پاک بھارت رابطے

یہ راز اب کوئی راز نہیں کہ پاک بھارت بیک چینل رابطے بحال ہوچکے ہیں اور سردمہری کی برف پگھل رہی ہے۔ اس سلسلے میں چند روز قبل 30 کے لگ بھگ خواتین و حضرات کے ساتھ اعلیٰ افسران کی ایک ''آف دی ریکارڈ‘‘ تفصیلی ملاقات کا سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی بین السطور بہت چرچا رہا۔ تیس آدمیوں کا راز کیسے راز رہ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عربی زبان کی ایک کہاوت نے بہت پہلے ایک شاندار اصول وضع کردیا تھا کہ ''وسِرُّالثََّلاثَۃِ غَیْرُالْخَفِیْ‘‘ کہ تین آدمیوں کا راز بھی چھپا نہیں رہ سکتا۔ راز اسی وقت تک طشت ازبام نہیں ہوتا جب تک کہ وہ صرف دو آدمیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک صاحب راز اور دوسرا رازداں۔
بہرحال رابطوں کا بحال ہونا اور مستقل امن کی دوطرفہ خواہش یقینا ایک اچھا شگون ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے عالمی سطح پر اس طرح کی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان اور انڈیا کے اعلیٰ سطحی رابطے یواے ای کے ذریعے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے امریکہ میں سفیر نے بھی ان رابطوں کی تصدیق کی تھی۔ جہاں تک پاکستانی حکومت اور ہمارے وزیر خارجہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ایسے رابطوں کی تردید کی اور کہا کہ جب تک انڈیا کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کو بحال نہیں کرتا اس وقت تک اس سے کسی طرح کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ تاہم چند روز پہلے میڈیا کے ساتھ ایک آف دی ریکارڈ ملاقات میں ''افسر اعلیٰ‘‘ نے ان بیک ڈور رابطوں کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ اس کی تفصیل بھی بتا دی کہ کس طرح دسمبر 2020ء میں بھارت نے ایک بار پھر مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا اور کشمیر سمیت تمام متنازع معاملات پر ''خاموش مذاکرات‘‘ کا ڈول ڈالا‘ اور بیک چینل ڈپلومیسی پاکستان اور بھارت کی اعلیٰ ایجنسیوں کے رابطے کے ذریعے ہوئی۔ ان ابتدائی ملاقاتوں کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر سیزفائر ہوگیا۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے صرف اتنا کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ہائی کمیشنز کام کر رہے ہیں۔ یہ سفارتی گفت و شنید کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی یہ دلچسپ نوعیت ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے رابطے ٹوٹ کر بھی کسی نہ کسی صورت بحال رہتے ہیں۔ بقول نوید رضا:
جدا ہوئے تو جدائی میں یہ کمال بھی تھا
کہ اس سے رابطہ ٹوٹا بھی تھا بحال بھی تھا
ماضی میں بھی اس طرح کی بیک چینل ڈپلومیسی کا ہی ثمر تھا کہ 1999ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم بس کے ذریعے لاہور آئے۔ یہاں انہوں نے مینارِ پاکستان جاکر پاکستان کو تسلیم کرنے کا دل و جان سے اقرار کیا؛ تاہم ہمارے گھریلو سوئے اتفاق کی بنا پر قیام امن کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور نہ ہی مسئلہ کشمیر حل ہوسکا۔ اسی دوران میاں نواز شریف کی دوسری وزارتِ عظمیٰ کا خاتمہ ہوگیا۔بعض حلقے مشرف کی متنازعہ کارگل مہم کو واجپائی کے دورۂ لاہور کے ثمرات تک عدم رسائی کا ایک سبب سمجھاتے ہیں‘ لیکن انہی پرویز مشرف کے دور میں واجپائی نے 2004ء میں ایک بار پھر اسلام آباد کا دورہ کیا اور پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک چار نکاتی فارمولے پر دوطرفہ اتفاق رائے سامنے آگیا۔ اس فارمولے کے تحت مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کیلئے مذاکرات فیصلہ کن دور میں داخل ہوسکتے تھے‘ مگر اس دوران پاکستان میں مشرف کیخلاف احتجاج زور پکڑ گیااور یوں بھارت کے ساتھ مذاکرات پس پشت چلے گئے۔
آج کی بیک چینل ڈپلومیسی پہلے سے کہیں بڑھ کر دشوار ہے۔ انڈیا نے کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کو ختم کر رکھا ہے۔ دوسرے 2019ء میں اُس نے بین الاقوامی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان پر فضائی حملہ بھی کیا تھا۔ پاکستان نے پہلے یہ کہا تھاکہ جب تک بھارت کشمیر کا سپیشل سٹیٹس بحال نہیں کرتا اس وقت تک اس کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کو ریاستی تشدد کے ذریعے پامال کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی شہادت سامنے نہیں آئی کہ انڈیا کشمیریوں کے خلاف فوجی ایکشن روک چکا ہے یا روکنے پر آمادہ ہے‘ بلکہ اسکے برعکس روزانہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تشدد کی بنا پر نوجوان کشمیری شہید ہورہے ہیں؛ تاہم باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیریوں کا سابقہ ریاستی سٹیٹس بحال کردے گا۔ آج کے حالات میں بظاہر یہ ایک خوش فہمی محسوس ہوتی ہے مگر شاید بھارتی خاموش ڈپلومیسی نے اس کی کوئی یقین دہانی کرائی ہو۔ جہاں تک بھارتی وزیراعظم کا تعلق ہے‘ وہ ابھی تک اس معاملے میں مہربلب ہیں۔ یقینا اس بیک چینل ڈپلومیسی کو اُن کی اشیرباد حاصل ہوگی۔
ایک ماہ کی خاموشی توڑتے ہوئے منگل کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ یہ کیسے خفیہ مذاکرات ہیں جن کا پاکستانی پارلیمنٹ کو کوئی علم ہے اور نہ ہی کشمیری انکے بارے میں کچھ جانتے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) حکمرانوں کو کشمیر بھارتی جھولی میں نہیں ڈالنے دے گی۔ اگرچہ یہ بیک چینل روابط ہیں مگر ان کے بارے میں بھی پارلیمنٹ یا کم از کم پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو تو قدم بقدم اعتماد میں لیا جانا چاہئے تاکہ اس قومی معاملے پر کسی قسم کی غلط فہمی اور بے اعتمادی پیدا نہ ہو۔
ان دنوں بھارت کورونا کے حوالے سے شدید نوعیت کے انسانی المیے سے دوچار ہے۔ بھارت میں روزانہ اوسطاً ساڑھے تین لاکھ کورونا کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں اور روزانہ تین ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ اس وقت بھارتی، عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں وہ بڑے دلدوز ہیں۔ ہسپتالوں میں جگہ نہیں۔ بھارت میں آکسیجن کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔ غریب لوگ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑے ہیں اور کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں۔ امریکی میڈیا نے ایک بڑی ہی ہولناک تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ اگر بھارت میں یہی صورتحال مزید چند ہفتوں تک جاری رہی تو بھارت کے 50 کروڑ شہری کورونا کی زد میں آسکتے ہیں اور روزانہ 13ہزار ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔ اس وقت بھی بھارت میں جگہ جگہ شمشان گھاٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں کے کناروں اور پارکوں میں بھی مرگھٹ بن چکے ہیں جہاں صبح سویرے سے رات گئے تک چتائیں دہکتی رہتی اور کورونا کے شکار مردے جلتے رہتے ہیں۔ لوگ جگہ جگہ آکسیجن کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ان حالات میں بھارت کے مسلمان مساجد میں صدقِ دل سے تمام بھارتیوں کی کورونا سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں اور اُن کیلئے اپنا خون اور پلازما دے رہے ہیں۔ بھارت کی صورتحال ہمارے لیے بھی ایک بہت بڑی وارننگ ہے۔ عدم احتیاط کی صورت میں خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
گزشتہ برس بھارت میں ہندوانتہا پسندوں نے مسلمانوں پر بدترین تشدد کیا اور تبلیغی اجتماع کو کورونا پھیلانے کا بنیادی سبب قرار دیا تھا۔ اس برس تو تبلیغی اجتماع منعقد ہی نہیں ہوا اور ہندوئوں کے ایک بہت بڑے میلے کے ذریعے کورونا سارے بھارت میں پھیلا۔ آج وہاں جابجا ہندو عوام اور پولیس مین مسلمانوں سے معافی مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ نیز سوشل میڈیا پر اینکر مسلمانوں کی تعریف وتحسین کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ہندو مذہب کے بہت سے نام لیوا اپنے سابق رویے پر اظہارِ ندامت بھی کررہے ہیں۔ پاکستان نے بھی کورونا کے انسانی المیے سے نبردآزما ہونے کیلئے انڈیا کو امداد کی پیشکش کرکے ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ انڈیا میں عوامی سطح پر یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔ اللہ کرے کہ بھارتی حکمران بھی عوام کی طرح اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور اخلاص کے ساتھ خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔
پاک بھارت بیک چینل رابطوں سے اگر فیصلہ کن سہ فریقی مذاکرات کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو یہ بہت بڑی مثبت پیشرفت ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں