یہ راتوں رات کیا ہو گیا؟

بعض لوگ بڑے قیافہ شناس ہوتے ہیں۔ وہ چہرہ دیکھ کر دل کا حال بتا دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ دست شناس ہوتے ہیں۔ وہ ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر مستقبل کی کہانی سنا دیتے ہیں اور بعض لوگوں کو بین السطور پڑھنے کا بڑا ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ جناب شاہ محمود قریشی نے تین چار روز قبل قومی اسمبلی کے گرم ماحول میں تڑپ کر کہا کہ ''یہ راتوں رات کیا ہوگیا ہے‘ ہم سب جانتے ہیں مگر بتائیں گے نہیں‘‘۔ ہم بین السطور پڑھنے کے کوئی ایسے ماہر تو نہیں مگر بقول فیض اتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
اگرچہ کوئی واضح شواہد تو نہیں مگر بعض قرائن سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن اور سرکاری حلقوں کے ارشادات و بیانات میں بین السطور پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ حکومت سے بے حد بیزار اور اپوزیشن سے بہت مایوس ہیں۔ حکومت شب و روز مہنگائی بڑھاتی جا رہی ہے۔ کسی زمانے میں یہ محاورہ زبان زدعام ہوا کرتا تھا ''آنے دی روٹی دال مفت‘‘ اب غریب عوام کی دسترس میں روٹی ہے نہ ہی دال۔ حکومت اب تک کوئی ایسا منصوبہ سامنے لانے میں ناکام رہی ہے کہ جس سے عوام کو بنیادی ضرورت کی اشیا آسانی سے میسر آسکیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے والوں نے لاکھوں کو بے روزگار کر دیا ہے۔ وزیراعظم جناب عمران خان کو شاید سچ سنانے والا کوئی مشیر یا وزیر دستیاب نہیں جو انہیں بتاتا کہ خلقِ خدا بہت پریشان ہے۔ حکومتی حلقوں میں اقتصادی و معاشی منصوبہ بندی کرنے والا کوئی شخص نہیں۔ حکومت کی درخواست پر بغیر کسی عہدے کے بعض ماہرین ِمعاشیات نہایت مفید معاشی پالیسیاں وضع کر کے دیتے ہیں مگر اُن پر غور کیا جاتا ہے نہ ہی عمل درآمد کی نوبت آتی ہے۔ اس کے بجائے کبھی پٹرول‘ کبھی گیس‘ کبھی بجلی کی اندھا دھند قیمتیں بڑھا کر غریب عوام پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔
جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے تو اس سے بھی لوگ مایوس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی تاریخ میں اپوزیشن کی کوئی بھی تحریک راتوں رات مقبول نہیں ہوئی۔ ہر تحریک کو عوامی پذیرائی اور مقبولیت حاصل کرنے میں بڑا وقت لگا۔ ایوب خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک مہینوں کے بعد نہیں برسوں کے بعد کامیاب ہوئی۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک مہینوں چلتی رہی اور ثمر بار نہ ہوسکی۔ پی ڈی ایم کی تحریک ابھی تک ڈانواں ڈول کیوں ہے اور آئے روز اس کے مؤقف میں تبدیلی کیوں آتی رہتی ہے‘ اس کا سبب یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے تحریک کے آغاز میں ہی بہت سی غلطیاں کیں۔ حسبِ سابق اس مرتبہ بھی میاں نواز شریف صاحب کے عرفان سے بہت بھول ہوئی ہے۔ اس تحریک کے حوالے سے میاں صاحب کے تین مفروضے تھے جو ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ میاں صاحب کا پہلا مفروضہ یہ تھا کہ مہنگائی اور بُری حکمرانی کے ستائے ہوئے لوگ گھروں سے جوق در جوق نکلیں گے اور جلسہ گاہوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوگی مگر عملاً ایسا نہ ہوا۔ میاں صاحب کا دوسرا مفروضہ تھا کہ مقتدرہ کے خلاف تندوتیز لب و لہجہ اختیار کرنے اور عسکری قیادت کے بعض ذمہ داروں کا نام لے کر انہیں للکارنے کو عوام بہت پسند کریں گے مگر عوام تو عوام پی ڈی ایم کے سیاست دانوں نے بھی اس رویے کو ناپسند کیا۔ جب پی ڈی ایم کا پہلا بھرپور جلسہ گوجرانوالہ میں ہوا اور میاں صاحب نے عسکری قیادت کے نام لیے تو سٹیج پر بیٹھے ہوئے قائدین بشمول مریم نواز ایک دوسرے کا حیرت سے منہ دیکھنے لگے۔ میاں صاحب کا تیسرا مفروضہ یہ تھا کہ پی ڈی ایم کی تینوں جماعتیں فی الفور استعفے دینے پر راضی ہو جائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض اہم قائدین کو ہم نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جیسے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں ہے اسی طرح اگر آج ہماری حکومت پنجاب میں ہوتی تو ہم بھی مستعفی ہونے پر تیار نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم کی قیادت نے بعض بڑی بنیادی موسمی و نفسیاتی حقیقتوں کو نظرانداز کیا۔ پی ڈی ایم کے قائدین تاخیر سے جلسہ گاہوں میں پہنچتے اور رات گئے تک تقریریں کرتے رہتے۔ یوں لوگ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے پنڈال سے اُٹھ کر چلے جاتے۔ پی ڈی ایم کے قائدین سے تحریک کا کیلنڈر دینے میں بھی کئی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
پی ڈی ایم کے قائدین کو شاید ادراک ہوگیا ہوگا کہ ابھی تک اُن کی پکار پر اُن کے جلسوں میں مفلوک الحال‘ پھٹے پرانے کپڑوں والے‘ فاقہ کش کم ہی دکھائی دیے۔ اگرچہ پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان بڑی بنیادی نوعیت کے اختلافات پیدا ہو گئے تھے؛ تاہم پی ڈی ایم کی قیادت کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے اختلافات کی الجھی ڈور کو دانشمندی سے سلجھا لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے برادرِ اصغر کی ''زمینی حقائق پالیسی‘‘ کے بالآخر قائل ہو گئے ہیں۔ مزید برآں مولانا فضل الرحمن کے راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف مڑنے والے ارشادات اور شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید کے حالیہ بیانات کو بین السطور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے ہی ارکانِ اسمبلی کی طرف سے بغاوت کا جو خطرہ لاحق ہوا ہے یہ بلاوجہ نہیں۔
ووٹ بنیادی طور پر ایک خفیہ امانت ہوتا ہے۔ 2019ء میں جب اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو اُس وقت تحریک انصاف نے حزب اختلاف کے ووٹوں پر شب خون مارا تھا مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی موسم کچھ بدل گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں نئے آئینی ترمیمی بل کی ناکامی کے بعد حکومت نے گھبراہٹ میں صدرِ پاکستان سے اوپن بیلٹ کا آرڈیننس جاری کروا لیا ہے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس آرڈیننس کو نہایت شدت کے ساتھ مسترد کر دیا ہے اور اسے سپریم کورٹ پر دبائو ڈالنے کی ایک بھونڈی کوشش قرار دیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین نے یہ رائے دی ہے کہ سینیٹ میں اوپن بیلٹ کیلئے آئینی ترمیم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اپوزیشن نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر حکومت نے یہ آرڈیننس واپس نہ لیا تو وہ آئین کی بالادستی کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ حکومتی گھبراہٹ اور اِدھر اُدھر کی بھاگ دوڑ سے تو یہ لگتا ہے کہ اب اسے وہ سایہ حاصل نہیں جس کی خنک چھائوں میں گھر بیٹھے بٹھائے اُن کے کام ہو جایا کرتے تھے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم ناکام ہو گئی ہے مگر ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پی ڈی ایم تھوڑی سی ڈگمگائی ضرور تھی مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ہے اور اختلافات پر قابو پا لیا ہے۔ اب ایک بار پھر پی ڈی ایم متحدو متفق دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو ضمانت کا ریلیف مل گیا ہے مگر پارٹی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ یہ وقتی مرہم کسی وقت بھی اسی طرح کے ستم میں بدل سکتا ہے جس طرح کے ستم کا ان دنوں میاں شہباز شریف سامنا کر رہے ہیں۔
26 مارچ کو پی ڈی ایم کتنا بڑا مارچ کر سکے گی یہ تو ابھی دور کی بات ہے‘ نیز اس وقت تک حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں اسکے بارے میں بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ اس مرحلے پر پی ڈی ایم کی کامیابی کا انحصار دو چیزوں پر ہے‘ پہلی یہ کہ وہ سینیٹ کے انتخابات کس حد تک متفق و متحد ہوکر لڑتے ہیں اور اس میں کتنی بڑی کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ 26 مارچ سے پہلے پی ڈی ایم عوام کو کس حد تک یقین دلا پاتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کیلئے نہیں بلکہ عوام کو مصائب سے نجات دلانے کیلئے یہ تحریک چلا رہی ہے۔ شاید سینیٹ انتخابات کے نتائج سے جناب شاہ محمود قریشی کو اپنے سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ یہ راتوں رات کیا ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں