خرابی سسٹم میں ہے یا افراد میں؟

سارے جہاں میں تنقید افراد کے رویوں پر ہوتی ہے‘ آئین پر نہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں آئین کو فی الواقع ایک مقدس دستاویز سمجھا جاتا ہے جس کے خلاف لب کشائی ہو سکتی ہے اور نہ خامہ فرسائی۔ مگر ہمارے طور طریقے سارے جہاں سے نرالے ہیں۔ یہاں کوئی صاحبِ ہیبت و حشمت آئین کو محض چند صفحات کا مجموعہ قرار دے کر‘ اسے پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کا بیان داغنے کی جسارت بھی کرسکتا ہے اور ہر کہ ومہ کسی ایوان میں کچھ ممبران کے افسوسناک بلکہ شرمناک رویوں کو دیکھ کر اُنہیں نشانۂ تنقید بنانے کے بجائے یہ فتویٰ بھی صادر کر سکتا ہے کہ سسٹم جواب دے چکا ہے‘ اب پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام لائو۔
مسئلہ سسٹم نہیں افراد ہیں۔ اگر افراد نے اپنے غیرجمہوری رویے نہیں بدلنے‘ انہوں نے اپنی من مانی کرنی ہے اور اپنی ہی منوانی ہے‘ انہوں نے دوسروں کی نہیں سننی صرف اپنی سنانی ہے‘ انہوں نے تحمل‘ برداشت‘ رواداری اور وضع داری سے کام نہیں لینا اور لیڈرشپ کا معیار بلند نہیں ہونے دینا‘ تو اس سے یقینا جمہوریت و سیاست کو نقصان پہنچے گا۔ اگر سیاسی قیادتوں نے اپنے ارکان اور کارکنان کی تربیت نہیں کرنی‘انہیں اعلیٰ آئینی‘ قانونی اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی نہیں سکھانی اور اُن کی آئین شکنی اور اخلاق شکنی پر شدید ایکشن نہیں لینا اور ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی بلکہ اُن کی حوصلہ افزائی کرنی ہے تو پھر پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لے آئیں بلکہ کوئی اور ملکوتی نظام ہی کیوں نہ لے آئیں کسی سے کچھ بہتری نہیں آئے گی بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر ابتری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جناب عمران خان نے برسراقتدار آنے سے پہلے اس قوم کے سامنے جتنی اصولی و آئینی باتیں کیں اتنی پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے تمام حکمرانوں اور سیاستدانوں نے مل کر بھی نہیں کی ہوں گی۔ جناب عمران خان نے اپنی 22 سالہ جدوجہد اور اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا قوم کو باور کروایا کہ وہ سیاست اور صحافت کو ہر طرح کی مداخلت اور ڈکٹیشن سے آزاد رکھیں گے۔ اسی طرح انہوں نے اسلامی روایات اور اعلیٰ جمہوری اقدار کی پاسبانی کو بھی اپنا شیوہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے پولیس‘ نظامِ عدل و انصاف اور تعلیم میں بہت بڑی اصلاحات لانے کی بات کی تھی مگر افسوس تو یہ ہے کہ عملی میدان میں اتر کر بحیثیت وزیراعظم جناب عمران خان نے اصولوں پر جتنے کمپرومائزز کیے ہیں وہ بھی شاید پاکستان کی تاریخ میں کسی اور نے نہیں کیے۔
جناب عمران خان نے وزیراعظم بن کر صیغہ واحد متکلم میں بات کرنا اپنا شعار بنا لیا۔ ''کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ انہیں مزہ چکھائوں گا‘ انہیں جیل کی کال کوٹھڑی تک پہنچائوں گا۔‘‘ جمہوریت میں مفرد نہیں جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً'' میں‘‘ کے بجائے ہم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ صرف وزیراعظم بن کر جناب عمران خان نے یہ رویہ اپنایا جیسے وہ مطلق العنان صدر ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں پارلیمانی طرزِ حکومت رائج ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں کہ جہاں دستوری بادشاہتیں اور پارلیمانی جمہوریتیں ہیں۔ ان ممالک میں ڈنمارک‘ ناروے‘ جاپان‘ سویڈن‘ ملائیشیا‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور نیوزی لینڈ جبکہ آئرلینڈ‘ جرمنی‘ انڈیا‘ اٹلی اور سنگاپور وغیرہ میں آئینی صدور کے ساتھ پارلیمانی جمہوریتیں ہیں۔جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم تین میں ہیں نہ تیرہ میں کیونکہ کبھی یہاں پارلیمانی جمہوریت ہوتی ہے‘ کبھی مارشل لا اور کبھی صدارتی نظام کا شوروشغب سننے میں آتا ہے۔ اس لیے دنیا کو بھی مشکل درپیش رہتی ہے کہ وہ ہمارا شمار کس خانے اور کھاتے میں کرے۔ اس لحاظ سے 1973ء کا دستور خاصا سخت جان ثابت ہوا ہے‘ اسے کئی آندھیوں اور طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر بھی وہ اپنی اصلی حالت میں برقرار ہے۔
اوپر میں نے جن پارلیمانی جمہوریتوں کا ذکر کیا ہے وہاں جمہوری آزادی بھی ہے‘ معاشی خوش حالی بھی ہے‘ باہمی رواداری بھی ہے‘ فلاحی کلچر بھی ہے اور بہترین گورننس بھی ہے۔ کیا یہ لوگ آسمان سے اُترے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں! یہ ہمارے جیسے انسان ہی ہیں مگر وہاں سیاسی اقدارو روایات کی پاسداری کو ہر شخص اپنا فرضِ اوّلین سمجھتا ہے اور کوئی شخص غیرمہذب رویہ اختیار کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی سیاسی و آئینی اقدار کی خلاف ورزی کا تصور کر سکتا ہے۔ ان جمہوری ممالک میں جتنی اہمیت حزبِ اقتدار کو حاصل ہوتی ہے اُتنی ہی حزبِ اختلاف کی بھی ہوتی ہے۔ وہاں کے وزرائے اعظم قومی معاملات اور قانون سازی کے مراحل میں حزبِ اختلاف کی بات کو زیادہ غور سے سنتے ہیں تاکہ عین ممکن ہے کہ اپوزیشن کوئی ایسا نکتہ بیان کردے جو اُن کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا ہو۔ ان پھلتی پھولتی اور خوش حالی کا برگ و بار لاتی جمہوریتوں کے برعکس ہمارے ہاں حزبِ اختلاف کو بلڈوز کر کے‘ اور اُن کی آواز دبا کر ''قانون سازی‘‘ کر دی جاتی ہے۔ ایسی قانون سازی کیسے قابل اعتماد اور قابل احترام ہو سکتی ہے۔جناب وزیراعظم فرماتے ہیں کہ دھاندلی روکنے کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین واحد آپشن ہے۔ انتخابی عمل شفاف بنائیں گے۔ کیا کسی جمہوری نظام میں ایک فردِ واحد کسی تبدیلی کو واحد آپشن کہہ سکتا ہے؟ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یکایک جناب عمران خان کی الیکٹرانک مشین کے ساتھ اتنی جذباتی وابستگی کیوں ہو گئی ہے جس کیلئے اُنہوں نے تمام آئینی جمہوری اور پارلیمانی روایات کو بلڈوز کر کے اور حزبِ اختلاف کو شامل کیے بغیر آناً فاناً اصلاحات کا بل اسمبلی سے ''منظور‘‘ کروایا۔ ہفتے کے روز الیکشن کمیشن نے حکومت کی مجوزہ 72 تبدیلیوں میں سے 45 پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور الیکشن ایکٹ کی 13 شقوں کو آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ انتخاب مینوئل ہو یا مشینوں کے ذریعے‘ اصل مسئلہ تو اعتماد کا فقدان ہے۔ اپوزیشن نے 2018ء کے انتخابات کو بھی دھاندلی کا کرشمہ قرار دیا تھا اور ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں تو موجودہ حکومت کی دھاندلی پکڑی گئی تھی۔ انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو شدید تحفظات ہیں اسی لیے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے انتخابی اصلاحات پر کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اصلاحات کے علاوہ مختلف قسم کی مداخلتوں کے بارے میں اپوزیشن کے تحفظات کا ازالہ بھی صاف شفاف انتخابات کیلئے ضروری ہے۔ حکومت اگر نیک نیتی سے انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اعتماد میں لے اور پھر متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کو سفارشات پیش کرے اور فیصلہ کمیشن کے آئینی و قانونی اختیارات پر چھوڑ دے۔
اوپر جن پارلیمانی ممالک کا ذکر ہوا ہے وہاں عوامی فلاح اور خوش حالی کا کلچر رائج کرنے میں شہری حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کا کلیدی کردار ہے۔ ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں تو بلدیاتی اداروں کو ''رقیب ِروسیاہ‘‘ سمجھتی ہیں اسی لیے انہیں پنپنے نہیں دیتیں اور نہ چلنے دیتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی پنجاب میں بلدیاتی اداروں پر قدغن لگا دی تھی اور انہیں کام سے روک دیا تھا۔ چند ہفتے پیشتر ان اداروں کو سپریم کورٹ نے بحال کر دیا تھا مگر پھر بھی حکومت نے انہیں بزورِ شمشیر نہیں چلنے دیا۔اوورسیز پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں ضرور شامل کیا جانا چاہئے مگر اس کا بھی کوئی متفقہ قابل عمل حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہم خود بھی دو دہائیوں سے اوپر سمندر پار پاکستانی رہے ہیں اس لیے اُن کے احساسات و جذبات کو سمجھتے ہیں۔ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے ارسال کردہ ڈالروں کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹتی ہے مگر آج تک اُن کی پاکستان واپسی کے بعد مستقل معیشت و مصروفیت کیلئے ایک سکیم بھی نہیں دے سکی۔ اس طرف بھی توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ خرابی سسٹم میں نہیں‘ افراد میں ہے۔ جب تک ہمارے حکمران آئین و قانون کی پابندی اور پارلیمانی روایات کی پاسداری کو اپنا شعار نہیں بنائیں گے اُس وقت تک ہم اسی طرح افراتفری کا شکار رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں