کیا یہ قربت بھی عارضی ثابت ہو گی

پی ڈی ایم کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے یا نہیں‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا‘ مگر ایک بات واضح ہے کہ جمہوریت کے ان قافلہ سالاروں میں بظاہر بہت زیادہ قربت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) گزشتہ تیس سال کے دوران کبھی باہم دست و گریبان نظر آتی تھیں‘ کبھی حلیفوں اور کبھی حریفوں کے روپ میں دکھائی دیتی تھیں۔ کبھی تلخیاں‘ کبھی راحتیں‘ کبھی ایک دوسرے کیلئے دشنام اور کبھی ایک دوسرے کیلئے دعا۔ اگر ماضی قریب میں جائیں تو صرف تین چار برس پہلے بلاول بھٹو زرداری نواز شریف کو جنرل ضیاالحق کا منہ بولا بیٹا قرار دیتے اور ''مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعرے لگاتے اور لگواتے سنائی دیتے تھے۔ اور اگر ذرا ماضی بعید میں جائیں تو پھر مسلم لیگ (ن) کی پروپیگنڈا مشینری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی معزز خواتین کے بارے میں کیسی کیسی زبان استعمال کی تھی‘ اس طرح کے افسوسناک الزامات و بیانات کو نہ اُس وقت نوکِ زباں پر لایا جا سکتا تھا اور نہ آج نوکِ قلم پر لایا جا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی معرکہ آرائی 1988ء سے لے کر 1999ء تک دس برس جاری رہی۔ اس معرکہ آرائی کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہم نے اس حکومت کو نہیں چلنے دینا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت آ جاتی تو اسے دو اڑھائی برس سے اوپر چلنے نہ دیا جاتا۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی تو اسے بھی دو اڑھائی برس سے اوپر برداشت نہ کیا جاتا۔ یوں کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت جلاوطن ہوتی رہی۔ پرویز مشرف کے دور میں تو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو جلاوطن ہونا پڑا۔ میاں صاحب کی جلاوطنی سے پہلے کبھی بے نظیر بھٹو نے میاں صاحب کے خلاف لانگ مارچ کیا اور کبھی میاں نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نجات چلائی۔ کبھی ایک پارٹی کو مقتدرہ کا حمایت یافتہ قرار دیا گیا اور کبھی یہ حمایت کا دعویٰ دوسری جماعت کے بارے میں کیا گیا‘یوں کبھی سول حکومت مستقل بنیادوں پر اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کر سکی۔ 
جدہ کے قصر السرور اور پھر لندن میں ملا جلا کر نواز شریف کو جلاوطنی کے چھ سات برس گزارنا پڑے۔ جلاوطنی چاہے کسی محل ہی میں کیوں نہ ہو طبیعت پر بہت شاق گزرتی ہے۔ وہاں جدہ میں میاں صاحب سے کئی بار ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے انہیں کسی طرح کے جزع فزع سے کام لیتے ہوئے نہ دیکھا۔ میاں صاحب وطنِ عزیز اور اہلِ وطن کے بارے میں اکثر متفکر رہا کرتے تھے۔ 2004ء میں میرے سعودی عرب سے چلے آنے کے بعد بھی مجھے دوستوں سے معلوم ہوتا رہا کہ میاں صاحب اکثر شام کو مجھ سمیت دوستوں کے کالم سنا کرتے تھے اور ان پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ جب نواز شریف واپس پاکستان آگئے تو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں اُن سے پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے جمہوریت کی حمایت میں لکھے گئے ہمارے کالموں کا بہت شکریہ ادا کیا۔ اس دوران جدہ کی ملاقاتوں میں کئی بار یہ بات زیرِ بحث آتی رہی کہ سیاست دانوں کو اپنے باہمی اختلافات ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے چاہئیں۔
2006ء تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ سات آٹھ برس کے دوران بہت سا نقصان ہو چکا تھا۔ کاش ایسا دوطرفہ نقصان نہ ہوا ہوتا۔ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق برسوں کے بعد فریقین کو احساس ہوا کہ آئندہ کیلئے اس نقصان سے بچنا چاہئے۔ 2006ء میں لندن میں دونوں بڑی پارٹیوں سمیت کئی پارٹیوں کی میٹنگ ہوئی جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ مستقبل کیلئے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ آئندہ بڑی سیاسی جماعتیں کسی کے ایما پر سیاسی آویزش سے بچیں اور جس کو اقتدار ملے اسے اطمینان سے اپنی ٹرم پوری کرنے دی جائے۔ یہ ایک بڑا مبارک معاہدہ تھا اور امید یہی تھی کہ اس معاہدے پر پورے اطمینان کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔ 2008ء میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر انتخاب لڑا۔ دونوں جماعتوں نے ابتدا میں اس پر عمل درآمد کیا۔ اس دوران 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک سفاک قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئیں اور یوں آصف علی زرداری کے ساتھ یہ معاہدہ جاری رہا‘ مگر جب زرداری صاحب نے ججز کی بحالی کے سلسلے میں اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو مسلم لیگ (ن) نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ اس کے بعد ایک بار پھر دوطرفہ گولہ باری شروع ہو گئی۔
2011ء میں ایک بار پھر میمو گیٹ سکینڈل کے حوالے سے فضا کافی گرم ہو گئی۔ اُس وقت حسین حقانی پیپلز پارٹی کی طرف سے امریکہ میں سفیر تھے۔ خبروں میں کہا گیا کہ اس وقت کے پاکستانی صدر کے ایما پر حسین حقانی سے ایک میمو لکھوایا گیا جس کے مطابق امریکی حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ پاکستانی مقتدرہ کو سیاست میں مداخلت سے اجتناب کرنے کو کہے۔ اس طرح کے میمو سے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کافی کشیدہ ہو گئے۔ 2011ء سے لے کر 2018ء تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں کئی اور معاملات میں بھی تنائو بڑھتا رہا۔ اس دوران دونوں پارٹیوں کے درمیان گرما گرمی جاری رہی؛ تاہم جب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں چپقلش بڑھتی گئی تو دونوں پارٹیوں کو اپنے مشترکہ حریف کیلئے ایک دوسرے کا حلیف بن جانے کی ضرورت کا شدت سے احساس ہوا۔
2006ء میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اکٹھے ہوکر دنیا کو دکھایا کہ جو ہوا سو ہوا ‘ آئندہ اتفاق کا منظر دیکھنے کو ملے گا‘ مگر پھر یہ عہد کئی بار ٹوٹا۔ آج 2020ء میں ایک بار پھر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے پاکستانی عوام کو میسج دیا ہے کہ اب آئندہ ہم ایک دوسرے کے سیاسی حلیف تو بن سکتے ہیں مگر یہ اختلاف ذاتی دشمنی میں نہیں بدلے گا۔ گڑھی خدا بخش میں مریم نواز نے سندھ کے عوام کو آئندہ کیلئے خوش بختی اور خوش حالی کا پیغام دیا۔ مریم نواز نے سندھی بہن بھائیوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو زرداری کے راستے پر چلتے ہوئے آئندہ کیلئے ایک خوش حال اور متحدہ پاکستان کی خوش خبری سنائی۔ 
آصف علی زرداری نے گڑھی خدا بخش میں پی ڈی ایم کے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے جناب عمران خان کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ آپ سے ملک نہیں چل رہا‘ میں نے شروع میں کہا تھا کہ یا ملک چلا لو یا نیب چلا لو۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ اُن کے پاس وہ سوچ ہی نہیں جس سے ملک چلائے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے 18ویں ترمیم کا تحفہ ملک کو دے کر سارے ملک کے عوام کو اُن کا حق دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے ہر صوبے کے لوگوں کو اُن کے حقوق کا حصہ مل چکا ہے۔اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھاکہ بی بی شہید کا پیغام بھی یہی تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ ہم جمہوریت‘ خوشحالی اور سب کی بھلائی کے راستے کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہم کسی سے انتقام نہیں چاہتے۔ ہم امن و آشتی کے علاوہ کسی اور راستے کو اختیار نہیں کریں گے۔ سندھ ہو یا پنجاب‘ کے پی ہو یا بلوچستان ہم ہر پاکستانی کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کا سبق یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق ملے۔ لوگوں کے حقوق حقوق غصب نہ کیے جائیں۔ آج ایک بار پھر پی ڈی ایم کے قائدین بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی ینگ قیادت کیلئے یہ چیلنج ہے کہ اس سے پہلے کئی بار دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی حلیف بن چکی ہیں‘ اب چاہئے تو یہ کہ سیاست میں یہ پارٹیاں حلیف ہوں یا حریف‘ مگر سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں نہیں بدلنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں