جی ہاں! یہ امریکہ ہے

امریکہ کیا دنیا کے لیے بھی یہ ایک ناقابلِ تصور منظر تھا۔ امریکی پارلیمان کا نام یو ایس کانگریس ہے۔ ایوانِ زیریں ایوانِ نمائندگان کہلاتا ہے جبکہ ایوانِ بالا کا نام سینیٹ ہے۔ بدھ کے روز کانگریس کا مشترکہ اجلاس کیپیٹل ہل واشنگٹن کی تاریخی عمارت میں جاری تھا۔ اجلاس کا مقصد صدر جوزف بائیڈن کو ملنے والے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی ایک مرتبہ پھر گنتی اور ان کی کامیابی کا رسمی اعلان تھا۔ یکایک اس جاری اجلاس کے دوران کانگریس کے باہر ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں احتجاج کرنے والے ہزاروں گوروں سے خود امریکی صدر نے پرجوش اپیل کی کہ کامیابی مجھے ملی ہے جبکہ اس وقت بائیڈن کے حق میں توثیقی عمل جاری ہے تم کانگریس پر چڑھ دوڑو اور اندر جا کر احتجاج کرو اور اس عمل کو رکوا دو۔ امریکہ کی تاریخ میں 159 برس سے ایسا نہیں ہوا تھا۔ یہ احتجاجی ٹولہ فی الواقع کانگریس کی عمارت پر چڑھ دوڑا اور سکیورٹی کو روندتے ہوئے عمارت کے اندر پہنچ گیا۔
احتجاج کرنے والوں میں سے تو ایک شخص سپیکر کی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ یہ لائیو مناظر ساری دنیا دیکھ رہی تھی۔ مہذب مغربی جمہوری دنیا نے تو فوری طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس طرزِعمل کی شدید مذمت کی۔ جوبائیڈن نے اس ہلڑبازی‘ بدنظمی اور امریکی کانگریس پر وقتی قبضے کو داخلی دہشت گردی‘ جمہوریت پر حملہ اور امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا۔ پاکستان اور امریکہ کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جب جمہوریت مستحکم ہو تو ریاست کے تمام ادارے اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے ہیں اور مجال ہے کہ کوئی ادارہ اپنے مدار سے نکلے یا کسی ماورائے آئین اقدام کی جرأت کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ دو ماہ سے امریکی صدر ہونے کی حیثیت سے عدالتوں کی خاک چھان رہا تھا‘ شاید اسٹیبلشمنٹ کی طرف بھی دیکھ رہا ہو مگر کہیں سے اُسے نظریۂ ضرورت کی صورت میں یا کسی کی دھمکی کے حوالے سے یا خوشامدیوں کے بیانات کے لامتناہی سلسلے کی شکل میں کوئی حوصلہ افزائی حاصل نہیں ہوئی۔ مستحکم سسٹم چٹان کی مانند ڈٹ کر کھڑا ہو گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نام کا ایک شخص جو اپنی ہٹ دھرمی‘ اناپسندی‘ اور بے لگام خواہش پرستی کی بنا پر سسٹم کے مدار سے ذرا باہر ہوا تو فوراً الارم بجنے لگے اور چند گھنٹوں میں یوں محسوس ہوا کہ ہر شے اپنی جگہ پر واپس آگئی ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی جرأت مند سپیکر نینسی پلوسی نے فوری طور پر فوج کو طلب کرلیا۔ واشنگٹن میں 6 بجے شام سے 6 بجے صبح تک کرفیو نافذ کر دیا گیا اور توثیقی اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوگئی۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس کی زیر صدارت یہ اجلاس صبح ساڑھے تین بجے تک جاری رہا۔ مائیک پینس کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہدایت کی تھی کہ وہ الیکٹورل کالج کے ووٹوں کو چیلنج کر دے۔ مائیک پینس نے علی الاعلان کہا کہ وہ بلاجواز یہ قدم نہیں اٹھا سکتا۔ یہ اجلاس پندرہ گھنٹے جاری رہا۔ جمعرات کی صبح 3 بج کر 32 منٹ پر امریکی نائب صدر نے جوبائیڈن کی کامیابی کی توثیق کردی۔ تقریباً نصف گھنٹے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے سسٹم کے سامنے سرنگوں کر دیا مگر اپنی اکڑ اور ضد برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ اگرچہ وہ اپنی شکست نہیں مانتا مگر وہ اس توثیق کو تسلیم کرتا ہے اور اب 20 جنوری کو حسبِ پروگرام جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری ہوگی مگر وہ اس تقریب میں شامل نہیں ہوگا۔ گویا رسّی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔ مستحکم اور متزلزل جمہوریت میں یہ فرق ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے انا پرست کو بھی سسٹم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا؛تاہم امریکی جمہوریت کے خیرخواہوں اور سیاست دانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس غیرجمہوری‘ غیرآئینی اور غیرسیاسی آمرانہ رویے کی بھرپور مذمت کی اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کا مواخذہ کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے بعض دوست اور ری پبلکن و ڈیموکریٹ ارکانِ سینیٹ و ایوانِ نمائندگان اُس پر زور دے رہے ہیں کہ وہ فی الفور مستعفی ہو جائے اور دوبارہ مواخذے کی ذلت سے محفوظ رہے مگر ضد اور اناپرستی ایسی ''صفات‘‘ ہیں کہ جو انسان کو ذلت کی پستی پر پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتیں۔ ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے کہا کہ جلد از جلد 11 جنوری بروز پیر ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی قرارداد ایوان میں پیش کی جائے گی۔ برنی سینڈرس ڈیموکریٹ پارٹی کے نہایت ہی واجب الاحترام سینئر رکن ہیں اور امریکی سیاست اور آئین وغیرہ کے بارے میں نہایت عالمانہ و دانشورانہ گفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے بعد اب حلف برداری کی تقریب میں صرف دس گیارہ روز باقی ہیں تو اس وقت ٹرمپ کے مواخذے کی کیا ضرورت ہے؟ برنی سینڈرس نے کہا کہ ہم امریکی عوام اور دنیا کے جمہوریت نواز لوگوں کو یہ میسج دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے انتخابی ادارے‘ ہمارے سیاسی ایوان‘ ہماری عدالتیں اور من حیث الکل ہمارا سسٹم بالکل درست کام کر رہا ہے۔ البتہ کوئی شخص اپنے مدار سے ماورا ہوکر کوئی کارروائی کرے گا تو اسے ضرور سبق سکھایا جائے گا تاکہ آئندہ بھی کسی کو انتخابی نتائج پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ اس لیے ہم ٹرمپ کے خلاف دوسری مرتبہ مواخذے کی کارروائی کریں گے جو اس بار ضرور کامیاب ہوگی۔ اب ڈیموکریٹس کو ایوانِ نمائندگان میں ہی نہیں سینیٹ میں بھی برتری حاصل ہوچکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے جارحانہ مزاج کے اسیر بن چکے ہیں۔ اس لیے وہ عزت و احترام سے رخصت ہونے کے بجائے وائٹ ہائوس سے بے آبرو ہو کر نکلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ 
اِکا دُکا تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ جمہوریت ایک تماشا بن چکی ہے اور اس کا زوال بھی کمیونزم کی طرح زیادہ دور نہیں۔ ہم اس تجزیے سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے۔ یہ تو بڑی سطحی سی بات ہے۔ کمیونزم اس لیے زوال سے دوچار ہوا کہ وہ خلافِ فطرت تھا۔ اب اگر چین میں اسی کمیونزم کو فطرت آشنا کیا گیا ہے اور ذاتی ملکیت کا حق فرد کو لوٹا دیا گیا ہے تو چین کی ترقی ساری دنیا کے لیے قابلِ رشک بن چکی ہے۔ ہر فلسفۂ زندگی اور بالخصوص دینِ حق میں جمہوریت موجود ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''وہ اپنے امور باہمی صلاح مشورے سے طے کرتے ہیں‘‘۔ ابھی تک دانش نورانی یا دانش برہانی جمہوریت سے بڑھ کر کوئی اور مؤثر نظامِ سیاست سے دنیا کو متعارف نہیں کرا سکی۔ البتہ سرمایہ دارانہ نظام بھی کئی پہلوئوں کے اعتبار سے خلافِ فطرت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چند لوگ دنیا بھر کی دولت سمیٹ لیں اور اربوں دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہیں۔ اہلِ دانش جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے فرق کو سمجھیں۔ جمہوریت آزادانہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والے نظامِ ِسیاست کا نام ہے جبکہ سرمایہ داری استحصالی معیشت کا دوسرا نام ہے۔ 
6 جنوری بروز بدھ واشنگٹن میں منظرعام پر آنے والی ہلڑبازی اور بدنظمی میں ہمارے لیے بھی کئی اسباق ہیں۔ پہلا سبق تو یہ ہے کہ جمہوریت جتنی مستحکم ہوگی معاشرہ اتنا ہی پرامن اور پرسکون ہوگا۔ دوسرا اہم ترین سبق یہ ہے کہ ایک ہڑبونگ اور کانگریس پر حملے کے واقعے کو مضبوط سیاسی سسٹم نے چند گھنٹوں کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ ہر ادارہ اپنے مدار میں اپنا اپنا کام کرتا رہا۔ نہ جانے والے نے کسی اسٹیبلشمنٹ کی دھمکی دی اور نہ آنے والوں نے کسی کو پکارا۔ اب امریکی سیاست دان اپنے سسٹم میں آنے والی انفرادی خرابی کا علاج کر رہے ہیں۔ آئندہ چار برس کے دوران جوبائیڈن کا ایک اہم مشن تعصبات کی اُن دیواروں کو گرانا بھی ہے جو دیواریں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکیوں کے درمیان کھڑی کی ہیں۔ جی ہاں! یہ امریکہ ہے۔ یہاں کی جمہوریت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مضبوط اور مستحکم ہے اور اسے گرانا تو دور کی بات کوئی اس میں معمولی سی دراڑ بھی پیدا نہیں کر سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں