مولانا فضل الرحمن کا امتحان

سچی بات تو یہ ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ انہیں اپوزیشن کی صورت میں امید کی ایک کرن نظر آرہی تھی مگر منگل کے روز پی ڈی ایم نے جس رویے کا سرعام مظاہرہ کیا اس سے بھی لوگوں کو بڑی مایوسی ہوئی ہے۔
جائیں تو جائیں کہاں؟
ہم سب قائدین کا بالعموم اور مولانا فضل الرحمن کا بالخصوص بہت احترام کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے داخلی اختلافِ رائے کو ''گھر‘‘ کی حدود تک محدود رکھنا مولانا کی ذمہ داری تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ مولانا نے پس پردہ کتنی کاوش اور محنت سے سب کو یکجا کیا اور انہیں حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے پر آمادہ کیا تھا۔ اس تحریک کا پہلا فیز نہایت کامیابی سے مکمل ہوا‘ مگر منگل کے روز یکایک کیا ہوا کہ اختلافات طشت ازبام ہو گئے۔ اگر ثقہ قارئین اجازت دیں تو پنجابی گیت کا ایک ٹکڑا مولانا کو سنائوں:
میری لگدی کسے نہ ویکھی تے ٹٹدی نوں جگ جان دا
ہمیں حیرت ہے کہ مولانا حسبِ سابق اجلاس سے پہلے اپنے مخصوص انداز میں ہوم ورک کیوں نہ کر سکے؟ بہرحال‘ پی ڈی ایم کا بھرم برقرار رہنا چاہئے تھا جو نہیں رہ سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے رشتوں اور رابطوں کا بھرم رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ بقول وسیم بریلوی:
ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں
مولانا اسی کھیل کے تو ماہر کھلاڑی ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ منگل کے اجلاس میں وہ اپنی مہارت کیوں نہ قائم رکھ سکے۔ پریس کانفرنس میں مولانا‘ مریم نواز اور گیلانی صاحب کی باڈی لینگویج سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔ پی ڈی ایم کے کارکنوں کیلئے یہ ایک حوصلہ شکن میسج تھا۔
سہ پہر کے قریب جب زرداری صاحب کی آن لائن تقریر منظرعام پر آئی تو ہمیں حیرت ہوئی۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ تھا کہ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے سے عام لوگوں میں بہت مایوسی پھیلے گی۔ ہم نے ایک مختصر سا میسج مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم قائد سے شیئر کیا۔ میسج میں لکھا تھا ''پی ڈی ایم اجلاس کے دوران اندر کی خبریں باہر نہیں آنی چاہئیں۔ نیز اتحاد کو ہر صورت برقرار رکھا جائے اور استعفوں کو آر یا پار کی حد تک نہ پہنچایا جائے‘‘۔
مسلم لیگ (ن) کے اس لیڈر نے ہماری رائے سے اتفاق کیا مگر اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ لگتا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے تمام قائدین نے من حیث الکُل بے حکمتی کا ثبوت دیا۔ مولانا اور میاں نواز شریف کو یقینا ادراک ہونا چاہئے کہ عوام کے اندر ابھی وہ بے چینی اور حکمرانوں سے مایوسی اس درجے کو نہیں پہنچی کہ جو ایک بھرپور عوامی تحریک کیلئے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ میری رائے میں پی ڈی ایم کی کامیابی یہ تھی کہ وہ استعفوں یا استعفوں کے بغیر مقررہ تاریخ کو بھرپور لانگ مارچ کرتی۔ مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق پیپلز پارٹی لانگ مارچ کی بھرپور تیاری کر رہی تھی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر زرداری دونوں جہاندیدہ قائدین ہیں مگر وہ ایک دوسرے کو پس پردہ کیوں نہ قائل کرسکے اور کسی درمیانی حل تک کیوں نہ پہنچ سکے۔ جس طرح سے آصف زرداری نے نواز شریف کے بارے میں طنزیہ اندازِ تنقید اختیار کیا وہ اُن کے شایانِ شان تھا؟ یہ اُن کے گزشتہ چند ماہ کے مصالحانہ رویے سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ ایسی باتوں سے غیروں کو ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ اس وقت بظاہر سیاسی موسم پی ڈی ایم کیلئے بہت سازگار ہے۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے مطابق نیوٹرل رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ڈسکہ الیکشن کے بارے میں الیکشن کمیشن نے اُن تمام خامیوں کی نشاندہی کی جن کی پنجاب حکومت مرتکب ہوئی تھی اور ڈسکہ الیکشن کے دوبارہ انعقاد کا فیصلہ سنا دیا۔ اسی طرح سینیٹ کی خفیہ ووٹنگ کے بارے میں بھی الیکشن کمیشن نے کسی طرح کے حکومتی دبائو کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یوں اس خوشگوار سیاسی فضا میں اپنے اختلافات کی پٹاری عوام کے سامنے کھول کر بیٹھ جانے سے پی ڈی ایم کے وقار میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ نجانے اپوزیشن قائدین کو اس خسارے کا ادراک ہے یا نہیں۔
سیاسی عجائبات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہوگا۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو کہ جہاں الیکشن کمیشن کو ڈرانے دھمکانے کا کام وزیر تعلیم کے سپرد کیا گیا ہو‘ جہاں وزیرخارجہ کا کام وزیر داخلہ انجام دینے کیلئے بیرون ملک دورے پر ہو اور جہاں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہر شام ٹیلی ویژن سکرینوں پر کسی نئی سائنسی تحقیق یا ایجاد کے ساتھ نہیں بلکہ جارحانہ سیاسی جراحی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہو۔ پیرکے روز وزیر تعلیم نے دوسرے وزرا کی معیت میں پریس کانفرنس کے ذریعے الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ یہ مطالبہ بالکل اسی نوعیت کا تھا جیسا افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے دو دہائیاں پہلے امریکہ نے پاکستان سے کیا تھا کہ اگر تم ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو اس کا مطلب ہے کہ تم ہمارے مخالف ہو۔ وزرا کے مطالبے سے یہ عیاں ہو گیا کہ اگر الیکشن کمیشن نیوٹرل ہے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ ہمارے خلاف ہے۔
الیکشن کمیشن سے استعفا کا حکومتی مطالبہ غیرآئینی‘ غیرقانونی اور ایک طرح سے اس خود مختار آئینی ادارے کی توہین ہے۔ اگر یہ ادارہ کسی غیبی اشارے پر غضِّ بصر سے کام لے اور اسکا آن لائن سسٹم ساری رات بند رہے اس دوران طرح طرح کی چہ مگوئیاں پروان چڑھتی رہیں توالیکشن کمیشن صاف شفاف الیکشن کروا رہا تھا‘ اور اگر دستِ غیب کے غائب ہونے کے بعد الیکشن کمیشن ڈسکہ کے الیکشن میں دو قیمتی جانوں کے ضیاع‘ سارا دن ہونے والے دنگا فساد‘ جگہ جگہ فائرنگ اور 20 پریذائیڈنگ افسروں کی شب بھر ''گمشدگی‘‘ کا نوٹس لے اور سوال کرے کہ پنجاب حکومت کے ڈسکہ میں متعین افسران اپنی ذمہ داری انجام دینے میں کیوں ناکام رہے؟ کیا وزراء نے کمیشن کی غیرجانبداری کی بنا پر اُس سے استعفا طلب کیا ہے؟
الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کر کے حکومت نے اپنی جگ ہنسائی کا اہتمام کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے آئین و قانون کی روشنی میں صاف شفاف خفیہ بیلٹ کے ذریعے چیئرمین سینیٹ کا الیکشن کروایا جس کے نتیجے میں حکومت کا چیئرمین کامیاب ہوا پھر الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ چہ معنی دارد؟
واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب اور سینیٹ الیکشن حکومت کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا مسئلہ جناب عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس ہے کہ جس میں بدھ کے اخبارات کے مطابق عمران خان کو بطورِ چیئرمین پی ٹی آئی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ شنید یہ ہے کہ اب فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کو ہے۔ اگر فیصلہ جناب عمران خان کے خلاف آتا ہے تو پھر پی ٹی آئی کا سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکتی‘ مگر اس کے بجائے حکمران ٹولہ اپنا غصہ الیکشن کمیشن پر نکال رہا ہے۔
بدلتے ہوئے موسموں میں پی ڈی ایم کا طرزِ عمل بالکل مختلف ہونا چاہئے۔ یہ وقت الیکشن کمیشن جیسے جرأت مند نیوٹرل اداروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے اُن کے کارکنان بصد ادب پوچھتے ہیں‘ جنابِ مولانا! یہ وقت قیام کا ہے سجود کا نہیں۔ مولانا کو استعفوں کے بارے میں اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ پی ڈی ایم کو جگ ہنسائی سے بچانا چاہئے اور استعفوں سمیت ہی سہی سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ اس تاریخی گھڑی میں مولانا کی لیڈرشپ کا امتحان ہے۔ اگر پی ڈی ایم ٹوٹ جاتی ہے تو مولانا کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور اگر مولانا اختلافات پر قابو پاکر پی ڈی ایم کو ایک بار پھر یک جان سو قالب کر لیتے ہیں تو انہیں جمہوری جدوجہد کا ایک کامیاب سیاست دان گردانا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں