کیا پی ڈی ایم کی تحریک فائنل فیز میں داخل ہو چکی ہے؟

جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے اس کا فسانہ تو بس اتنا ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا اور جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس کا منصوبہ یک نکاتی اور بڑا واضح ہے یعنی 'شریفاں دی کندھ ڈھانی اے بھانویں آپ تھلّے آجائیے‘۔ حکومت نے پہلے روز سے یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ اپوزیشن کو منہ نہیں لگانا، اسے گھاس نہیں ڈالنا، ہارٹ ٹو ہارٹ تو دور کی بات ہے اس کے ساتھ بیٹھ کر دوبدو بات چیت بھی نہیں کرنی۔ جب کوئی حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی طرف متوجہ کرے تو جناب وزیراعظم کا رٹا رٹایا جواب یہ ہوتا ہے: میں چوروں اور ڈاکوئوں کو این آر او نہیں دوں گا۔
ان حالات میں اپوزیشن اب تنگ آمد بجنگ آمد پر اتر آئی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اپوزیشن کا اتحاد 'پاکستان جمہوری موومنٹ‘ شہر شہر اور نگرنگر عوام کے پاس جا رہا ہے۔ شدید ترین سردی میں بھی لوگ اُن کی بات سننے آتے ہیں کیونکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ''نئے پاکستان‘‘ والوں نے آپ کو کچھ دینا تو کجا وہ سب کچھ بھی چھین لیا ہے جس کے سہارے آپ قدرے پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ منگل کے روز پی ڈی ایم کے تقریباً تمام رہنما سوائے بلاول بھٹو زرداری کے صوبوں کے بعد شہر اقتدار یعنی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے اور انہوں نے ریڈ زون میں الیکشن کمیشن کے سامنے بھرپور مظاہرہ کیا۔ حکومتی وزرا نے حسبِ معمول اسے ایک ڈیڑھ ہزار کا مظاہرہ کہا جبکہ مریم نواز نے اسے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا مجمع قرار دیا۔ قطع نظر اس بات کے کہ جم غفیر تھا یا ''جم صغیر‘‘ تھا‘ اپوزیشن نے قومی اداروں اور حکومت کو جو میسج دیا وہ بہت ''کبیر‘‘ تھا۔ مولانا فضل الرحمن دلیل دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں بے بس الیکشن کمیشن سے زیادہ امید نہیں مگر ہم پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فارن فنڈنگ کیس کا فی الفور فیصلہ صادر کرے۔ مولانا نے مدارس کے طلبہ کو جلسوں میں نہ بلانے پر وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو یاد دلایاکہ جب آپ خود طالبعلم تھے تو جلسوں میں بصد شوق آتے تھے‘ آج کے عاقل و بالغ دینی مدارس کے طلبہ کوآپ جلسوں میں آنے سے کیوں منع کررہے ہیں۔
مریم نواز نے وفاقی دارالحکومت میں کھڑے ہوکر الیکشن کمیشن کے سامنے وزیراعظم پر الزام لگایا کہ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی انڈیا کے فلاں آدمی سے اور اسرائیل کے فلاں شخص سے فنڈلیا تھا‘ دونوں ہمارے دشمن ممالک ہیں۔ مریم نواز نے دونوں افراد کے نام بھی بتائے۔ انہوں نے کہاکہ سات سال تک کچھ قوتوں کے ایما پر الیکشن کمیشن نے اس کیس کا فیصلہ نہیں سنایا اور یوں عمران خان کو نااہل ہونے سے ابھی تک بچایا گیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟ یہ مقدمہ اپوزیشن کے کسی لیڈر نے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014ء میں دائر کیا تھا۔ انہوں نے شواہد سے ثابت کیاکہ عمران خان کی قائم کردہ فنڈنگ کمپنیوں کے ایجنٹ بھی انہوں نے خود مقرر کیے تھے‘ ایک ایک رقم کا خان صاحب کو براہِ راست علم ہوتا تھا۔ بابر صاحب کے بقول پی ٹی آئی کو ممنوعہ رقوم غیرقانونی طریقے سے آتی رہیں اور خان صاحب انہیں قبول کرتے رہے۔ بادی النظر میں الیکشن کمیشن کے سامنے جو شواہد پیش ہوئے ہیں اُن کی روشنی میں اگر میرٹ پر فیصلہ دیا جائے تو وہ بظاہر جناب وزیراعظم کے حق میں جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ سات برس اکبر ایس بابر بار بار الیکشن کمیشن کے دروازے پر دستک دیتے رہے مگر جواب ندارد۔ اس وقت الیکشن کمیشن پر یقینا دوہرا دبائو ہوگا۔ ایک طرف حکومت حسب سابق فیصلہ رکوانا چاہے گی اور دوسری طرف اپوزیشن والے بلاتاخیر فیصلہ چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کب اور کیا فیصلہ صادر کرتا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے کیوں نہیں آیا؟ کیا پی ڈی ایم اسی طرح ہلکی پھلکی احتجاجی موسیقی جاری رکھے گی یا کوئی آر یا پار کا مرحلہ بھی آئے گا۔ اگرچہ پی ڈی ایم میں اپوزیشن کی گیارہ قومی، دینی اور علاقائی جماعتیں شامل ہیں اور وہ ساری کی ساری نہایت متحرک ہیں؛ تاہم اس اتحاد میں ایک مثلث مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مثلث کے تین اضلاع ہیں، ایک مولانا فضل الرحمن، دوسرے میاں نواز شریف اور تیسرے بلاول بھٹو زرداری۔ مثلث کے پہلے دو اضلاع تو یک جان دو قالب ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اِن دونوں شخصیات کے درمیان رابطہ رہتا ہے اور پیہم مشورہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ دونوں زخم خوردہ ہیں۔ میاں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت 2018ء کے انتخابات جیت رہی تھی مگر زبردستی اُن کی جیت عمران خان صاحب کی جھولی میں ڈال دی گئی۔ مولانا اس لحاظ سے زخم خوردہ ہیں کہ گزشتہ برس وہ دور دور سے لوگوں کو لے کر اسلام آباد دھرنے کیلئے آئے۔ مولانا کا دھرنا انتہائی پرعزم اور پرامن تھا جو کئی روز جاری رہا؛ تاہم کچھ ذمہ دار لوگوں نے مولانا سے ملاقات کی اور اُن کے اہم مطالبات پورے کرانے کی انہیں یقین دہانی کرائی مگر بعد میں رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔ مولانا نے مجھے براہِ راست بتایا تھا کہ اسداللہ غالب نے تو کہا تھاع
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
مگر میں نے ان ذمہ دار لوگوں کی بات پر دل و جان سے اعتبار کیا تھا۔ جہاں تک پی ڈی ایم کی مثلث کے تیسرے ضلع کا تعلق ہے تو وہ بیک وقت کئی آپشنز کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو سمیت پارٹی کے اکثر رہنما یکبارگی حکومت سے دستبردار ہونے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ وہ اِن ہائوس تبدیلی کے آپشن کو بھی سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے پی ڈی ایم کے ایک سینئر رہنما سے پوچھاکہ جناب! اندرون خانہ کہانی کیا ہے؟ اُن کا کہنا تھا: پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی بنیادی نقطہ نظر کا کوئی اختلاف نہیں بس سیاسی و احتجاجی حکمت عملی کے بارے میں انیس بیس کا فرق چلتا رہتا ہے‘ اس لیے اِن ہائوس تبدیلی بھی شجر ممنوعہ نہیں‘ اور اگر اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مرحلہ آگیا تو پی ڈی ایم جو فیصلہ کرے گی‘پیپلز پارٹی اُس فیصلہ کو من و عن تسلیم کرے گی۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ حکومت براڈشیٹ اور فارن فنڈنگ کیس میں بیک فٹ پر جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تواس کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک حد تک تو ساتھ دیتی ہے مگر جب دیوارِ خستگی لرزنے لگتی ہے تو پھر وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
میں نے پی ڈی ایم کے ایک انتہائی ثقہ رہنما سے پوچھاکہ جناب قافلۂ جمہوریت اب کس مرحلے میں ہے۔ اُن کا جواب تھا کہ اب ہم منزل کے بہت قریب ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا کہ جناب کیا آپ کی منزل اسلام آباد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نہیں یہاں کے صاحبانِ اختیار کو بے اختیار کرنا ہے۔ میرا اگلا سوال بزبانِ فیض یہ تھا:ع
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں؟
اُن کا کہنا تھاکہ موسم بہار کی ابتدا میں ہم قوم کو بڑی خوشخبری دیں گے؛ تاہم ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اگر بہتر موسم کی آمد کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کی طرف عوام جوق در جوق مائل ہوتے ہیں اور جناب وزیراعظم کو اگر فارن فنڈنگ کیس میں کسی مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر بہار کے امکاں موسم بہار سے پہلے بھی روشن ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس کی صورت حال یہ ہے: 
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
عوام کا کہنا ہے کہ اڑھائی برس میں انہوں نے حکومت کے دفتر میں اپنے لیے کوئی ''عمل خیر‘‘ نہیں دیکھا۔ پی ڈی ایم کے زعما کا دعویٰ تو یہ ہے کہ اُن کی تحریک فائنل فیز میں داخل ہوچکی ہے۔ آنے والا وقت اس دعوے کی تصدیق یا تردید کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں