سائیکل سے رولز رائس تک

گزشتہ روز ایک نوجوان کا میسج آیا۔ اس نے لکھا کہ وہ ایک نہایت ضروری بات کرنا چاہتا ہے جس کیلئے وہ ملاقات یا فون کال کا خواہاں ہے۔ میں نے اپنا پروگرام چیک کر کے اسے جوابی پیغام میں لکھا کہ وہ فلاں وقت کال کرلے۔ نوجوان نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے میرے بتائے ہوئے وقت کے عین مطابق کال کی۔ میں نے نرمی سے پوچھا کہ بتائو بیٹا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا :سر! میں گزشتہ ایک دو روز سے شدید مخمصے کا شکار ہوں‘ میں انجینئرنگ کا طالب علم ہوں‘ میرے والد کی سائیکل مرمت کرنے کی دکان ہے جہاں میں خود بھی دو تین گھنٹے کام کرتا ہوں مگر میرے تصورات کی اڑانیں بہت بلند ہیں۔ میں نئی نئی ایجادات کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ میں نے ڈیل کارنیگی اور سٹیفن آرکوے کی کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں۔ ان کتابوں میں اُن کامیاب لوگوں کی داستانیں بیان کی گئی ہیں جو بوریا نشیں تھے مگر آج ارب پتی ہیں۔ نوجوان نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان میرے لیڈر بلکہ ہیرو تھے۔ وہ محنت کی عظمت اور کامیاب نوجوان کی باتیں کرتے تھے مگر آج انہوں نے ایک عجیب بات کہہ کر مجھے ڈپریشن کا شکار کر دیا ہے۔ اس بات نے فضائوں میں میری اُڑتی ہوئی پتنگ کوکاٹ دیا ہے۔ جناب عمران خان نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہاکہ یوں لگتا ہے جیسے ڈار کے والد کی سائیکل نہیں رولز رائس کی دکان تھی۔ جناب وزیراعظم کا یہ بیان سن کر میں سکتے میں آگیا کہ کل اگر میں اللہ کے فضل اور اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی پسندیدہ گاڑی مرسڈیز میں نظر آئوں گا اور بھاٹی سے نکل کر لاہور کے کسی پوش علاقے کا رہائشی بن جائوں گا تو مجھے ساری زندگی یہ طعنہ ملتا رہے گا کہ اسے دیکھو‘ اس کے باپ کی سائیکل مرمت کرنے کی دکان تھی اور یہ آج مرسڈیز میں اڑا پھرتا ہے۔ نوجوان ایک ہی سانس میں اپنی داستانِ غم بیان کر کے ایک لمحے کیلئے رکا اور پھر اس نے اپنا سوال کیا کہ سر! جس کے باپ کی سائیکلوں کی دکان ہو کیا وہ مرسڈیز اور رولز رائس کا مالک نہیں بن سکتا؟
میں نے نوجوان کو تسلی دی‘ اس کا حوصلہ بڑھایا اور اگلے روز اسے ملاقات کے لیے بلایا۔ میں نے سوچا کہ میرے چند لمحوں سے اس نوجوان کا ٹوٹا ہوا دل جوڑا جا سکتا ہے اور اسے مایوسی و پریشانی کے اندھیرے سے نکال کر شاہراہِ زندگی پر دوبارہ گامزن کیا جا سکتا ہے۔ سلجھا ہوا نوجوان ملاقات کیلئے آیا تو میں نے اسے کئی پاکستانی حضرات کی مثالیں دے کر سمجھایا کہ کس طرح وہ اپنی پروایکٹو اپروچ کی بنا پر فرش سے عرش پر جا پہنچے۔ میں نے اسے محمود بھٹی کی مثال دی کہ جو پیرس کی ایک دکان میں صفائی کا کام کرتے کرتے فیشن ڈیزائنر بن گیا اور اس نے اسی شہر لاہور میں ایک بہت بڑا ہسپتال بھی تعمیر کیا ہے اور اسے کامیابی سے چلا رہا ہے۔ میں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے مہمان کو بتایا کہ میں ایسے درجنوں پاکستانیوں کو جانتا ہوں کہ جن کے پاس پاکستان میں ٹوٹی ہوئی سائیکل تھی اور آج امریکہ میں وہ ڈالروں میں میلینئر بن چکے ہیں۔ وہ پاکستان میں بھی کئی فلاحی منصوبے چلا رہے ہیں اور امریکہ میں بھی کارِخیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن میں سے کئی امریکی انتخاب کے موقع پر اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو لاکھوں ڈالر کا فنڈ بھی دیتے ہیں۔ میں نے نوجوان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اسے بتایا کہ ستاروں پہ کمند ڈالنے اور غربت کو امارت میں بدلنے کیلئے غریب الوطنی بھی ضروری نہیں۔ ایسے بے شمار لوگ یہاں موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنے وطن کی مٹی کے ذرات کو سونے کے ذرات میں بدل ڈالا ہے۔ کئی بینکر اور بزنس مین ایسے ہیں کہ جن کے بزرگوں کا معمولی کاروبار تھا مگر آج وہ ارب پتی بن چکے ہیں۔ اسی طرح فوڈ کے شعبے میں بہت سے خواتین و حضرات نے حیرتناک ترقی کی ہے۔
میری باتوں کی نوجوان سر ہلا ہلا کر تائید کر رہا تھا۔ میں نے اس سے آخری بات یہ کہی کہ بیٹا! دنیا اور اہل ِدنیا کی باتوں کا دل پر اثر نہ لیا کرو کیونکہ بقول شاعر
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
میں نے اُسے بتایا کہ جہاں تک جناب ِوزیراعظم کا تعلق ہے تو جوشِ بیان میں وہ ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو اُن کے شایانِ شان نہیں ہوتیں۔ کسی پر آپ کرپشن کا الزام ضرور لگائیں اور اسے عدالت میں ثابت کرکے سزا بھی دلوائیں مگر کسی کے باپ دادا کا حوالہ دے کر اسے کمتر ثابت کرنا اور اپنی معروف قدیم آبادیوں کا حقارت سے ذکر کرنا انتہائی نامناسب اور ناروا ہے۔ طالب علم نے رخصت ہوتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ پہلے سے بڑھ کر محنت کرے گا۔
اپنے مہمان کو رخصت کر کے میں تادیر سوچتا رہا کہ جنابِ عمران خان بحیثیت وزیراعظم اور ایک وژنری قائد کہاں تک کامیاب رہے ہیں؟ ایک سربراہِ مملکت کی کامیابی کا آئینہ عوام ہوتے ہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ تو شدید مہنگائی کے ہاتھوں مر چلے ہیں۔ اور جہاں تک خان صاحب کی وژنری قیادت کا تعلق ہے تو وہ ایک ایک کرکے اپنی باتوں سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے ہی افکار کی نفی کرتے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر تو خاص و عام بہت مضطرب و پریشان ہیں۔ دیکھئے خواجہ میر درد ان درد کے ماروں کی ترجمانی کیسے کر رہے ہیں۔؎
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
جان سی میکس ویل ایک ممتاز امریکی مصنف اور سپیکر ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر کتابیں لیڈرشپ پر لکھی ہیں۔ اُن کی بیسٹ سیلر کتاب کا ٹائٹل کچھ یوں ہے: ایک لیڈر کے 21 ناگزیر اوصاف۔ پھر ایک اور جگہ میکس ویل نے اوصاف کے اس سمندر کو کوزے میں یوں بند کیا ہے: ایک کامیاب لیڈر راہ داں ہوتا ہے‘ وہ اپنے بتائے ہوئے راستے پر صدقِ دل سے گامزن ہوتا ہے اور دوسروں کی رہ نمائی بھی کرتا ہے اور اپنی کمٹمنٹ پوری کرتاہے۔
گزشتہ اڑھائی سال میں ہم نے دیکھا کہ جناب وزیراعظم ہر گام پر اپنے وژن سے بچھڑ جاتے ہیں۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کہا تھا کہ ہر حکومتی شعبے کیلئے اُن کے پاس مناسب اور موزوں اشخاص تیار ہیں۔ پھر انہی خان صاحب نے حکومت میں دو سال گزارنے کے بعد فرمایا کہ برسراقتدار آنے کے چند ماہ بعد تک ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ نظامِ حکومت کیسے چلانا ہے۔ جناب ِوزیراعظم اکثر انگریزی بولنے والوں پر شدید تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ یہاں اکثر لوگ انگریزی نہیں سمجھتے اس لیے محض رعب جمانے کی خاطر یہ غیرملکی زبان کیوں استعمال کرتے ہیں۔ایسا کہتے ہوئے غالباً یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ وہ چاہیں تو پلک جھپکنے میں تمام شعبوں میں انگریزی کے بجائے اردو کو نافذ کر کے عوام کو اس 73 سالہ اذیت سے نجات دلا سکتے ہیں مگر وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟
ایک طرف خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے ایسے عوامی نمائندوں کو چنا ہے کہ جنہیں خریدا جا سکتا ہے نہ جھکایا جا سکتا ہے مگر اب وہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن ہمارے ارکانِ اسمبلی کو خریدنا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی قابلِ فروخت ہیں۔ کوئی بکنے کو تیار ہو گا تو ہی اسے خریدا جاسکے گا۔ جناب وزیراعظم ''این آر او نہیں دوں گا‘‘، ''نہیں چھوڑوں گا‘‘ جیسی روزمرہ دھمکیوں کا کام اپنے ترجمانوں کے سپرد کریں اور خود کو قوم کی تعمیرسیرت و کردار اور فراہمیٔ انصاف و تعلیم جیسے وژن کیلئے وقف کر دیں۔ جناب وزیراعظم اور چیئرمین نیب سائیکل سے رولز رائس تک پہنچنے کے طعنوں سے بھی اجتناب فرمایا کریں کہ اس سے نوجوانوں میں بددلی اور مایوسی پھیلتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں