اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ

سعودی عرب، اردن اور مصر کی سرحدوں کے سنگم اور بحرِ احمر کے کنارے ایک جدید ترین سعودی شہر آباد کیا جا رہا ہے۔ یہ شہر پروگریسو سوچ کے مالک پرنس محمد بن سلمان کے ماڈرن وژن کا عکس ہوگا۔ یہاں وہ تمام سہولتیں مہیا کی جارہی ہیں جو سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کیلئے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی نیوم میں روایتی نہیں جدید انداز کے وافر مواقع مہیا کیے جائیں گے۔ اسی شہر کے بارے میں اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے موساد کے سربراہ کے ہمراہ اتوار کو وہاں کا خفیہ دورہ کیا اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی۔
سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان آل سعود نے اس ملاقات کی تردید کی ہے جبکہ اسرائیلی وزیر تعلیم یوایوگلانٹ نے اسرائیلی فوجی ریڈیو پر نہایت مسرت سے اس ملاقات کی تصدیق کی اور کہا کہ اسرائیلی سعودی لیڈرشپ کی ملاقات ناقابل یقین کامیابی ہے جس پر وزیراعظم نیتن یاہو مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے کہ اگر دھواں نظر آ رہا ہے تو کہیں نہ کہیں آگ ضرور ہوگی۔ عرب دنیا اور اسرائیل کے ''اعلانیہ‘‘ خفیہ رابطوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بہت تیزی آئی ہے۔ خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے داماد جیرڈ کشنر کے ذریعے ان رابطوں کو تیزتر کروانے اور عربوں سے اسرائیل کی ساری شرائط بلکہ خواہشات منوانے کیلئے کوشاں تھے۔ ٹرمپ کی سرگرمیاں رنگ لائیں اور پہلی قسط کے طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔
عالمی خبروں اور تجزیوں کے مطابق سعودی عرب بھی پس پردہ اسی راستے پر گامزن ہے۔ سعودی عرب حرمین شریفین، تیل کی دولت اور علاقے کا بڑا ملک ہونے کی بنا پر نہایت اہم حیثیت کا مالک ہے۔ اس کی مرضی اور تھپکی کے بغیر متحدہ عرب امارات یا بحرین اسرائیل کے ساتھ اپنے طور پر تعلقات قائم نہیں کر سکتے تھے۔ ان تجزیہ کاروں کی رائے میں سعودی عرب بھی اندرونِ خانہ اسرائیل تسلیم کر چکا ہے یا کرنے کے قریب ہے بس مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب نے گزشتہ چند ماہ کے دوران دو تین بار سرکاری طور پر اپنی پرانی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہنے کا اعلان کیا‘ جس کے مطابق اس وقت تک اسرائیل سے کوئی ڈائیلاگ نہیں ہو گا جب تک وہ فلسطینیوں کی خودمختار ریاست کے قیام پر آمادہ نہیں ہو جاتا۔
اِسے اپنے عرب بھائیوں کی سادگی کہا جائے یا اُن کی مجبوری قرار دیا جائے کہ وہ ٹرمپ کی ''ڈیل آف دی سنچری‘‘ کے جال میں گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ڈیل سے عربوں یا فلسطینیوں کو کیا ملا؟ او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ موقف تو یہ ہے کہ اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ کسی طرح کے معاملات و مذاکرات نہیں کیے جائیں گے جب تک اسرائیل 1967ء کی پوزیشن پر واپس نہیں چلا جاتا اور ارض فلسطین میں اپنی توسیعی آبادیاں ملیامیٹ نہیں کر دیتا اور فلسطینیوں کی آزاد ریاست قائم کرنے کی راہ ہموار نہیں کرتا۔ ان میں سے ایک بات بھی پوری نہیں ہوئی۔ نہ صرف اسرائیل 1967ء کی جنگ کے بعد اپنے قبضے میں لیے گئے کسی علاقے کو خالی کرنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کا حق ریاست ماننے کو تیار ہے بلکہ وہ نہایت دھڑلّے سے نئی آبادیاں تعمیر کر رہا ہے اور غزہ سمیت مزید فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ ''ڈیل آف دی سنچری‘‘ قرار دینے والے ٹرمپ نے فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کے احتجاج کو پرِ کاہ جتنی اہمیت نہ دی اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے اسرائیل کو ارض فلسطین کا ایک انچ بھی خالی کرنے کو نہیں کہا‘ اسرائیل کی توسیعی پالیسی کی بھی توثیق کی ہے اور اسے تھپکی دی ہے کہ اپنا پروگرام جاری رکھو۔
سوچنے کی بات ہے کہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور آہستہ آہستہ ''ڈیل آف دی سنچری‘‘ پر عمل پیرا سعودی عرب یکدم تیزرفتار کیوں ہو گیا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے بعد جوبائیڈن کے بارے میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ ایران امریکہ نیوکلیئر ڈیل کی تجدید کریں گے' وہ ڈیل جو سابق ڈیموکریٹک صدر باراک اوباما نے کی تھی اور جسے ٹرمپ نے کینسل کر دیا تھا۔ سعودی عرب، اسرائیل اور عرب امارات کا خیال ہے کہ اس ڈیل کی تجدید کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں منظرنامہ خاصا بدل جائے گا۔ جہاں تک امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسی کا تعلق ہے تو اُس میں کسی امریکی صدر کے آنے جانے سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا؛ البتہ ڈیموکریٹس اسرائیلی مظالم پر چپ نہیں رہیں گے۔ ڈیموکریٹس کے سینئر لیڈر سینیٹر برنی سینڈر نے کہا ہے اسرائیل فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی کو فی الفور ختم کرے، غزہ میں حملے بند کرے اور فلسطینیوں کی خودمختار ریاست کا حق تسلیم کرے۔ کیسی ستم ظریفی کی بات ہے کہ گھر کا مالک، غاصب سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ اسے اپنے گھر کے کسی کونے میں ہی سر چھپانے کو جگہ دے دے۔ ایسا ذلت آمیز حشر اُن قوموں کا ہوتا ہے کہ جو زورِ بازو سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اپنی سرزمین پر ناجائز قبضہ ختم کرانے کیلئے قوت و جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسرائیل جیسے سنگدل قابض و غاصب محض عرض و نیاز سے راہ پر نہیں آتے۔ مرشد اقبال نے بالکل درست فرمایا ہے: 
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
سینیٹر برنی سینڈر کے بقول امریکہ فلسطین میں امن کا خواہاں ہے اور اُس کا پختہ یقین ہے کہ وہاں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہر فریق کو اُس کا حق نہیں دے دیا جاتا۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ پاکستان پر بھی دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اگر پاکستان ایسا کرتا ہے تو یہ بدترین قسم کا سرنڈر ہو گا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ سے لے کر آج تک ہماری ریاستی پالیسی واضح ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ہے اور جب تک وہ فلسطینیوں کی خودمختار ریاست کا حق تسلیم نہیں کرتا‘ اس وقت تک اُس کے ساتھ کسی طرح کے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ اگر عرب اور مسلمان حکمران اسرائیل کو بلا مشروط تسلیم کرلیتے ہیں اور فلسطینیوں کو تن تنہا چھوڑ دیتے ہیں تو کل اسرائیل اُن سے جینے کا حق بھی چھین لے گا۔ 
کالم کی تنگ دامانی کے باعث ہم تاریخی تفصیل میں تو نہیں جا سکتے تاہم گزشتہ نصف صدی کے واقعات پر ایک نظر تو ضرور ڈال سکتے ہیں۔ 1969ء میں او آئی سی کے تاریخی قیام، 1973ء کی جنگ میں عربوں کی کامیابی، امریکی پالیسیوں کے خلاف سعودی عرب کی طرف سے تیل کا ہتھیار استعمال کرنے سے لیکر 22 نومبر 2020ء کی شب سعودی سرزمین پر اسرائیلی وزیر اعظم کی ''غیرواضح آمد‘‘ تک کے واقعات کو چشمِ تصور سے دیکھئے اور سوچئے کہ امت مسلمہ کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی ہے۔ 
او آئی سی یا عرب لیگ کے ممبران میں سے کوئی جرأت کر کے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب بھائیوں سے یہ تو پوچھے کہ انہیں اس ڈیل سے کیا ملا؟ ٹرمپ کی ڈیل آف دی سنچری سو فیصد یکطرفہ ہے جس میں اسرائیل کے ہر غاصبانہ اقدام کو سند قبولیت عطا کردی گئی ہے اور فلسطینیوں سے اُن کی خودمختار ریاست کا زبانی کلامی حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق اکثر عرب ممالک ٹرمپ کی اہانت آمیز ڈیل آف دی سنچری کے سامنے ایک ایک کرکے سرنڈر کرتے اور ڈھیر ہوتے جائیں گے۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اب اسرائیل کو مہینوں میں نہیں ہفتوں میں تسلیم کر لے گا۔
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں