بہارِ عرب: یہ نہ تھی ’’عربوں‘‘ کی قسمت

چھوٹی بحر کے مصرعے کی طرح چھوٹے شہروں اور چھوٹے ملکوں کی ایک خاص دلآویزی ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک دلآویز اور خوبصورت ملک بحرروم کے کنارے آباد ہے جسے ہم تیونس اور اس کے مکین اسے تونس الخضراء یعنی سرسبز تیونس کہتے ہیں۔ تریسٹھ ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے تقریباً ایک کروڑ نفوس پر مشتمل اس ملک کے مشرق میں لیبیا اور مغرب میں الجزائر واقع ہے۔ مجھے تیونس دو وجوہات سے بہت عزیز ہے کہ ایک تو اس ملک کے کتب خانوں اور وہاں بسر کی ہوئی شاموں سے کئی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ دوسرے یہ محمد بوعزیزی کا ملک ہے۔ محمد بوعزیزی کون تھا؟ محمد بوعزیزی تیونس کے شہر سیدی بوزید کا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ اسے تلاش بسیار کے باوجود جب ملازمت نہ ملی تو اس نے ریڑھی لگا لی۔ وہ ریڑھی لگانے کے آدابِ غلامی سے ناواقف تھا۔ جب ایک لیڈی پولیس افسر نے اس سے بھتہ مانگا تو اس نے کچھ بھی دینے سے انکار کیا۔ پولیس افسر نے اس انکار کو اپنی توہین سمجھا اور کئی ساتھیوں سمیت بوعزیزی پر بہت تشدد کیا۔ تعلیم یافتہ نوجوان اس سلوک سے ایسا دلبرداشتہ ہواکہ اس نے خود سوزی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ یہ واقعہ 2010ء کا ہے۔ اس کے ردعمل میں سارے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے۔ نصف صدی سے آمریت کے شکنجے میں کسے ہوئے لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اس تحریکِ جمہوریت کے نتیجے میں تیس سال سے من مانی کرنے والا آمر زین العابدین بن علی ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوگیا۔
تیونس کی یہ جمہوری تحریک کئی دوسرے ملکوں میں بھی پھیل گئی خاص طور پر لیبیا، مصر، یمن اور شام وغیرہ میں آمروں کے خلاف لوگ سراپا احتجاج بن گئے۔ بادشاہتوں اور آمریتوں کے ستائے ہوئے لوگ مطلق العنان حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے کمربستہ ہوگئے۔ فروری 2011ء میں مصر کے عوام نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا پرامن احتجاجی مظاہرہ قاہرہ کے میدان التحریر میں کیا اور یوں 29 سال سے نام نہاد ریفرنڈم کے سہارے لوگوں کی مرضی کے خلاف اُن پر مسلط صدر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس تحریک کے نتیجے میں مئی‘ جون 2012ء میں مصر میں آزادانہ صدارتی انتخاب ہوا جس میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ محمد مرسی ملک کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوئے۔ تیونس میں چلنے والی جمہوری ہوائیں جب کئی دوسرے عرب ممالک میں پہنچنے لگیں تو انہیں الربیع العربی یعنی بہارِ عرب کا نام دیا گیا۔
اسلامی جمہوری پارٹیوں کی لچکدار حکمت عملی کے نتیجے میں مصر اور تیونس میں جمہوریت کا پودا جڑ پکڑنے لگا جبکہ یمن، لیبیا اور شام میں جمہوری تحریک کو تشدد کے راستے پر ڈال دیا گیا‘ تاہم روز اوّل سے مصر اور تیونس کی جمہوری حکومتیں علاقے کی ملوکانہ و آمرانہ قوتوں کو کانٹے کی طرح کھٹکنے لگیں۔ اسی طرح جمہوریت کا سب سے بڑا عالمی دعویدار ملک سارے عالم عرب میں جمہوری پودے کو پنپنے نہیں دیتا کیونکہ جس طرح غیرجمہوری حکومتیں سپرپاور کے سامنے سرنگوں رہتی ہیں اس طرح کوئی جمہوری حکومت سرتسلیم خم نہیں کر سکتی‘ لہٰذا علاقائی اور عالمی قوتوں نے محمد مرسی کی جمہوری صدارت کو بمشکل ایک سال برداشت کیا اور پھر جمہوری صدر کے اپنے مقرر کردہ آرمی چیف عبدالفتاح السیسی کے ذریعے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور صدر، وزرا اور ارکانِ اسمبلی کو حوالۂ زنداں کردیا گیا۔ یوں ایک بار پھر مصر کو آمریت کی سیاہ رات کے حوالے کردیا گیا۔
اب رہ گئی تھی تیونس کی منتخب جمہوری حکومت۔ 2014ء میں تیونس میں پہلے آزادانہ جمہوری انتخابات ہوئے تو جمہوریت پسند اسلامی جماعت النہضہ کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اسلامی پارٹی دوسری کئی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر یہاں مخلوط حکومتیں بناتی چلی آرہی ہے۔ اکتوبر 2019ء میں پروفیسر قیس سعید تیونس کے صدر منتخب ہوئے تو جمہوریت پسندوں کے ساتھ ساتھ میں بھی خوش تھاکہ تیونس کو ایک ماہر قانون جمہوری صدر نصیب ہوا ہے۔ وہ ریٹائرڈ پروفیسر آف دستوری قانون ہیں اور تقریباً دو دہائیوں تک تیونس کی دستوری قانون کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ دیکھئے غلامی ہی نہیں اقتدار میں بھی آکر افراد کا ضمیر بدل جاتا ہے۔ اسی ماہر قانون اور محافظ قانون صدر نے اس سال جولائی میں پارلیمنٹ کو معطل کر دیا، منتخب جمہوری وزیراعظم کو فارغ کر دیا اور جملہ انتظامی اختیارات اپنی تحویل میں لے کر مختارِ کل بن گیا۔
پروفیسر قیس نے اپنی آمریت قائم کرنے کیلئے کوئی دانشورانہ یا ''پروفیسرانہ‘‘ دلیل نہیں دی۔ انہوں نے بھی وہی دلیل دی جو ایسے مواقع پر فوجی و سول آمر دیا کرتے ہیں۔ صدر نے کہا کہ ملک کا سیاسی نظام مفلوج ہو چکا ہے، معیشت کا پہیہ جام ہو رہا ہے اور کورونا سے نمٹنے کیلئے جمہوری حکومت نے مؤثر اقدامات نہیں کیے۔ کورونا بھی ایک ایسا ''کھلونا‘‘ لوگوں کے ہاتھ میں آیا ہے کہ اسے جہاں چاہتے ہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر لیتے ہیں۔ النہضہ سمیت دیگر چار پانچ بڑی جماعتوں نے مل کر صدر کے غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدامات کو اقتدار پر شب خون مارنے اور دستور سے بغاوت کرنے کے مترادف قرار دیا۔ اتوار کے روز ہزاروں لوگ صدر کے خلاف تیونس میں اکٹھے ہوئے (دارالحکومت کا نام بھی تیونس ہے)۔ انہوں نے پروفیسر قیس سے مطالبہ کیا کہ وہ بحیثیت صدر اپنا استحقاق کھو چکے ہیں لہٰذا وہ فی الفور ایوانِ صدر چھوڑ دیں۔ دوسری طرف صدر قیس نے کہا کہ میں ایک کمیٹی بنا رہا ہوں جو 2014ء کے آئین کا ازسرنو جائزہ لے گی اور اس میں ایسی ترامیم لائے گی جس کے بعد ''یہ دستور خالص جمہوریت لائے گا جس میں عوام حقیقی طور پر خودمختار ہوں گے‘‘۔ صدر قیس کے یہ ارادے تیونسی عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ ادھر مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے صدر قیس کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جن علاقائی و عالمی قوتوں نے مصرکے منتخب صدر کو ''بزورِ شمشیر‘‘ اپنے عہدے سے ہٹا دیا تھا وہی قوتیں تیونس میں عرب دنیا کے آخری جمہوری چراغ کو بھی گل کرنے پر کمربستہ ہیں۔ ان قوتوں کیلئے جمہوری حکومت ہی نہیں ایک جمہوری دستور بھی ناقابل برداشت ہے۔ امریکہ کا کیا گلہ کرنا، اس کی ایک وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے قاہرہ میں کھڑے ہوکر اعلان کیا تھاکہ جمہوریت اور آزادانہ انتخاب ہر مصری کا حق ہے‘ مگر جب وقت آیا تو امریکہ آمر کی پشت پر کھڑا تھا۔ جمہوریت کے اس چیمپئن نے محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خاتمے پر رسمی سا احتجاج بھی نہیں کیا تھا۔
ایک طرف سیاسی پارٹیاں اور جمہوری قوتیں تیونس میں شہر شہر احتجاج کررہی ہیں دوسری طرف صدر قیس نے غیرمنتخب جیالوجسٹ پروفیسر نجلہ کو تیونس کا ٹیکنوکریٹ وزیراعظم نامزد کردیا ہے۔ اس آمرانہ اقدام کو تیونس کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا۔ تاہم لگتا یہ ہے کہ علاقے کی قوتیں بہارِ عرب کا سندیسہ دینے والے تیونس کو خزاں رسیدہ کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ رہی جمہوریت؟ 'تو یہ نہ تھی ''عربوں‘‘ کی قسمت‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں