سینیٹ انتخابات کے گردوغبار میں چھپے طوفان

سینیٹ انتخابات کے حوالے سے حکومت نے اپنے ہاتھوں سے اتنی دھول اڑائی ہے کہ کچھ دکھائی دے رہا ہے نہ سجھائی دے رہا ہے۔ غریب عوام تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے ہیں لہٰذا انہیں اشرافیہ کے اس الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہوں نے جناب عمران خان کے بلند بانگ وعدوں کے ساتھ بڑے خوش رنگ خواب وابستہ کر لیے تھے مگر اب یہ سہانے سپنے ایک ایک کر کے چکناچور ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت لوگوں کو پٹرول‘ گیس‘ بجلی وغیرہ کے بلوں میں ریلیف دینے آئی تھی‘ انہیں انصاف دینے آئی تھی‘ انہیں گڈگورننس کا تحفہ پیش کرنے آئی تھی‘ انہیں مہنگائی‘ چوربازاری اور بے روزگاری سے نجات دلانے آئی تھی مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اپوزیشن کے جلسے جلوسوں اور اُن کی بدلتی ہوئی حکمت عملی کے توڑ کیلئے حکومت کی پروپیگنڈہ مشینری بہت سرگرم تھی۔ اس مشینری کو تیزتر کرنے کیلئے جناب وزیراعظم آئے روز اپنے ترجمانوں کا اجلاس بلاتے اور انہیں ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ غالباً انہی ہدایات کی روشنی میں کئی دنوں سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے موقف میں بعُدالمشرقین پیدا ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی کسی لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی۔ مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو ان ہائوس تبدیلی کیلئے قائل کر لیا ہے۔ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ اپوزیشن سینیٹ الیکشن میں حصہ نہیں لے گی اور گلیاں سنجیاں ہو جائیں گی تاکہ مرزا یار حصولِ اقتدار کی طرح سینیٹ میں بھی دوتہائی اکثریت لے کر پھرے اور من مانی کی دیرینہ خواہش پوری کرے۔ اُن کی ساری امیدیں اپوزیشن کے ٹوٹنے سے جڑی ہوئی تھیں۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے
مگر حکومتی امیدوں اور تجزیوں کے برعکس پی ڈی ایم قائم ہے۔ اپوزیشن کی ساری جماعتیں مل کر الیکشن لڑ رہی ہیں اور انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنا متفقہ امیدوار برائے چیئرمین سینیٹ نامزد کر دیا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 26 مارچ کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کی بے چینی میں مزید اضافہ حکومتی ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی میں پائے جانے والے باغیانہ خیالات اور اضطراب سے ہوا ہے کیونکہ گھر کے یہ بھیدی لنکا ڈھا سکتے ہیں۔ سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اور سیاسیات کے طلبہ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت 2019ء میں موجودہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے موقع پر سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر بغلیں بجا رہی تھی مگر اب ایسا کیا ہوا کہ اب وہ اوپن بیلٹ کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ کبھی قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا بل لاتی ہے‘ کبھی سپریم کورٹ کی اس مسئلے پر رائے لینے کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کرتی ہے اور پھر گھبراہٹ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اوپن بیلٹ کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیتی ہے۔ مزید بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی حلقوں کی طرف سے 2018ء کے سینیٹ الیکشن کے موقع پر کے پی میں رقم وصول کرتے ہوئے ارکانِ صوبائی اسمبلی کی ویڈیو بھی جاری کر دی جاتی ہے۔
صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے یہ استفسار کیا گیا ہے کہ کیا سینیٹ میں اوپن ووٹنگ آئین میں ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 122(6) میں ترمیم کر کے کرائی جا سکتی ہے؟ جہاں تک 2018ء کی ویڈیو کا تعلق ہے اُس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں پیسے لینے اور دینے والے حضرات اور خواتین کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ خیبر پختونخوا کے سیاسی معاملات سے گہری واقفیت رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں جب یہ اندازہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے بہت سے ارکانِ صوبائی اسمبلی اپنے ووٹ کی قیمت لگائیں گے تویہ دیکھ کر پی ٹی آئی نے امیر لوگوں کو سینیٹ کے ٹکٹ دیئے اور اپنے ارکانِ اسمبلی کو یہ پیغام پہنچایا کہ غیروں کے ہاتھوں بکنے کے بجائے اپنوں کے ہاتھ بکیں۔ اس زمانے میں اس بات کے ثبوت بھی میڈیا پر آئے تھے کہ پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی ''ہم خرما و ہم ثواب‘‘ سے لذت یاب ہورہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے سینیٹ امیدواروں کو ووٹ دیے اور پیسے بھی وصول کیے۔ اس پس منظر میں پی ٹی آئی کی طرف سے پارسائی کا دعویٰ اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے کہ سب کچھ طشت ازبام ہونے کے باوجود پیسے دینے والوں اور لینے کے خلاف مقدمات نہ چلائے گئے۔
سینیٹ انتخابات کے گردوغبار میں چھپے طوفانوں میں سے ایک یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران جناب ِوزیراعظم فرمایا کرتے تھے کہ ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینا بہت بڑی کرپشن ہے۔ وہ برسراقتدار آئیں گے تو اس کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے مگر یہاں بھی انہیں یوٹرن لینا پڑا اور انہوں نے گزشتہ ماہ صرف تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی کو پچاس پچاس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز دینے کا اعلان کیا تھا۔ اب یہی سوال جنابِ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ کے سامنے ہے۔ پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس بینچ کے ممبر تھے مگر اب ایک قانونی نکتے کی بنا پر وہ اس بینچ کے رکن نہیں رہے تاہم مقدمہ بدستور قائم ہے۔ اسی طرح فارن فنڈنگ کیس بھی بظاہر موجودہ گردوغبار میں نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے مگر اس مقدمے کا فیصلہ پاکستانی سیاست میں ایک طوفانی خطرہ بن کر ہلچل مچا سکتا ہے۔ گزشتہ ماہ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے میں مطالبہ کیا تھا کہ کمیشن بلاتاخیر اس کیس کا فیصلہ سنائے۔
اس گردوغبار میں جو سب سے بڑا ہیبت ناک طوفان چھپا ہوا ہے وہ مہنگائی کا طوفان ہے۔ غریب تو غریب اب سفید پوشوں کی بھی عام اشیائے خورونوش تک رسائی نہیں۔ اس طوفان کا حکومت کو اندازہ ہے نہ ہی اپوزیشن کو۔ حکومت اندھا دھند بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائے جا رہی ہے اور اپوزیشن چپ سادھے ہوئے ہے۔پہلے ہی اشیائے صرف کی قیمتیں ناقابل برداشت تھیں اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بازاروں اور پٹرول پمپوں پر جو جائے گا اُس کا حال بقول ساجد وارثی یوں ہوگا
یہ بازاروں میں مہنگائی کا عالم
سبھی چہرے اُترتے لگ رہے ہیں
پی ڈی ایم کو گہرا غوروفکر کرنا چاہئے کہ اب تک اگر اس کی احتجاجی تحریک میں جوش و خروش نہیں پیدا ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن اپنے آپ کو عوامی مسائل کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر سکی اور نہ ہی مہنگائی اور ناقابل ِیقین بجلی اور گیس کے بلوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام کی آواز بن سکی ہے۔
مہنگائی ہر زمانے میں رہی ہے تبھی تو فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
مہنگائی فیضؔ چھونے لگی ہے اب آسمان
دلّی کے تخت پر کسے بٹھا دیا گیا
مگر یہاں غم کے ماروں کا کہنا ہے کہ آمدنی اور مہنگائی کے درمیان جیسی خلیج آج ہے ایسی کسی حکمران کے زمانے میں چشمِ فلک نے نہ دیکھی ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن شوق سے سینیٹ الیکشن لڑیں مگر بھوک سے نڈھال لوگوں کی فکر بھی کریں کیونکہ اگر فاقہ کشوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو سب کچھ بہا لے جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں