عورت مارچ اور مضبوط خاندان

ہمارا ماجرا بڑا دل چسپ ہے۔ مسٹر ہمیں مولوی اور مولوی ہمیں مسٹر سمجھتے ہیں‘ اس لیے آئے روز ہمیں کسی نہ کسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ مدت پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں خاتون محتسب کشمالہ طارق ہمارے ایک عمومی کمنٹ پر بہت برافروختہ ہوئیں اور جھنجھلاہٹ میں کہنے لگیں کہ ہم تو آپ کو اچھا بھلا لبرل سمجھتے تھے مگر آپ بھی اندر سے مولوی نکلے۔ علامہ اقبالؒ کو بھی شاید ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا تبھی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور ''کافر‘‘ یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
''میرا جسم میری مرضی‘‘ والوں کو اس بنیادی حقیقت کا ادراک نہیں کہ عورت کیا مرد کیا، آدم زاد بحیثیت انسان مختار نہیں مجبور ہے، حاکم نہیں محکوم ہے، آزاد نہیں غلام ہے۔ شاعر نے برحق کہا تھا'ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے یہ مختاری کی‘ انسان بیچارا تو اتنا مجبور ہے کہ وہ اس دنیا میں آمد اور یہاں سے روانگی کا وقت بھی اپنی مرضی سے طے نہیں کر سکتا۔ استاد ابراہیم ذوق نے انسانی خودمختاری کی یوں منظرکشی کی ہے:
لائی حیات آئے قضا لے چلی، چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
''میری مرضی‘‘ کی تو بس اتنی ہی کہانی ہے۔
مغالطے دونوں طرف موجود ہیں۔ وومن ڈے کے حوالے سے خود کو لبرل کہنے والیاں اس مغالطے کا شکار ہیں کہ سڑکوں پر گانے گانے، لڈیاں ڈالنے اور نعرے بلند کرنے سے وہ آزاد ہو جائیں گی۔ لبرل خواتین کی اس سطحی سوچ پر ہمیں حیرت ہے کہ کیا چست مغربی لباس پہننے سے، موٹر بائیک چلانے سے اور رقص کرنے سے عورت آزاد ہو جائے گی۔ لبرل خواتین کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کی اصل محکومی کیا ہے؟ پاکستان میں عورتوں کی اصل محکومی یہ ہے کہ یہاں انہیں وہ بنیادی نسائی حقوق بھی حاصل نہیں جو انہیں اسلام دیتا ہے یا مغرب فراہم کرتا ہے۔ اسلام عورت کو حقِ ملکیت دیتا ہے، حقِ نکاح دیتا ہے، حق وراثت دیتا ہے، حق تعلیم دیتا ہے اور حق معیشت و تجارت دیتا ہے۔ عورت ہر منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کی مالک و خودمختار بن سکتی ہے مگر پاکستانی معاشرہ بالعموم اس سے یہ حق چھین لیتا ہے۔ ہمارے ہاں حقِ نکاح کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ نکاح نامے کی خانہ پری کردی جائے اور بس۔ بظاہر بڑے بڑے لبرل اور آزاد منش لوگ بھی عورت کو اس کا حقیقی حقِ نکاح دینے میں ہزار قسم کی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ اسی طرح جہیز کی لعنت ایک اور بڑی قابل نفرت محکومی ہے۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ علی الاعلان یہ مہم چلائیں کہ جو لڑکا یا اُس کے اہلخانہ جہیز کا مطالبہ کریں گے وہاں ہم ہرگز شادی نہیں کریں گی۔
جہاں تک جماعت اسلامی کی خواتین کا تعلق ہے تو اُن کا جوش وجذبہ قابل ستائش ہے۔ قاضی حسین احمدؒ کی صاحبزادی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے شعبۂ امورِ خارجہ برائے خواتین کی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کا بڑا عالمی ایکسپوژر ہے۔ وہ امریکہ، برطانیہ، انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اور کئی عرب ممالک کا دورہ کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے یوم خواتین کے موقع پر 'مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ‘ کا سلوگن دیا ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل اور ڈاکٹر سویرا شامی کی نہایت تابندہ مثالیں ہیں کہ جنہیں اپنے اہل خاندان خاص طور پر اپنے اپنے والد سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں بے پناہ حوصلہ افزائی ملی۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وومن ڈے کے موقع پر حکومت سے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کو حق وراثت، حق ملکیت، حق نکاح، حق تعلیم اور حق ملازمت کی یقینی فراہمی کا بندوبست کرے۔ ایک طرف امیر جماعت عورتوں کے لیے حق ملازمت یعنی اُن کی مالی خودمختاری کا حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں دوسری طرف جماعت کی بعض خواتین کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں گھر میں بیٹھ کر بچوں کی نگہداشت کرنی چاہئے اور ہمارے باپوں، بھائیوں اور شوہروں کو ہمارے نان نفقے کا خاطرخواہ انتظام کرنا چاہئے۔ ہم نہایت احترام سے جماعت اسلامی کی معزز خواتین کو عصری تقاضوں اور موجودہ دگرگوں معاشی حالات کی طرف متوجہ کریں گے۔ ایک عام لوئر مڈل کلاس خاندان اس وقت تک اپنے اہل خانہ کے لیے خورونوش، رہائش اور تعلیم کا کماحقہٗ بندوبست نہیں کر سکتا جب تک کہ میاں بیوی‘ دونوں کام نہ کرتے ہوں۔ خواتین کی خودمختاری‘ اپنی ملکیت و تجارت کی مثالیں تو ہمیں آغازِ اسلام سے پہلے ہی مل جاتی ہیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے تجارتی مال کی بیرونِ ملک فروخت کا کام سپرد کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اللہ کے رسول کو نکاح کا پیغام بھی بھیجا تھا۔
چلئے مغربی اقدار تو ہماری اسلامی و مشرقی روایات سے متصادم ہیں اس لیے انہیں ٹھکرا دیا جائے مگر ہمیں صدیوں کے جمود سے باہر نکلنا چاہئے۔ ہمیں مسلم دنیا سے سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا اور مصر وغیرہ کی معاشرتی روایات سے استفادہ کرنا چاہئے سعودی عرب میں جہیز کا کوئی سوال ہی نہیں۔ شادی کے سارے انتظامات لڑکے اور اس کے والدین کے ذمے ہوتے ہیں۔ وہاں الگ رہائش کا بندوبست ہونے تک لڑکے کی شادی نہیں ہوتی۔ الگ رہائش سے مراد کوئی ملکیتی مکان نہیں۔ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرایہ پر گھر لیا جاتا ہے۔ ان حضری معاشروں میں بالعموم جائنٹ فیملی کا کوئی تصور نہیں البتہ بادیہ میں خال خال جائنٹ فیملی بھی ہوتی ہے مگر ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کا کلچر رائج ہے۔ اسی طرح خاتون بیوہ ہو یا طلاق یافتہ وہ نئی شادی کے سلسلے میں مکمل خودمختار ہوتی ہے البتہ کنواری لڑکیوں کے رشتوں میں بھی کسی جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا جاتا اور انہیں اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں تاحال جبر موجود ہے اور دیہی معاشروں میں تو لڑکی کی پسند کے بجائے، لڑکے کے خاندان کی امارت، خاندانی وجاہت اور قریبی رشتہ داری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ سرگودھا کی ایک تعلیم یافتہ اور دینی شعور رکھنے والی فیملی نے اپنی زیورِ تعلیم سے آراستہ، خوبصورت اور خوب سیرت بیٹی کی شادی اس کے اجڈ کزن سے اس لیے کردی کہ بیٹی جائیداد لے کر دوسرے خاندان میں منتقل نہ کردے۔ یہ بالکل بے جوڑ شادی تھی مگر نہ تو لڑکی نے طلاق لینے کی ہمت دکھائی اور نہ ہی اس کے والدین نے اپنی غلطی کے ازالے کی کوشش کی۔
میرے دوست یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک کالم میں مضبوط خاندان کے سلوگن والی جماعت اسلامی کی خواتین سے پوچھا کہ آپ کا ایک پوسٹر یہ ہے کہ مجھے اچھا لگتا ہے شوہر سے ایک قدم پیچھے چلنا۔ پیرزادہ صاحب نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ میں نے یہی سوال ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک قدم پیچھے چلنے سے ہمیں تحفظ اور احترام کا احساس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کے جواب سے ہماری تشفی بھی نہیں ہوئی۔ اسلام میں ایسی کوئی قدغن نہیں ہے کہ عورت پیچھے چلے۔ ہم تو عورت کے ہمقدم ہونے کو محبت و احترام کی دلیل سمجھتے ہیں۔ عورت مارچ اور مضبوط خاندان والوں کو ایک دوسرے سے ڈائیلاگ کرنے چاہئیں کیونکہ بعض ظواہر کو چھوڑ کر دونوں گروپوں کے ایک جیسے مطالبات ہیں۔ اگر ابھی سے ہوم ورک کیا جائے تو اگلے سال وومن ڈے پر یہ دونوں گروپ اپنے اکثر پروگرام مشترکہ طور پر کر سکتے ہیں‘ اور حکومت سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کرنا آسان مگر ایک دوسرے کو قائل کرنا اور اپنے قریب لانا بہت دشوار ہوتا ہے مگر کرنے کا کام یہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں