ساحلِ مراد

ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے یا روح پر لگے زخموں کو سینے کا کام کون کرتا ہے؟ یہ نازک کام کوئی مخلص دوست‘ کوئی شفیق استاد یا کوئی مہربان مرشد کرتا ہے۔ یہ ہستیاں ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا لطیف کام اس نفاست سے انجام دیتی ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ دل کہاں سے ٹوٹا تھا۔
دل شکستہ دراں کوچہ می کنند درست
چناں کہ خود نہ شناسی کہ از کجا بہ شکست
اُس کوچے میں دلِ شکستہ کو یوں درست کر دیا جاتا ہے کہ تو خود بھی نہ پہچان سکے کہ یہ کہاں سے ٹوٹا تھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ہفتے ہم نے لکھا تھا کہ بہت سے نوجوانوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا ہے کہ حکمرانوں‘ دانشوروں اور سیاست دانوں سمیت ہر کوئی ساٹھ فیصد آبادی پر مشتمل نوجوانوں کو ملت کے مقدر کا ستارہ اور مستقبل کا اثاثہ تو قرار دیتا ہے مگر کوئی یہ خبر نہیں لیتا کہ جب یہ اثاثہ ٹین ایج کے سالوں میں اپنے تشکیلی دور سے گزرتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر کیا بیتتی ہے۔ امید اور ناامیدی کے بھنور میں کچھ نوجوان تو ڈوب جاتے ہیں اور کچھ خوش قسمت ساحلِ مراد پر پہنچ جاتے ہیں۔ یاس سے اُمید تک کی یہ کہانی کسی ایک نوجوان کی نہیں‘ تقریباً ہر نوجوان کی کہانی ہے؛ تاہم آج ہی کے ایک نوجوان نے اپنی زندگی کی کہانی خود سنائی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح وہ تعلیم کی الجھنوں میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اُن کی زندگی کی اندھیری رات تین برس پر محیط ہوگئی۔ جب اس نوجوان کو کسی طرف سے کوئی سہارا نہ ملا تو اُس نے کتابوں کو اپنا قلبی دوست بنا لیا۔ کتابوں کے مطالعے سے نوجوان بلال نے ایک اہم بات یہ سیکھی کہ آدمی نے اپنا مقدر خود ہی بنانا یا بگاڑنا ہوتا ہے۔ اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات پر مبنی انگریزی زبان میں لکھی گئی اس مختصر کتاب کا عنوان ''The Resurrection‘‘ ہے۔ ہم اسے اردو میں ''صبحِ نو‘‘ کہیں گے۔
اگرچہ کتاب کے مصنف شعبہ مینجمنٹ کے طالب علم ہیں مگر وہ اپنے گھر کے علمی و ادبی پس منظر کی بنا پر اس بالی عمریا میں اردو اور انگریزی پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی سے بھی بہت اچھی شناسائی رکھتے ہیں۔ نوجوان مصنف نے بتایا کہ انہوں نے چند برس قبل اولیول کے امتحان میں اچھے گریڈز کے ساتھ کامیابی حاصل کی مگر اس کے ساتھ ہی اُنہیں ایک اور امتحان کا سامنا تھا۔ بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
اولیول کے بعدانہیں اے لیول میں داخلے کا مرحلہ درپیش تھا۔ وہ اس امتحان سے بھی سرخرو ہوئے اور اے لیول میں انہیں لاہور کے ایک مشہور ادارے میں داخلہ مل گیا۔ اے لیول میں داخلہ لینے کے بعد ہمارے نوجوان مصنف کی وہی کیفیت تھی جو برسوں پہلے انگریزی کے مشہور شاعر رابرٹ فراسٹ کی ہوئی تھی۔ فراسٹ کی نظم The Road Not Taken بہت مشہور ہوئی۔ مصنف جنگل میں ایک دوراہے پر کھڑا تھا۔ منزل ایک تھی مگر راستے دو تھے۔ تادیر شاعر سوچتا رہا کہ کون ساراستہ اختیار کروں۔ بالآخر اُس نے وہ راستہ چنا جس پر کم لوگ سفر کرتے تھے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد دورانِ سفر شاعر بار بار سوچتا رہا کہ وہ دوسرے راستے پر کیوں نہ چلا؟
اسی تردّد کا سامنااس نوجوان مصنف کو بھی تھا کہ اس نے ایف ایس سی چھوڑ کر اے لیول کا قدرے نامانوس راستہ اختیار کر کے غلطی تو نہیں کی۔ انہی ایام ِ تردّد میں مصنف کا ایک مڈل سکول کے زمانے کا دوست اُس سے ملنے آیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ اس نے ایف ایس سی میں داخلہ نہیں لیا تو اس نے ''ازراہِ اخلاص‘‘ اس تردّد کی سلگتی آگ کو مزید بھڑکایا اور کہا کہ پاکستان میں شعبے تو فقط دو ہی ہیں‘ ایک میڈیکل اور دوسرا انجینئرنگ۔ ان دونوں شعبوں میں داخلے کے حصول کا آسان راستہ ایف ایس سی سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہمارے نوجوان مصنف نے او لیول کا راستہ چھوڑ کر ایف ایس میں داخلہ لے لیا۔ اللہ اللہ کر کے واجبی سے نمبروں سے ایف ایس سی میں پاس ہو گئے مگر آگے یونیورسٹی میں داخلے کے بڑے مسائل کھڑے ہوگئے۔ کبھی ایک شعبے میں داخلہ تو کبھی دوسرے میں۔ کبھی ایک ڈیپارٹمنٹ میں ناکامی تو کبھی دوسرے میں۔
نوجوان مصنف نے لکھا ہے کہ اُس کی فرسٹریشن اپنی انتہا کو پہنچی تو وہ ایک قبرستان میں جانے لگا۔ وہاں گھنٹوں بیٹھ کر دنیا کی بے ثباتی پر غوروفکر کرتا اور خود کو سمجھاتا کہ جب مآلِ ہستی ایک قبر ہی ہے تو پھر اتنی سوچ بچار اور تگ و دو کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خوش قسمت تھا کہ ڈپریشن کے ان تاریک دنوں میں بھی اُس کی سلامتی طبع قائم رہی اور وہ دوسرے بہت سے نوجوانوں کی طرح ڈرگز میں پناہ لینے سے محفوظ رہا۔ تین قیمتی سالوں کے ضیاع کے بعد کے ایک سابق استاد کہ جو اس کی شخصیت کے مثبت پہلوئوں اور اُس کے میلانِ طبع سے بخوبی آگاہ تھے ‘ نے اسے مینجمنٹ سائنسز میں بی ایس کرنے کا مشورہ دیا۔ اس نے اس مشورے کو قبول کر لیا اور خوش قسمتی سے اسے لاہور کی ایک مشہور دانش گاہ میں مطلوبہ شعبے میں داخلہ مل گیا۔ تین سالہ اذیت ناک ذہنی سفر کے دوران کو محسوس ہوا کہ اُس کی کہانی کم و بیش آج کے ہر نوجوان کی کہانی ہے۔
فریدا میں جاتا دُکھ مجھ کوں دُکھ سجھائے جگ
اُچے چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہو اگ
فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں تمام واقعات و حادثات کا ذکر سادگی سے کیا ہے مگر اُن کے اسباب کو علمِ نفسیات اور فلسفہ میں تلاش کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے غوروفکر‘ مطالعے اور تجربے کی روشنی میں نوجوانوں کی دستگیری کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ نوجوان مصنف ایک معروف علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ اُنہوں نے قاہرہ سے مڈل اور لاہور کے ایک معروف ادارے سے اولیول پاس کیا ہے۔ ہم پورے تیقن کے ساتھ نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس کتاب کے مطالعے سے سیلف ہیلپ کی مہارت حاصل کر کے اپنے مسائل کا حل خود ہی دریافت کر سکتے ہیں۔
کئی ماہ پیشتر میرے عزیز دوست ڈاکٹر عدنان کرمانی کی صاحبزادی اسلام آباد کی ایک ممتاز یونیورسٹی کے ایک شعبہ میں بی ایس کی طالبہ تھی۔ وہ کورونا کی وجہ سے اپنے ڈسپلن کے ایک پرچے میں ناکام ہو گئی۔ اُس نے اس ناکامی کو دل پر لے لیا۔ ڈاکٹر عدنان نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ استاد ہیں اس لیے بچی کو ڈپریشن کے گرداب سے نکالیں۔ میں نے بات کی‘ اُس نے دلیل و منطق کے ساتھ بہت سلجھی ہوئی گفتگو کی۔ اُس کی بات سننے کے بعد ایک استاد اور انکل کی حیثیت سے میں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ ناکامی کو کامیابی میں کیسے بدل سکتی ہے اور وہ اپنی دوستوں کے پسندیدہ شعبے کے بجائے اپنی پسند کے شعبے میں داخلہ لے۔ اللہ کے فضل سے اُسے اُس کے پسندیدہ شعبے میں داخلہ مل گیا اور اب ہر سمسٹر میں بہت اچھے گریڈز آرہے ہیں۔ اس نے ''ٹین ایج مسائل‘‘ پر لکھا ہوا اپنا آرٹیکل بھی مجھے ارسال کیا۔ اس میں بھی بنیادی طور پر وہی بات تھی کہ نوجوان جب تعلیمی و نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں تو کوئی اُن کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہوتا۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں نوجوانوں کی ہر سطح پر کونسلنگ کا شاندار نظام موجود ہے مگر ہمارے نوجوان اس طرح کی رہنمائی سے محروم ہیں۔ وہ بھی اپنے تفصیلی مضمون کو کتابی شکل میں لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ہم نوجوان مصنف کو سلامتی کے ساتھ ساحلِ مراد تک پہنچنے پر مبارک باد دیتے ہیں اور نوجوانوں کی راہ نمائی کے لیے لکھی گئی کتاب پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں