’’ویت نام تیرے نام‘‘

جس طرح سانپ بغیر شوکر کے بھی سامنے سے گزر جائے تو اس کی دہشت ہفتوں تک دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے۔ اسی طرح ان دنوں کوروناکہیں چھو کر بھی گزر جائے تو اس کی دہشت سانپ سے کم از کم دس گنا زیادہ اعصاب پر سوار رہتی ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور اُس کا احسان تھا کہ کورونامجھے چھو کر گزرا اور آج تین ہفتوں کی گھر پر جبری نظربندی کے بعد میں اعلانِ آزادی کر رہا ہوں۔ اس جبری نظربندی کے دوران میں نے کئی کتابیں پڑھیں تاہم 2020ء میں شائع ہونے والی جناب مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ''ویت نام تیرے نام‘‘ نے میرے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ تارڑ صاحب نے ایامِ جوانی میں بہت سے سفرنامے لکھے تھے؛ تاہم وقت گزرتا گیا اور تارڑ صاحب نوجوان سے جوان اور اب جوان سے بوڑھے ہو چکے ہیں مگر شوقِ گل بوسی اور لذتِ آوارگی ابھی تک اُن کے رگ و پے میں سمائی ہوئی ہے۔ اللہ بھی شکرخورے کے لیے شکر کا بندوبست کر دیتا ہے۔ تارڑ صاحب کے دو صاحبزادے فارن سروس میں ہیں اور نہایت مؤدب اور ادب شناس ہیں۔ تقریباً 2000ء میں تارڑ صاحب حج یا عمرے کی سعادت حاصل کرنے اپنے بیٹے کے پاس سعودی عرب آئے‘ جواُن دنوں جدہ قونصل خانے میں بطور فرسٹ سیکرٹری کام کر رہے تھے۔ میری دعوت پر تارڑ صاحب اپنے بیٹے کے ہمراہ تاریخی شہر طائف بھی تشریف لائے جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب ''منہ ول کعبے شریف‘‘ میں کیا ہے۔ ماضی قریب میں تارڑ صاحب اپنے دوسرے صاحبزادے کے پاس ویت نام تشریف لے گئے تھے۔ اب انہیں سفر میں بھی حضر کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ اسے ایک دلچسپ اتفاق سمجھئے کہ محض چند ہفتے قبل میرے ایک بزنس مین نوجوان بھتیجے نے ویت نام کی تجارتی و صنعتی دنیا میں بے پناہ اہمیت پر روشنی ڈالی تھی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ تارڑ صاحب کے حسنِ بیان اور ویت نام کی بزنس میں محیر العقول ترقی کے بارے میں لکھا جائے۔ پہلے ذرا ویت نام کے بارے میں وہ چند اقوال سن لیجئے جو ویت نامی اہلِ علم و ادب سے منسوب ہیں اور جن سے تارڑ صاحب نے اپنے سفرنامے کا آغاز کیا ہے۔''یہ زندگی صرف ایک پھول کو جھک کر دیکھنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ اور یہ دنیا، یہ دنیا تو بہت بڑی ہے زندگی ناکافی ہے۔تو یہ زندگی مختصر مختصر سراسر ناکافی ہے۔ہنوئی کی جھیل ہون کیم کے لیے بھی!‘‘
ویت نام کی جنگ تقریباً 1959ء میں شروع ہوئی تھی۔ ایک طرف شمالی ویت نام کی ہوچی منہ کی قیادت میں فوج تھی۔ اس فوج کو روس کی حمایت حاصل تھی۔ دوسری طرف جنوبی ویت نام کی فوج تھی جس کی عملی قیادت امریکہ کر رہا تھا۔ یہ جنگ اپریل 1975ء میں جنوبی ویت نام کے دارالحکومت سائیگون کی فتح کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔ 2 جولائی 1976ء کو مفتوح جنوبی ویت نام اور فاتح شمالی ویت نام کا آپس میں اتحاد ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں شمالی اور جنوبی ویت نام کے ملا کر 20 لاکھ سے اوپر لوگ ہلاک اور 17 لاکھ سے اوپر لوگ زخمی ہوئے تھے۔ امریکہ نے اس جنگ کے لیے ویت نام میں ساڑھے پانچ لاکھ فوجی اُتارے تھے اور سالہا سال تک امریکہ شب و روز وہاں بمبار طیاروں سے شدید بمباری کرتا رہا؛ تاہم عوامی جدوجہد کے سامنے امریکہ کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ ویت نام کی جنگ میں 66 ہزار امریکی ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں زخمی بھی ہوئے تھے۔مستنصر حسین تارڑ اپنے سفرنامے میں اس جنگ کے حوالے سے لکھتے ہیں یہ خون کا دریا تھا‘ اس کے پانی سولہ لاکھ سے زائد ویت نامیوں کے خونِ ناحق سے صرف چالیس برس پیشتر سرخ تھے۔ پھر جانے کتنی برساتوں کے بعد، کتنی دھواں دار آبشار بارشوں کے بعد وہ خون کے دھبے دھل گئے ہیں۔ ایک ویت نامی دانشور سے یہی سوال ہوا کہ آپ کیوں بھول گئے تو اس نے کہا کہ امریکہ کے خلاف جنگ ہمارے باپ دادا کی تھی جس میں وہ جیت گئے تو دشمنی کا یہ باب اختتام کو پہنچا ہے۔ امریکہ کل ہمارا دشمن تھا، آج ہمارا بہترین دوست ہے، کہ عہدِ حاضر کا یہی تقاضا ہے۔ جبکہ ہم گئے زمانوں کی سربلندی کے قصے اپنے بچوں میں منتقل کرتے جاتے ہیں۔
جھیلوں کے ساتھ تارڑ صاحب کو خاص عشق ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کوئی نہ کوئی جھیل دریافت کر لیتے ہیں۔ اگر دریافت نہ ہو تو خود تخلیق کر لیتے ہیں۔ پھر اس میں کنول بھی تیرتے ہوئے دکھا دیتے ہیں اور جھیل کے طلسماتی و کرشماتی اوصاف پر بھی ایک دلفریب لیکچر ارشاد فرما دیتے ہیں۔ البتہ خوش قسمتی سے ہنوئی میں تو پہلے سے ایک طلسماتی اور کئی چھوٹی بڑی جھیلیں موجود تھیں لہٰذا تارڑ صاحب کو تخلیقی عمل کی کاوش سے نہیں گزرنا پڑا۔ تارڑ صاحب کے الفاظ ملاحظہ کیجئے ''کل کلاں اگر دماغ کے خلیوں میں یادوں کے سب چراغ گل ہو جائیں تو کہیں بھی اُس سویر جھیل ہون کیم کے کناروں پر جو رعنائیاں، آزادیاں، سرخوشیاں، بے فکریاں، بے حجاب مسرتیں، بے حسابیاں تھیں وہ بھی بھلائی نہیں جا سکتیں‘‘۔
''ہنوئی کی گلیاں بھی اوراقِ مصور ہیں۔ اگرچہ ہر ورق پر خونِ ناحق کے چھینٹے ہیں‘‘۔ تارڑ صاحب نے ایک پاکستانی ڈپلومیٹ کے والدین کی حیثیت سے چاچا ہوچی منہ کی حنوط شدہ لاش کی بڑے فوجی اعزاز اور پروٹوکول کے ساتھ ''زیارت‘‘ کی۔ تارڑ صاحب نے جاپانی کھانے اور ویت نامی سبزیوں کی کئی خوش ذائقہ اور بے ذائقہ ڈشز کا بھی ذکر کیا ہے، تارڑ صاحب نے ہنوئی میں چلغوزوں کا سوپ بھی پیا۔ اسے انہوں نے دنیا بھر کے مختلف الانواع ''سوپوں‘‘ پر ذائقے اور مہک کے اعتبار سے سب سے افضل قرار دیا ہے۔ تارڑ صاحب خوش قسمت ہیں کہ وہ ویت نام میں چلغوزوں کا سوپ نوشِ جاں کرتے رہے جبکہ یہاں چلغوزے دیکھنے کو بھی نصیب نہیں ہوتے اور اگر کسی کی جیب سے چند دانے چلغوزوں کے برآمد ہو جائیں تو وہ دستِ احتساب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
اب آئیے ویت نام کی موجودہ عالمی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ویت نام اس وقت دنیا کی توجہ کا اس لیے مرکز ہے کہ یہاں سمارٹ فونز بہت بڑی تعداد میں تیار کیے جارہے ہیں۔ سام سنگ کمپنی نے ویت نام کے صوبے نام تھائی نیگیون میں سمارٹ فونز اور ٹیبلٹ وغیرہ تیار کرنے کیلئے دو فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔ ان فیکٹریوں میں تقریباً دو لاکھ ورکرز کام کرتے ہیں۔ یہاں سالانہ 120 ملین یونٹس تیار ہوتے ہیں۔ ویتنام کی کل جی ڈی پی کا 28 فیصد تو صرف ان دو فیکٹریوں کی پیداوار سے حاصل ہوتا ہے۔ 2019ء میں ویتنام کی سمارٹ فونز کی برآمد 51.38 بلین ڈالرز پر مشتمل تھی۔ اب سام سنگ یہاں تیسری فیکٹری لگانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ 2019ء میں سام سنگ کی ساری دنیا میں کی جانے والی ایکسپورٹ کا 58 فیصد ویتنام کی فیکٹریوں سے بھیجا گیا۔ جب یہ معلومات سمارٹ فونز انڈسٹری سے متعلقہ حضرات کے توسط سے جناب وزیراعظم کے نوٹس میں آئیں تو انہوں نے یہاں بھی اسمبلنگ اور مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کی پلاننگ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ دیکھئے ان پر عملدرآمد کب ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں بیرونی قرضوں سے نجات مل سکتی ہے اور پاکستان کی کایا بھی پلٹ سکتی ہے۔
بہرحال آج کا کالم ''ویت نام تیرے نام‘‘ ہے۔
زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی تو میں بھی ہوں
اور یہ زندگی ناکافی نہیں ہے
ایک پھول کے لیے، ایک بادل کے لیے
ایک ریچھ کے لیے، اور ویت نام کے لیے
ویت نام تیرے نام، تیرے نام!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں