صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں

بعض اوقات جب ایک کوہِ غم ٹوٹتا ہے تو اس کے بعد یکے بعد دیگرے صدمے آپ کو نڈھال کرنے چلے آتے ہیں۔ 2 اور 3 جنوری کی درمیانی شب کو اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں ایک بے گناہ 22 سالہ نوجوان کا انتہائی بے دردی سے قتل ہوا۔ اگلے ہی روز یعنی تین جنوری بروز اتوار بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کو ہاتھ پائوں باندھ کر ذبح کر دیا گیا۔ ان دونوں صدموں کے بوجھ تلے دل و جان کراہ رہے تھے کہ پیر کے روز تقریباً ساڑھے بارہ بجے میرے بیٹے سلمان کا فون آیا کہ آپ نے انکل رئوف طاہر کے بارے میں کچھ سنا؟ میں نے کہا کہ نہیں‘ خدا خیر کرے۔ سلمان نے بتایا: میں نے ابھی کسی فیس بک میں پڑھا ہے کہ وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ میں سناٹے میں آ گیا۔ دل کسی طرح بھی اُن کے اچانک انتقال کی خبر ماننے پر تیار نہیں تھا۔ لرزیدہ انگلیوں اور نم دیدہ آنکھوں سے بمشکل مجیب الرحمن شامی صاحب کا نمبر ملایا۔ وہ لاہور میں سب دوستوں کی خوشی و غمی کا مرکزومحور ہیں۔ شامی صاحب سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑی‘ انہوں نے گلوگیر لہجے میں بتایا کہ ہاں! رئوف طاہر چل بسا ہے۔
اتنے مسلسل غموں کو کوئی کہاں تک برداشت کرے۔ ذرا کسی والد یا والدہ سے پوچھیں کہ اگر نوجوان بیٹے کا موبائل فون چند منٹوں کیلئے بند ہو تو دل پر کیا قیامت گزرتی ہے اور جب نصف شب کو جوان بیٹا نہ لوٹے بلکہ گولیوں سے چھلنی اس کی میت گھر پہنچے تو پھر محسوس کریں کہ غم کے مارے والدین کا کیا حشر ہوتا ہے۔ میں نے غم کے اس پہاڑ کو ذاتی صدمے کے طور پر محسوس کیا۔ اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس نوٹ کے مطابق انسدادِ دہشتگردی پولیس نے ایک ڈاکو کا تعاقب کرکے اس کی گاڑی کے ٹائروں پر گولیاں چلائیں جو بدقسمتی سے اس کے سر میں جا لگیں۔ یہ تضاد بیانی بھی پولیس کے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کیلئے کافی ہے۔ مقتول اسامہ ستی کے والد کی لکھوائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ایک روز پہلے اسامہ ستی کی انسدادِ دہشتگردی کے 5 جوانوں سے تلخ کلامی ہوئی تھی‘ جس پر انہوں نے نوجوان طالب علم کو دھمکی دی تھی کہ وہ اسے مزہ چکھائیں گے۔ پولیس کے مزہ چکھانے سے مراد بیدردی سے قتل ہے؟ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا: جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
''کارِ جہاں بینی‘‘ پر یہاں کوئی تیار نہیں۔ آپ نے انسدادِ دہشتگردی پولیس بنا دی، اُن کے ہاتھ میں جدید خودکار اسلحہ تھما دیا، لامحدود اختیارات دے دیئے مگر اُن کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ اس زیرو تربیت کے بعد ہتھ چھٹ پولیس نے یہی کچھ نہیں کرنا تو کیا کرنا ہے؟ اس حکومت کی آمد کے ساتھ ہی سانحۂ ساہیوال ہوا تھا جس میں ''انسدادِ دہشتگردی‘‘ نے دہشتگردی کی انتہا کر دی‘ ایک بے قصور فیملی کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر مقتول خاندان کے لواحقین کو جبری طور پر کچھ دے دلاکر چپ کرا دیا گیا۔ ملک کو ریاست مدینہ جیسا بنانے کے دعویدار حکمرانوں کو کوئی اندازہ نہیں کہ حاکم ریاست روزِ قیامت کٹہرے میں کھڑا ہوگا کہ بے گناہوں کو کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ پولیس والوں کو ایسی بہیمانہ کارروائیاں کرتے ہوئے یقین ہوتا ہے کہ اُن کے ''پیٹی بھرا‘‘ انہیں بچا لیں گے۔
گزشتہ 14 برس کے دوران ہزارہ برادری کے 2000 سے اوپر لوگ انتہائی بیدردی سے قتل کر دیئے گئے ہیں۔ ہزارہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم دو عشروں سے قیدیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں اور سکیورٹی کے بغیر گھر سے نکل نہیں سکتے۔ ہزارہ برادری کے زیادہ تر لوگ کان کنی کا کام کرتے ہیں۔ شاید آپ کو یاد ہوکہ آج سے چار سال قبل سینکڑوں کی تعداد میں ہزارہ مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے تو ہزارہ لوگوں نے احتجاج کے طور پر انہیں کئی روز تک دفن کرنے سے انکار کیا۔ آج پھر وہی قیامت کی گھڑی ہے۔ مچھ میں ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کو قتل کر دیا گیا۔ گزشتہ چار روز سے مغربی بائی پاس کو بلاک کرکے اور میتوں کو اپنے سامنے رکھے ہوئے منفی 8 درجے کی سردی میں مقتولین کے لواحقین اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مردوزن بڑی شدت سے حاکمِ وقت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ آئیں اور انہیں آئندہ کے لیے یقین دہانی کرائیں کہ پھر ایسا غیرانسانی واقعہ نہیں دوہرایا جائے گا‘ مگر حاکم وفاقی دارالحکومت میں کچھ اور ضروری کاموں میں مصروف ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انسانی زندگی کی حرمت سے بڑھ کر اور کیا ضروری کام ہوگا۔ ہمیں کارِ جہاں بانی آتا ہے نہ کارِ جہاں بینی۔ ساٹھ ستر ہزار پاکستانیوں کی حفاظت کا کام بھی ہم انجام نہیں دے سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں تو اُس وقت جناب وزیراعظم ہزارہ برادری کے مطالبے پر کوئٹہ پہنچ چکے ہوں۔ 
اب آئیے ذاتی و صحافتی صدمے کی طرف۔ برادرِ عزیز رئوف طاہر موجودہ زمانے کی صحافتی اقدار کے مقابلے میں ''زمانہ قدیم‘‘ کے منفرد صحافی تھے۔ وہ ہماری طرح کے ''براہِ راست‘‘ کالم نگار نہ تھے۔ وہ رپورٹر بھی رہے، سب ایڈیٹر بھی رہے، ایڈیٹر بھی رہے، اداریہ نویس بھی رہے اور پھر عشروں کی مکمل تربیت کے بعد کالم نگار اور تجزیہ کار کی حیثیت سے انہوں نے اپنا لوہا منوایا۔ اُن کی شخصیت کیا تھی؟ ایک چلتا پھرتا مقناطیس تھی۔ وہ ہر دوست سے والہانہ محبت کرتے، اُس کے ساتھ رابطہ رکھتے اور اپنے سے سینئر اخبار نویسوں کا تہہ دل سے احترام کرتے تھے۔ اگرچہ اُن کی ابتدائی اٹھان اور پہچان اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی تھی، مگر اس کے بعد پاکستان کی سیاسی و معاشی ترقی اور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے وہ اپنی امیدوں سمیت مسلم لیگ (ن) کے شجر سے وابستہ ہو گئے اور آخر وقت تک اس وابستگی پر فرق نہیں آیا۔
تکبیر کے ایڈیٹر جناب صلاح الدین مرحوم نے ہفت روزہ 'اردو میگزین‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے رئوف طاہر کا انتخاب کیا جو ایک حسنِ انتخاب ثابت ہوا۔ اُن سے تعارف تو کئی دہائیاں پہلے سے تھا مگر 2000ء کے قریب جدہ کی ملاقاتوں سے ہمارے تعلق خاطر میں بہت گرم جوشی پیدا ہوگئی۔ اُنہی دنوں جدہ میں میاں نواز شریف صاحب بھی مقیم تھے جن کے ساتھ رئوف طاہر صاحب کی دوستانہ قربت قائم ہوگئی۔ 
میں اور رئوف طاہر صاحب ایک چینل کے پروگرام 'ڈیبیٹ آن نیوز‘ میں تجزیہ کار کی حیثیت سے سال ڈیڑھ سال تک ہفتے میں چار پروگرام کرتے رہے۔ ڈاکٹر فرحی امین ہماری اینکرپرسن تھیں۔ پروگرام کے دوران کبھی کبھی میری اور رئوف طاہر صاحب کی شدید جھڑپ بھی ہو جاتی مگر پروگرام سے نکل کر ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اسی طرح خوش گپیاں کر رہے ہوتے۔ بعدازاں رضوان رضی صاحب بھی اس پروگرام کا حصہ بن گئے۔ جس روز ہمیں معلوم ہوا کہ سرگودھا یونیورسٹی کے بزرگ سابق وائس چانسلر جناب ڈاکٹر اکرم چودھری کو ہتھکڑیاں لگا کر نیب عدالت میں پیش کیا گیا‘ اس روز برادرم رئوف طاہر کو ہم نے دیکھا کہ وہ شدتِ جذبات کا ایک کھولتا ہوا آتش فشاں بن چکے ہیں۔ انہوں نے لائیو پروگرام میں اس حکومتی اقدام کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی۔ میں نے اور ہماری اینکر نے برادرم رئوف طاہر کی بھرپور پیروی کی۔ یوں آج بھی یہ پروگرام یوٹیوب پر بہت بڑی ریٹنگ کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ رئوف طاہر لاہور کی ادبی، صحافتی اور سیاسی مجالس کی روحِ رواں تھے۔ وہ یکایک سب کو اداس کرکے چلے گئے۔ میں پے بہ پے صدموں سے ابھی تک جانبر نہیں ہو سکا۔ ناصر کاظمی نے ایسے ہی مواقع کے لیے کہا تھا؎
کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں