جمہوریت ناکام نہیں‘ کامیاب ہے مگر …

نظری بحث مباحثے کے دلدادہ بعض دانشور حضرات کہ جن میں میرے چند دوست بھی شامل ہیں ان دنوں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جس طرح اشتراکیت کا دیوہیکل نظام چند دہائیوں میں زمیں بوس ہو گیا تھا اسی طرح اب جمہوریت کا شیش محل بھی آندھیوں کی زد میں ہے۔
اشتراکیت کا آئیڈیا لانے والے ''عالی دماغوں‘‘ نے ایک نہایت مصنوعی اور سطحی انداز کا نظام دنیا سے متعارف کروایا تھا‘ اُن کا نعرہ تھا کہ آئو مل کر کمائیں اور مل بانٹ کر کھائیں۔ یہ سادہ سا سلوگن پیش کرتے ہوئے کارل مارکس سے لینن تک کسی نے بھی انسانی فطرت کے بارے میں بنیادی تقاضوں کے بارے میں نہ سوچا تھا۔ صدیوں سے اپنی جائز ملکیتی زمینوں اور کارخانوں سے لوگوں کو بے دخل کیونکر کیا جائے گا؟ اس کا سہ لفظی جواب اشتراکیت کے پاس یہ تھا‘انقلاب بزورِ شمشیر۔ یہ غیرفطری ظالمانہ نظام ستر پچھتر برس سے زیادہ جاری نہ رہ سکا اور 1989ء میں گورباچوف کے زمانے میں سوویت یونین تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اور اس کے ساتھ ہی اشتراکیت کا قلعہ بھی مسمار ہو گیا۔ صدیوں کے تجربات کے بعد یونان و روم کے جمہوری ماڈلوں سے گزشتہ تین چار دہائیوں سے پروان چڑھنے والی جمہوریت انسان کی فطرت کے بنیادی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اُسے غلامی کی زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکتا۔ جمہوریت نے نعرہ دیا کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں بسنے والے اپنی قسمت کے خود مالک و مختار ہوتے ہیں۔ وہ آپس میں باہمی مشورے سے اپنے لیے جمہوری انداز کا کوئی بھی نظامِ حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ اسلام میں بھی حکمرانی کی بنیاد باہمی مشورے پر رکھی گئی ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اُن کے معاملات باہمی صلاح مشورے سے طے پاتے ہیں۔ آج بعض دانشوروں کو محسوس ہو رہا ہے کہ جمہوریت کی فصیل میں شگاف پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان دانشوروں نے مختلف جمہوری معاشروں میں انتخابی عمل میں بددیانت لوگوں کی شمولیت اور روپے پیسے کی ریل پیل کے بارے میں تنقید کی ہے۔ یہ تنقید بعض انتخابی خامیوں کی نشاندہی تو کرتی ہے مگر اس سے جمہوریت کے بنیادی فلسفے پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ جمہوریت کے مقابلے میں ابھی تک اس سے بہتر کوئی نظام نہیں پیش کیا جا سکا۔ مسلمان دانشِ برہانی کے مقابلے میں دانشِ نورانی اور مبنی برانصاف اسلامی جمہوریت کے دعویدار ہیں مگر ابھی تک وہ انسانیت کے سامنے ایسا کوئی عملی ماڈل پیش نہیں کر سکے۔ دراصل آج سپرپاور امریکہ‘ سب سے بڑی جمہوریت بھارت اور پھر پاکستان کے ''جمہوری آمروں‘‘ کے غیرجمہوری طور طریقوں کو دیکھ کر حساس دانشور فلسفۂ جمہوریت کے بارے میں ہی شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آج اگر شکست سے دوچار ہونے والا ''میں نہ مانوں‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر ہے تو اسی امریکہ کے ابراہام لنکن سے لے کر باراک اوباما تک کی لمبی قطار میں آپ کو ایک سے ایک بڑھ کر سمجھدار اور جمہوری روایات کا پاسدار صدر ملے گا۔ اسی طرح بھارتی عوام کو بھی ایک ایسا حکمران ملا ہے کہ جو نسلی و مذہبی تعصبات کی آگ بھڑکا رہا ہے۔ البتہ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ گورے اور کالے کا نسلی تعصب پھیلانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو جس طرح امریکی ووٹروں نے چلتا کیا ہے اسی طرح بھارتی ووٹر بھی مودی کا بوریا بستر گول کر سکتے ہیں۔
اب آئیے وطنِ عزیز کی طرف۔ یہاں بھی ان دنوں ایک ایسے خودپسند حکمران برسراقتدار ہیں جو صیغہ واحد متکلم کے سوا گفتگو ہی نہیں کرتے۔ تقریباً ان کے اڑھائی سالہ دورِ اقتدار کا اوّل و آخر ایجنڈا اپوزیشن کو ہدفِ تنقید بنانا اور موردِ الزام ٹھہرانا ہے۔ یہ حکمران بھی اپنی ناقص پالیسیوں‘ بُری گورننس‘ ناقابل برداشت مہنگائی کا ذمہ دار بھی سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتے ہیں۔ اس حکومت کو معلوم نہیں کہ جمہوریت کا حزبِ اختلاف کے بغیر کوئی تصور نہیں۔ مسئلہ معاشی ہو یا سیاسی ہو‘جناب وزیراعظم اہم سے اہم موضوع پر بھی اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دفتر عمل میں کوئی ایسا کارنامہ تو دور کی بات کوئی ایسا کام بھی نہیں کہ جو مصیبت زدہ عوام کیلئے رتی برابر ریلیف کا باعث ہو۔
اس حکومت کے دہرے معیار ہیں۔ جب جناب عمران خان حزبِ اختلاف میں تھے تو انہوں نے 126 روز تک دھرنا دیا۔ اس دوران پاکستان ٹیلی وژن سے لے کر پارلیمنٹ تک‘ تمام ریاستی عمارتیں دھرنے والوں کی زد میں تھیں۔ اُن دنوں خان صاحب نے اپنے بجلی کے بل جلا کر عوام کو سول نافرمانی پر اکسایا تھا۔ دراصل اس حکومت کے لینے کے باٹ اور‘ دینے کے باٹ اور ہیں۔ موجودہ حکومت کے وزیراعظم سمیت کئی وزرا گلگت بلتستان میں سرکاری تقریبات اور انتخابی جلسوں میں تقاریر کرتے رہے۔ اس وقت انہوں نے کورونا کا کوئی خیال نہ کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کرنے کو تیار نہیں‘ کوئی غیرجانبدار سیاسی فورم بھی موجود نہیں اور سردست مقتدرہ بھی کوئی مصالحتی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دیتی؛ تاہم پس پردہ کوششیں ہو رہی ہوں تو ہمیں معلوم نہیں۔ اپوزیشن کو برا بھلا کہنے سے حکومت کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ حالات کو بدترین سیاسی تصادم کی طرف لے جانے سے صرف ایک چیز بچا سکتی ہے‘ اس چیز کا نام ہے ''مذاکرات‘‘۔ نیک نیتی کے ساتھ اعتماد سازی ہو جائے تو پھر مذاکرات کی میز پر ہر مسئلہ زیر بحث آسکتا ہے اور اُس کا حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ مذاکرات کا راستہ چھوڑ کر حکومت اپوزیشن کو لاکھ دھمکیاں دے‘ کورونا سے ڈرائے‘ ایکشن لینے کی باتیں کرے‘ سب لاحاصل ہے۔ پی ڈی ایم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر حکومت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے۔ اتوار کے روز حکومت نے دانشمندی کا ثبوت دیا اور پشاور میں پی ڈی ایم کے جلسے کے خلاف کسی طرح کی طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ البتہ حکومت اپوزیشن پر الزامات لگانے کے بجائے مولانا فضل الرحمن کی پشاور میں حکومت اور وزیراعظم کے خلاف لگائی گئی چارج شیٹ کا دلائل کے ساتھ جواب دے۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو وہ یورپ کے اکثر ممالک‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیااور جاپان وغیرہ میں بڑی کامیابی سے چل رہی ہے؛ تاہم مختلف ملکوں میں رائج انتخابی کلچر کی بعض خامیاں اصلاح طلب ہیں۔ ابھی دوچار روز قبل ڈیموکریٹس کے مشہور لیڈر برنی سینڈرس نے کہا ہے کہ امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کے لیے ارب پتی سرمایہ کاروں سے بڑے بڑے فنڈز لیتی ہیں‘ لہٰذا کامیابی کے بعد اُن سرمایہ کاروں کی توقعات پر پورا بھی اُترنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہمیں بہت بڑی انتخابی مہم کے بجائے محدود پیمانے پر کم خرچ انتخابی تقریبات کا کلچر رائج کرنا چاہئے۔ پاکستانی جمہوریت کے ناقدین کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کا ضرور وزٹ کرنا چاہئے۔ ان ممالک میں بادشاہتیں اور آمریتیں موجود ہیں۔ پاکستان عالم اسلام کے دوچار جمہوری ملکوں میں سرفہرست ہے۔ یہ ریاست قائداعظم محمدعلی جناح کی بے مثال اور ولولہ انگیز قیادت کا ثمر ہے۔ 1973ء کے آئین کی موجودگی میں کوئی بڑے سے بڑا جمہوری یا غیر جمہوری آمر پاکستان کی جمہوری اساس کو نہیں مٹا سکتا۔ پاکستان میں بھی جمہوریت ناکام نہیں‘ کامیاب ہے مگر یہاں کے ''جمہوری حکمرانوں‘‘ کو اپنے آمرانہ رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں