عمران خان کا امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو

کسی منجھے ہوئے صحافی کو عالمی موضوعات پر انٹرویو دینا تنے ہوئے رسے پر نیاگرا فال عبور کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس نازک کام کے لیے مہارت، احتیاط اور توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرا سی لرزش یا لغزش آپ کو آبشار کی موجوں کے حوالے کر سکتی ہے۔ جناب عمران خان جب کبھی حساس نوعیت کے عالمی، علاقائی اور سفارتی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں تو بالعموم ضروری نزاکتوں اور لطافتوں کا خیال نہیں رکھ پاتے۔ تین چار روز قبل انہوں نے ایک امریکی ٹی وی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے بعض بڑی بنیادی نوعیت کی باتیں کیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ اگر امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد یہاں خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان سے ہوائی اڈے طلب کرے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا‘ عمران خان نے کہاکہ امریکہ کو اڈے دینے کے بارے میں ہمارا کورا جواب ہے۔
موجودہ حالات اور ماضی کے تلخ ترین تجربات کی روشنی میں ہمارا اس کے علاوہ کوئی اور جواب ہو ہی نہیں سکتا تھا تاہم خان صاحب کی زبانی قومی جذبات کی ترجمانی یقینا قابل ستائش ہے۔ ماضی میں جنرل پرویز مشرف نے جس طرح سے ہماری خارجہ پالیسی کو ٹکے ٹوکری کر دیا تھا اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملوں کیلئے امریکہ کو اڈوں سمیت وہ سہولتیں بھی فراہم کردی تھیں جن کے بارے میں اُس نے سوچا بھی نہ تھا۔ اس کے ردعمل میں پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ ہمارے 70 ہزار فوجی اور شہری شہید ہوئے اور ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔
ہمیں اس وقت بڑے حساس نوعیت کے علاقائی و عالمی حالات کا سامنا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کے موقع پر برطانیہ میں جی سیون ممالک کے اجلاس میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں چین کے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا: چین کے اندر بالخصوص سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی پر اظہارِ مذمت کرنا چاہئے‘ نیز ہانگ کانگ میں مزید خودمختاری اور چین میں کووڈ19 کے آغاز کے حوالے سے تفتیش کا مطالبہ بھی کرنا چاہئے۔
بلاشبہ افغان عوام نے پہلے ایک سپر پاور روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور اب دوسری سپرپاور‘ جو اپنے آپ کو سب سے بڑی طاقت سمجھتی ہے‘ کو 20 برس کی جنگی کارروائیوں کے بعد افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اگرچہ بڑی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوانا یقینا ان کے لیے باعث فخروانبساط ہے تاہم اب انہیں من حیث القوم کارِ آشیاں بندی کی طرف آنا چاہئے اور باہمی افہام و تفہیم سے کام لے کر ایک متحدہ حکومت قائم کرکے افغانستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہئے۔
اسی انٹرویو میں جناب عمران خان نے ایک ایسی بات کہہ ڈالی کہ جس کی بنا پر انہیں ملک کے اندر شدید نوعیت کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ انہوں نے اتنے حساس موضوع پر لب کشائی سے پہلے وزارتِ خارجہ سے بریفنگ کیوں نہیں لی۔ خان صاحب نے ایک سوال کے جواب میں علی الاعلان یہ کہہ دیا کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایٹمی قوت کے بارے میں کبھی سول ملٹری موقف یہ نہیں رہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بعد ہم اسے رول بیک کر دیں گے۔ خان صاحب کے اس جواب سے پہلے امریکی ٹیلی وژن کے صحافی نے کہا تھا کہ مختلف عالمی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کا ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
کیا جناب عمران خان کو یہ معلوم نہیں کہ مغرب کے دل میں پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ ہمارے پروگرام کو رول بیک کرنے یا کرٹیل کرنے کے بارے میں مختلف قوتوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آتا رہا ہے۔ مغربی قوتوں کو یہ پروگرام اس لیے کھٹکتا ہے کہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جسے یہ عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔ گزشتہ تین برس کے دوران موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی اور کشمیری فقط بھارتی مظالم کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں۔ جناب عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں مگر کیا انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت صرف مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے حاصل نہیں کی ہے۔ موجودہ حکومت کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل صرف اتنا ہے کہ بھارت اہل کشمیر کا سابق سٹیٹس بحال کر دے۔ کیا بس اتنی سی بات کے لیے پاکستان اپنا نیوکلیئر پروگرام رول بیک کر دے گا؟
کیا مسئلہ کشمیر کا کوئی چھوٹا موٹا کاسمیٹک حل نکالنے کے بعد ہمیں اپنے سے سات گنا بڑی عسکری و ایٹمی قوت بھارت سے کوئی خدشہ اور خطرہ نہیں رہے گا؟ پاکستان کی اس وقت تک پالیسی یہ ہے کہ اگر بھارت اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر بھی لے تو پاکستان تب بھی ایسا نہیں کرے گا۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایٹمی قوت بائیس کروڑ عوام کی امانت ہے جس کے بارے میں کوئی فردِ واحد اس طرح کی لب کشائی نہیں کر سکتا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام دفاعی ہے، جارحانہ نہیں۔ یہ اٹل اور دائمی ہے۔ یہی پاکستان کی قومی پالیسی ہے۔ اس حوالے سے جناب وزیر اعظم سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے اُنہیں فی الفور اس کا ازالہ کرنا چاہئے اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنا بیان واپس لے لینا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ کنفیوژن مزید بڑھے جناب وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اِن کیمرہ اجلاس میں تمام ممبران کو پاکستان کی ایٹمی پالیسی اور افغانستان کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں اعتماد میں لینا چاہئے۔ نیز افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر بھی سیر حاصل بحث کی جائے۔ علاوہ ازیں اس اجلاس میں امریکہ چین تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی اور کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں بھی غوروفکر کیا جائے۔ جس انداز سے وفاقی حکومت اپوزیشن، سندھ کی صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کے خلاف جارحانہ طرزِعمل اختیار کیے ہوئے ہے وہ ملکی اتحاد کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اس سے حکومت اجتناب کرے اور تمام اہم امور کے بارے میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا کلچر بحال کرے۔
جناب وزیراعظم نے اسی انٹرویو میں ایک بار پھر خواتین کے لباس کا جس طرح سے ذکر کیا‘ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا یہ ریپ کا بنیادی سبب ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ ہمارے ملک میں جنسی درندگی کے بہت سے اسباب ہیں۔ اس درندگی کا شکار صرف خواتین ہی نہیں، بچے اور بچیاں بھی ہوتے ہیں حتیٰ کہ خراب گاڑی میں سڑک کے کنارے بچوں کے ہمراہ ڈری اور سہمی ہوئی خاتون بھی اس جنسی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے نہ تو عورتوں کو برقعہ اوڑھنے کا درس دیا نہ ہی انہیں پردہ کرنے کی ترغیب دی، اور نہ ہی خواتین کے لیے کوئی خاص لباس تجویز کیا‘ صرف اتنا کہا کہ عورتوں کا مختصر لباس نوجوانوں کے لیے باعث کشش ہو سکتا ہے‘ ایسی صورتِ حال کا مغربی ممالک کو بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہاں ہم سے کہیں بڑھ کر ریپ کیسز ہوتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ محترم خان صاحب ترتیبِ کلام یا چوائس آف ورڈز کے بارے میں کسی سے مشورہ کرتے ہیں اور نہ ہی غوروفکر کو ضروری سمجھتے ہیں اسی لیے اس بار بھی اُن پر تنقیدی تیروں کی ویسی ہی بوچھاڑ ہو رہی ہے جو ایک بار پہلے بھی ہو چکی ہے۔ انہیں مختلف معاملات پر اپنے مؤقف کی وضاحت کرنی چاہئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں