گلشنِ حیرت

میں عمارت کے اندر داخل ہوا تو ایک جہانِ حیرت میرا منتظر تھا۔ یہ ایک گرلز سکول تھا، نرسری سے لے کر میٹرک تک۔ سکول کا ماحول انتہائی پرسکون تھا۔ بچیاں کلاس رومز میں ہمہ تن گوش تھیں اور اُن کی مدرسات انتہائی انہماک کے ساتھ محوِ تدریس تھیں؛ تاہم کلاس رومز کا کلچر ایسا تھا جو میں نے اس سے پہلے کم ہی دیکھا تھا۔ ہر چند منٹ کے بعد ساتویں جماعت کی طالبات اپنی سائنس ٹیچر سے سوال کررہی تھیں۔ اُن کی ٹیچر نہ صرف نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ سوالات کے جوابات دے رہی تھیں بلکہ بچیوں کی حوصلہ افزائی بھی کررہی تھیں۔ ٹیچر نے وائٹ بورڈ پر چند اضافی کتب کے نام لکھے اور انہیں بتایا کہ ان میں سے کون سی کتب وہ سکول لائبریری میں بیٹھ کر پڑھ سکتی ہیں اور کون سی کتابوں کو وہ کمپیوٹر لیب میں جاکر گوگل پر دیکھ سکتی ہیں۔
ہم نے بے تکلف مگر باادب سوال و جواب کا کلچر ہر کلاس میں دیکھا۔ ہمارے روایتی اردو میڈیم اور بعض انگریزی میڈیم سکولوں میں جس بات کی شدت سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے وہ سوال ہے۔ سارے نظامِ تدریس و تعلیم کی بنیاد رٹّا ہے۔ تبھی تو بڑی بڑی فیسوں والے سکولوں کے بچے بھی شام کو ٹیوشن اکیڈیمیوں میں جاتے ہیں کیونکہ وہ سکولوں میں سمجھ نہیں پاتے۔ اس سکول میں ہم نے بچوں کو فصیح عربی اور عمدہ ایکسینٹ کے ساتھ انگریزی بولتے ہوئے سنا۔
کلاس رومز سے باہر آئے تو پرنسپل صاحب نے ہمیں اروبکس ٹریننگ کا ایک منظر دکھایا جس میں بچیوں کی آپس میں ہم آہنگی اور ردھم قابلِ دید تھا۔ اس کے بعد ہم سکول کے ہال میں گئے تو وہاں بچیاں مولانا رومی کے درویشوں کے روپ میں اُن کا فارسی کلام اور اس کا ترجمہ نہایت ہی اثرانگیز طریقے سے سنا رہی تھیں۔ ہال کی دیواروں پر مولانا رومی اور اقبال کے اشعار آویزاں تھے۔ مولانا رومی کے کلام والا پروگرام ختم ہوا تو اسی ہال میں بیڈمنٹن کا میچ شروع ہو گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ سکول کی بچیاں بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کے آل پاکستان مقابلوں میں شریک ہوتی اور میڈلز جیت کر لاتی ہیں۔
قارئین یہ جاننے کے لیے بیتاب ہوں گے کہ اتنی اچھی تعلیم و تربیت والے سکول کی فیس کتنی ہے۔ تو دل تھام کر سنیں اس سکول میں بچیوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ سکول کی طرف سے انہیں یونیفارم، شوز، کتب اور سٹیشنری بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ سن کر تو میری طرح آپ بھی حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ اس سکول میں پڑھنے والی بچیوں کا تعلق سوسائٹی کے اعلیٰ طبقے سے نہیں بلکہ معاشرے کے غریب ترین طبقے سے ہے۔ ان میں رکشہ ڈرائیورز، ریڑھی بانوں، مزدوروں اور گھروں میں کام کرنے والی میڈز کی بچیاں شامل ہیں۔
مجھے یہ جاننے کی بیتابی تھی کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی گلِ سادہ چند برس میں اتنے خوشنما بیل بوٹوں والی شخصیت میں کیسے بدل گئی۔ میرے ہر سوال کے جواب میں کرنل صاحب جو کچھ بتاتے اس سے ایک اور حیرت کدے کا دریچہ وا ہو جاتا۔ کرنل صاحب نے بتایا کہ وہ فوج کی ملازمت کے بعد لاہور کی ایک بڑی میڈیکل یونیورسٹی میں پراجیکٹ ڈائریکٹر تھے جہاں وہ اور اُن کے کچھ دوست معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی دل جوئی اور انہیں مین سٹریم لائف میں لانے کی تدبیریں سوچتے رہتے۔ اس دوران کرنل صاحب نے معلومات اکٹھی کیں تو یہ انکشاف ہوا کہ غریب طبقات بچیوں کو سکولوں میں نہیں بھیجتے اور نہایت کم عمری میں اُن کی شادیاں کردیتے ہیں۔
اِن معلومات کے بعد کرنل صاحب نے تہیہ کرلیا کہ وہ غریب طبقات کی بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے اپنے حصے کا چراغ ضرور جلائیں گے۔ انہوں نے اپنے ایک بزنس مین دوست میاں وقار شفیع سے اس ارادے کا ذکر کیا تو انہوں نے اس پراجیکٹ کے لیے نہ صرف اپنی زمین وقف کر دی بلکہ اس پر عمارت بھی بنا دی اور اُس کے جملہ ماہانہ اخراجات کا بڑا حصہ خود ادا کرنے کی نوید بھی سنائی۔ کرنل جاوید صاحب نے یونیورسٹی کی اعلیٰ ملازمت کو خیرباد کہا اور شب و روز اس تعلیمی منصوبے کی کامیابی کیلئے کمربستہ ہوگئے۔ آج سے دس برس قبل سکول کا آغاز ہوا تھا اور اس وقت یہاں 400 بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ کرنل صاحب ایک صاحب مطالعہ شخصیت ہیں اور اقبال و رومی کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ اتنا بڑا کرشمہ کیسے رونما ہوا؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ مرشد اقبال نے فرمایا تھا:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
میرا اگلا سوال یہ تھاکہ گلشن کی بہار کیلئے صرف مٹی کی زرخیزی ہی کافی نہیں اُس کیلئے مالی کی مربیانہ شفقت بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں ''مالیوں کی ایک اچھی ٹیم‘‘ جمع ہوگئی ہے۔ اسی طرح میاں وقار صاحب کی اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبزادی صائمہ وقار بھی بچیوں کی تعلیم و تربیت میں خصوصی دلچسپی لیتی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایسے اعلیٰ ٹیچرز تو بڑے مشاہرے کا مطالبہ کرتے ہوں گے۔ اس کے جواب میں کرنل صاحب نے کہا کہ ہم انٹرویو کے موقعے پر جب کسی امیدوار میں تعلیم و تربیت کے علاوہ خدمت خلق کا جذبہ محسوس کرتے ہیں تو اس کے ساتھ اپنا وژن اور اپنے وسائل بھی شیئر کرتے ہیں۔ آپ شاید یقین نہ کریں کہ ہمارے اکثر ٹیچرز مشہور اداروں کے اعلیٰ معاوضوں سے منہ موڑ کر اس گلشنِ حیرت کا برضا و رغبت حصہ بن جاتے ہیں۔ میں نے کرنل صاحب سے ایک ذاتی سا سوال پوچھ لیاکہ آپ خود کتنا معاوضہ لیتے ہیں؟ انہوں نے اس کا جو جواب دیا اسے سن کر میری خوشگوار حیرت میں بے حد اضافہ ہوگیا۔ وہ نہ صرف سکول سے ایک پیسہ تنخواہ نہیں لیتے۔
اس سکول میں نہ صرف ٹیچرز کی ورکشاپس ہوتی ہیں بلکہ بچیوں کی ان پڑھ مائوں کی سہ روزہ سالانہ ورکشاپ بھی ہوتی ہے۔ اس ورکشاپ میں بڑے دلچسپ طریقے سے مائوں کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ میں نے کرنل صاحب سے پوچھا کہ شاید انہوں نے فلسطینی خاتون ٹیچر حنان الحروب کا نام سنا ہو گا جسے چند برس پہلے گلوبل ٹیچر کا ایوارڈ متفقہ طور پر عطا کیا گیا تھا۔ اس سے جب سوال کیا گیا کہ تمہیں اتنی بڑی کامیابی کیونکر ملی تو اس نے جواب دیاکہ اسے اپنے کام سے محبت تھی اور اس نے اس محبت کے ساتھ بچیوں کو سلیبس سے کہیں زیادہ پڑھایا تھا۔ یہ سن کر پرنسپل صاحب نے کہاکہ آپ نے کلاس رومز میں دیکھا ہوگا کہ ہماری ٹیچرز بھی اسی طرح کی محبت کے ساتھ پڑھاتی ہیں۔
چند روز پہلے 4 فروری کو گرلز گائیڈ کی تقریب حلف برداری میں اسی جونیئر لیڈرز گرلز سکول نے پنجاب کی نمائندگی کی جسے صدرِ پاکستان کی بیگم مسز ثمینہ علوی نے بہت سراہا۔ سکول کے ہائی درجے کا پہلا گروپ اس سال سائنس مضامین کے ساتھ بورڈ کا ا متحان دے گا۔ پرنسپل صاحب کا خیال ہے کہ یہ طالبات اوّل تو اپنے تعلیمی نتائج اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر وظائف لے کر اچھے کالجوں میں داخل ہو جائیں گی؛ تاہم انہیں قدرے فکرمندی بھی ہے کہ بغیر وظائف کے اُن کیلئے اعلیٰ تعلیم جاری رکھنا بہت دشوار ہوگا۔ کرنل صاحب کا کہنا ہے کہ ہم نے بچیوں کو اقبال کا درسِ خودی بہت اچھی طرح سمجھا دیا ہے‘ لہٰذا اقبال کی نظم خضر راہ کا یہ سبق ان طالبات کی شخصیت کا نمایاں حصہ ہے کہ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
میں گلشنِ حیرت سے باہر نکلا تو تادیر حیرت میں گم رہا اور سوچتا رہا کہ ہمارے معاشرے میں شر ہی نہیں خیر بھی بہت ہے اور قدم قدم پر عمل خیر کے چراغ روشن ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں