''پنجاب میں اردو‘‘ جو 1928ء میں منظرِعام پر آئی تھی، میں لکھتے ہیں ''اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے، دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانی ہو گئی ہیں تب اُن میں جدائی واقع ہوئی ہے‘‘۔ پنجابی زبان کے مستند عالم ٹی گراہم بیلی محمود شیرانی کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے مجلے میں لکھتے ہیں ''اردو 1027ء کے لگ بھگ لاہور میں پیدا ہوئی، قدیم پنجابی اس کی ماں ہے‘‘۔ مسلمان سپاہیوں نے پنجابی کے اس روپ کو جو ان دنوں دہلی کی قدیم کھڑی بولی سے زیادہ مختلف نہ تھا اختیار کیا اور اس میں فارسی الفاظ اور فقرے شامل کر دیئے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اصل میں دونوں زبانیں ایک ہیں۔
پنجابی کی مزاحیہ و طنزیہ شاعری سے چہاردانگ عالم میں شہرت پانے والے شاعر انور مسعود اردو اور فارسی میں بھی اشعار کہتے ہیں مگر اُن کی اصل پہچان پنجابی کی شاعری ہے۔ انور مسعود صاحب کو تین چار دہائیاں پہلے پنجاب کے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پذیرائی ملی جس کے بعد ان کی پنجابی شاعری خوشبو کی طرح قریہ بہ قریہ پھیل گئی۔ 
عصرحاضر میں پنجابی کے ممتاز شاعر انور مسعود اس شعر میں کہتے ہیں: 
ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انور میری سوچ علاقائی نہیں
جیساکہ حافظ محمود شیرانی نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے‘ اردو اور پنجابی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ پنجابی کی شاعری لاجواب ہے جبکہ اردو شعرونثر اور علم و ادب کی زبان بن چکی ہے اور اردو ہی ہماری قومی زبان بھی ہے۔ پنجابی زبان میں ہی نہیں اہل پنجاب میں بھی بہت وسیع القلبی ہے۔ اس لیے اردو کو پروان چڑھانے میں یوپی سے کہیں بڑھ کر پنجاب کے شاعروں، ادیبوں اور اہل علم کی کاوشوں کا دخل ہے۔
ہم پنجابی زبان کی شیرینی اور شاعری کے دل و جان سے قائل ہیں اور اس کی اردو کے زیر سایہ ترویج کے حق میں بھی ہیں مگر اسے بچوں کے نصاب میں شامل کرنے اور اُن پر مزید بوجھ لادنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ پنجاب کے بچے پنجابی سمجھنے اور بولنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے کیونکہ اردو اور پنجابی اصل میں دونوں ایک ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں