دوش بدوش

''دوش بدوش‘‘ اس گھرانے کی ایک دلکش روایت ہے جو ایک سے دوسری جنریشن کو بخیر و خوبی منتقل ہوئی۔ سیّد اسعد گیلانی مرحوم جماعت اسلامی پنجاب کے امیر تھے۔ دعوتِ اسلامی کے علاوہ انہوں نے ادبِ اسلامی کے موضوع پر بہت سی کتب تصنیف کیں۔ ''دوش بدوش‘‘ اُن خطوط کا مجموعہ ہے جو گیلانی صاحب نے ازدواجی زندگی کے آغاز سے پہلے اپنی منکوحہ کو لکھے جو بعدازاں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ خطوط آواخرِ 1940ء کے زمانے میں تحریر کیے گئے تھے جب بالعموم ایسی تحریروں کا رواج نہیں تھا اور دینی شعور رکھنے والوں میں تو تقریباً ایسی تحریریں ناپید تھیں۔ گیلانی صاحب نے ان مکاتیب میں دلی جذبات کا بھی نہایت لطیف اور دل نشیں پیرائے میں ذکر کیا ہے اور زندگی کے سفر میں ساتھ ساتھ اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی اہمیت کو اجاگر بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی ہمسفر کو اس نظریۂ حیات کی طرف نہایت حکمت و خوبی کے ساتھ مائل کرنے کی بھی کوشش کی تھی جس نظریۂ حیات کے لیے وہ اپنی زندگی وقف کر چکے تھے۔ بعدازاں ہم نے دیکھا کہ دونوں شخصیات نے مل کر اس نظریے کی آبیاری کی۔
سیّد اسعد گیلانی مرحوم کے صاحبزادے فاروق گیلانی مرحوم میرے نہایت عزیز دوست تھے۔ فاروق گیلانی نے بھی اپنی عائلی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے اپنی خاندانی روایت ''دوش بدوش‘‘ کو نئے اضافوں کے ساتھ جاری رکھا۔ اُن کی بیگم فرزانہ گیلانی قدرے ''جدید‘‘ گھرانے سے تعلق رکھنے‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور اپنی الگ شخصیت کے باوجود شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری اور ساس سسر کی خدمت گزاری میں روایت پسند خواتین کو پیچھے چھوڑ گئیں۔ فاروق گیلانی اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ والدین کی طرف سے انہیں دینی و نظریاتی شعور منتقل ہوا تھا جسے وہ ایک گراں قدر اثاثے کے طور پر عزیز رکھتے تھے۔ فاروق نے ''دوش بدوش‘‘ کی روایت کو دورِ جدید سے یوں ہم آہنگ کیا کہ وہ اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک ہر سفر پر اپنی ہمسفر کو ساتھ لے کر جاتے۔ کئی دہائیوں تک فاروق نے اسلام آباد کلب کی کافی لائونج کو دوستوں کی محفلوں سے آباد رکھا۔ اپنے ہمسفر کے احترام میں فرزانہ بھابھی بھی ان دانشورانہ محفلوں میں موجود ہوتیں۔
زندگی کے ہر سفر میں اپنے ہمسفر کو ساتھ رکھنے والے فاروق گیلانی تقریباً دس برس قبل سفرِ آخرت پر اکیلے روانہ ہوگئے۔ وہ کئی برس سے ہر لمحے اگلی دنیا کے لیے آمادئہ سفر دکھائی دیتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ ملک الموت سے کسی مہلت کا تقاضا کرنے کے ہرگز قائل نہ تھے۔ فاروق کے بعد اُن کی بیگم فرزانہ گیلانی نے اُن روایات کو زندہ و تابندہ رکھا جو مرحوم کی پہچان تھیں۔ ان روایات میں دوستوں اور عزیزوں کی خوشی غمی میں شرکت نہایت نمایاں تھی‘ لہٰذا گزشتہ برسوں کے دوران اُن سے اور اُن کے دیگر اہلِ خانہ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ فرزانہ گیلانی پانچ چھ برس سے کینسر سے نبردآزما تھیں مگر یوں یکایک وہ بھی اپنے ہمسفر سے ملاقات کے لیے روانہ ہو جائیں گی اس کا اندازہ نہ تھا۔
اگرچہ اسلام آباد میں اُن کی نمازِ جنازہ سے صرف پانچ گھنٹے قبل مجھے لاہور میں اُن کی وفات کی اطلاع ملی۔ اللہ نے مجھے ہمت اور حوصلہ دیا اور پھر سارے راستے حفاظت بھی کی۔ یوں میں بروقت جنازے میں شریک ہوگیا۔ جب فرزانہ گیلانی کے صاحبزادے عمر اور اُن کے داماد ڈاکٹر تنصیر نے جسدِ خاکی لحد میں اتار دیا اور اوپر تنی ہوئی چادر ہٹا کر قبر پر مٹی ڈالنے کا عمل شروع ہوا تو مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہیں فاروق گیلانی کی قبر کی پائنتی دفن کیا گیا ہے۔ یوں زندگی میں دوش بدوش رہنے کی روایت بعدالموت بھی جاری رہی۔ اُس روز مجھے اپنی کمر پر پہاڑ اٹھا لینا آسان اور مریم گیلانی اور اس کے بہن بھائیوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے چند الفاظ کہنا انتہائی دشوار محسوس ہو رہا تھا۔ باپ کے بعد جن بچوں کی ماں بھی فوت ہو گئی ہو انہیں چند الفاظ کیا تسلی دے سکتے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے سے میں فلسفۂ موت و حیات کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ موت کیا ہے؟ موت یہاں ہمارے آس پاس اور اردگرد ہوتی ہے مگر ہمیں اس کا شعور اور ادراک نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھئے کہ چند لمحوں میں بلکہ بعض اوقات صرف ایک لمحے میں حقیقت کہانی میں بدل جاتی ہے۔ موت زندگی کا تسلسل ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کتابِ حیات و موت کا پہلا باب ''زندگی‘‘ اور پھر لاتعداد ابواب ابدی زندگی پر مشتمل ہیں جسے ہم ''موت‘‘ کہتے ہیں۔ دیکھئے علامہ اقبالؒ نے حیات و موت کے معمے کو کتنے سہل انداز سے حل کیا ہے؎
مختلف ہر منزلِ ہستی کی رسم و راہ ہے
آخرت بھی زندگی کی جولاں گاہ ہے
ابھی تک میں اپنے دل و دماغ میں فلسفۂ حیات و موت کی گتھیاں سلجھا رہا تھا کہ خبر ملی کہ حافظ سلمان بٹ بھی سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے ہیں۔ اُن کی رحلت کا سن کر بہت صدمہ ہوا۔ حافظ صاحب جماعت اسلامی کی مدھم رفتار آب جو میں ایک طوفانی و انقلابی ریلا تھے۔ اُن کی زندگی جرأتِ اظہار اور جرأتِ کردار سے عبارت تھی۔ وہ اوائلِ شباب سے ہی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے افکار و نظریات اور اعلائے کلمتہ اللہ کی تحریک سے بے حد متاثر ہوگئے۔
حافظ صاحب شعلہ بیان مقرر تھے۔ انتخابی مہمات کے دوران بعض اوقات وہ رات رات بھر لاہور کے حلقۂ انتخاب میں چھوٹے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ اُن کی پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر سننے کے لیے لوگ گھنٹوں انتظار کرتے۔ وہ حافظ صاحب کی شعلہ بیانی پر نہ صرف سر دھنتے بلکہ اُن کی صندوقچیوں کو ووٹوں سے بھی بھر دیتے۔ حافظ صاحب شہر لاہور سے دو بار رکن قومی اسمبلی اور ایک بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ حافظ صاحب نے اس وقت تک ایک انتہائی متحرک اور پرجوش زندگی گزاری جب تک کہ مہلک بیماریوں نے چاروں طرف سے اُن پر یلغار نہیں کردی۔ حافظ صاحب سیاست کے علاوہ کھیل میں بھی بے پناہ د لچسپی لیتے تھے۔ انہیں جنون تھا کہ یورپ اور عرب دنیا کی طرح پاکستان میں بھی فٹ بال مقبولِ عام ہو۔ وہ آل پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ حافظ صاحب نے کئی مزدور یونینز کی قیادت بھی کی اور انہوں نے مزدوروں کو اُن کے حقوق دلوانے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ اگرچہ حافظ سلمان بٹ بڑے انقلابی خیالات رکھتے تھے مگر ساری زندگی وہ جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کے دوش بدوش رہے۔ جماعت کے بعض رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ مجالس شوریٰ میں اپنے خیالات کا بھرپور اظہار کرتے مگر جب کثرت رائے سے اُن کی رائے کے خلاف فیصلہ ہو جاتا تو وہ سر تسلیم خم کر دیتے اور اس اجتماعی فیصلے کے علمبردار بن جاتے۔
''دوش بدوش‘‘ ایک میجک ورڈ یا ایک بابرکت اصطلاح ہے۔ اس لفظ سے گھروں میں الفت و محبت‘ جماعتوں میں ہم آہنگی کی فضا اور ملکوں میں امن و سلامتی اور خوشحالی آتی ہے۔ نیوزی لینڈ اور کینیڈا جیسے ملک خوش نصیب ہیں کہ جہاں حکومت‘ عوام اور اپوزیشن اختلافات کے باوجود دوش بدوش چلتے اور احترامِ باہمی کے کلچر کو پروان چڑھاتے ہیں مگر اخوت و باہمی محبت کی سنہری اسلامی روایات کے باوجود ہم دوش بدوش چلنے کے اس کلچر کو پاکستان میں رائج نہیں کر سکے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان‘ اُن کے وزیر‘ مشیر اور ترجمان ہروقت اپوزیشن کے خلاف گولہ باری کرتے رہتے ہیں اور دوش بدوش چلنے کے ثمرات سے قوم کو محروم رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں