میانمار: فوجی انقلاب کے جواب میں عوامی انقلاب

ایک طرف ہم گزشتہ 70 برس سے دائروں میں چلتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف میانمار میں دھان پان جسم و جثے مگر فولادی عزم و حوصلہ رکھنے والے لوگ نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ جمہوریت نواز لوگ دائروں کے آہنی چنگل سے نکلنے کے لیے سروں پر کفن باندھ کر گھروں سے نکلے ہیں۔ دیکھئے امجد اسلام امجد نے ہماری قومی زندگی کے دائروں کی کیسے عکاسی کی ہے:
ہم لوگ/دائروں میں چلتے ہیں/دائروں میں چلنے سے/دائرے تو بڑھتے ہیں/فاصلے نہیں گھٹتے/صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو/روشنی کی آمد کا پیش باب کہتے ہیں/اک کرن جو جلتی ہے، آفتاب کہتے ہیں/دائرے بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں
انقلاب کی نوید کے طور پر جو پہلی کرن پھوٹتی ہے وہ لہو کے چراغوں سے روشن کی جاتی ہے۔ میانمار کے لوگ آج کل اپنے لہو سے انقلاب کے دیے روشن کر رہے ہیں۔ میانمار کا پرانا نام برما ہے۔ برصغیر کی طرح میانمار بھی انگریزوں کے زیرنگیں تھا اور اُسے 1948ء میں آزادی ملی تھی۔ طویل جمہوری جدوجہد کرنے اور ملک کی پہلی منتخب سربراہ بننے والی حکمران آنگ سان سوچی آزادی سے دو سال پہلے اس دنیا میں آچکی تھیں۔ بعدازاں وہ میانمار کی بدامنی سے گھبرا کر انگلستان چلی گئیں جہاں سے وہ 1988ء میں وطن واپس لوٹ آئیں تاکہ قافلۂ جمہوریت کی قیادت کرسکیں۔ 1990ء کے عام انتخابات میں اُن کی جماعت کو زبردست کامیابی ملی مگر فوج نے انہیں اقتدار منتقل نہیں کیا اور اُن کی تاجپوشی کے بجائے انہیں 15 سال تک نظربندی کے احکامات سنائے۔ 2016ء میں سوچی کی پارٹی ایک بار پھر فتح یاب ہوئی۔ اسے انتقالِ اقتدار تو نہ کیا گیا؛ البتہ شراکتِ اقتدار کی دعوت دی گئی جسے سوچی نے بادل نخواستہ قبول کرلیا۔ حیرت تو یہ ہے کہ فوج میانمار کے اقتدار پر پچاس پچپن برس تک براہِ راست قابض رہی اور اب بھی یہاں کے آئین میں فوج ملکی اقتدار کے ایک چوتھائی حصے کی مالک ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار میں اتنی بھرپور شراکت داری کے باوجود فوج نے اس سال یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ کیوں الٹا؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ اقتدار کا چسکا ایسا ہے کہ اس کی خواہش اور ہوس بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
اس فوری فوجی ایکشن کا ایک سبب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ فوج کے کانوں تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ سوچی دوبارہ برسراقتدار آکر آئین میں ترمیم کرنے کا تہیہ کر چکی ہیں اور چاہتی ہیں کہ شراکتِ اقتدار کے بجائے اب انتقالِ اقتدار کا راستہ نکالا جائے۔ تیسری دنیا کے سول حکمرانوں کی یہ معصوم خواہش ہر جگہ موجود رہتی ہے مگر مقتدرہ اس خواہش کو زیادہ پسند نہیں کرتی۔
یکم فروری کو فوج نے میانمار میں اقتدار پر قبضہ کیا تو فوری طور پر اس کے خلاف تحریکِ مزاحمت شروع ہو گئی جس میں لاکھوں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ فوج نے پہلے آنسو گیس اور پانی کی بوچھاڑ سے مزاحمت کاروں کو پچھاڑنے کی کوشش کی مگر جب اس سے کامیابی نہ ہوئی تو ملک کے طول و عرض میں گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی جس سے 21 افراد ہلاک اور تیس سے زائد شدید زخمی ہوگئے؛ تاہم فوج کی یہ اندھا دھند فائرنگ عوام کے جوش و جذبے کی لَو مدھم کرنے کے بجائے تیزتر کرنے کا باعث بنی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ فوج بیرکوں میں واپس جائے اور سوچی کی سول حکومت بحال کی جائے۔
عالمی رپورٹوں کے مطابق میانمار کے فوجی حکمران آنگ بلینگ نے اب تک صرف دو بار ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا ہے۔ ان خطابات میں انہوں نے نہ اُن وجوہات کا ذکر کیا جس کی بنا پر ملک پر مارشل لا نافذ کیا گیا‘ نہ لوگوں کی شدید مزاحمت اور احتجاجی مظاہروں کا کوئی تذکرہ کیا اور نہ ہی عالمی سطح پر میانمار پر لگائی جانے والی پابندیوں اور ان کے ملکی سیاست و معیشت پر اثرات کا کوئی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے صرف اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔
فوجی حکمرانوں کی اب تک کی تحقیق کے مطابق سوچی پر برطانیہ سے چھ عدد واکی ٹاکی سیٹ بغیر اجازت منگوانے اور نومبر کے عام انتخابات میں دھاندلی کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اگرچہ ہم میانمار کے جمہوری جذبے اور آنگ سان سوچی کی جرأت مندانہ جدوجہد کے مداح رہے ہیں مگر طویل عرصے سے ایک پھانس ہمارے گلے میں اٹکی ہوئی ہے جو نکالے نہیں نکلتی۔ یہ معاملہ کچھ ہمارے ساتھ ہی نہیں تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ 2016ء میں سوچی کے برسر اقتدار ہوتے ہوئے جب فوجی جنتا نے رخائن کے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، اُن کی فصلوں اور کھیتوں‘ کھلیانوں کو آگ لگا دی، اُن کا قتل عام کیا اور روہنگیا بہو بیٹیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تو اس وقت سوچی نے انسانی حقوق کی ہولناک پامالی پر نہ صرف جرنیلوں کی مذمت نہ کی بلکہ اُن کی حمایت کی۔ دس لاکھ مسلمانوں کو میانمار سے یہ کہہ کر بے دخل کردیا گیا کہ یہ یہاں کے نہیں بنگال سے آئے تھے جبکہ روہنگیا عرب تاجروں کی اولاد میں سے ہیں جو یہاں صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں۔ اُن دنوں مشرق و مغرب کا یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ سوچی سے امن کا نوبیل پرائز واپس لیا جائے کیونکہ جو فرد اتنی بدترین بدامنی کی مذمت کرنے کے بجائے حمایت کرے اس کا اس پرائز پر استحقاق ختم ہو جاتا ہے۔ 2019ء میں سوچی نے عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے میانمار میں فوجی افسروں کے انسانیت سوز مظالم کا دفاع بھی کیا۔
سوچی اگر 2016ء میں ہی کسی مصلحت سے کام نہ لیتی اور ہر قیمت پر حصولِ اقتدار کی بے اصولی کو اپنے گلے کا ہار نہ بناتی تو اسے آج کا دن نہ دیکھنا پڑتا۔ بہرحال یہ مکافاتِ عمل ہے۔ اس وقت مغربی دنیا نے میانمار میں فوجی بغاوت کی بھرپور مذمت کی ہے اور وہاں کے جرنیلوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف اندھا دھند طاقت کا استعمال بند کریں۔ ان ممالک میں امریکی و آسٹریلوی وزرائے خارجہ کے علاوہ برطانیہ، جرمنی اور دیگر کئی ممالک بھی شامل ہیں۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا کے بعض ممالک پر مبنی تنظیم آسیان کہ جس کے ممبران میں انڈونیشیا، ملائیشیا، لائوس، تھائی لینڈ، سنگاپور اور دیگر کئی ممالک کے علاوہ خود میانمار بھی شامل ہے، نے فوجی حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے مکمل طور پر اجتناب کریں۔ انہوں نے سفارتی ذرائع سے اس بحران پر قابو پانے کے لیے اپنی کوششیں تیزتر کر دی ہیں مگر تاحال انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
یہ خبر میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہوئی کہ احتجاج کرنیوالوں میں نہ صرف ''عوام‘‘ بلکہ خواص بھی ہیں۔ ان میں ڈاکٹرز ہیں، انجینئرز، ٹیچرز اور دیگر معزز شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ میانمار کے لوگوں کا کہنا ہے کہ فیصلے کی اس گھڑی کا اہلِ علم کو اچھی طرح ادراک ہے کہ ان فیصلہ ساز لمحوں میں ذرا سی کوتاہی انہیں ایک بار پھر جمہوریت کی روشنی کے بجائے آمریت کے اندھیروں میں دھکیل سکتی ہے۔ سوچی کی پارٹی کے ابھی تک گرفتار نہ ہونے والے قائدین کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف اور صرف ایک جذبے کی ضرورت ہے اور وہ ہے جذبۂ استقامت۔ ہر طرح کے دبائو اور ہر طرح کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت، لاٹھی اور گولی کی سرکار کے خلاف مزاحمت۔ عصری تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب عوام ڈٹ جاتے ہیں تو پھر فوجی انقلاب اپنے ٹینکوں سمیت سامنے سے ہٹ جاتا ہے، اور عوامی انقلاب کیلئے راستہ چھوڑ دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں