رحمت للعالمین ﷺکا سفر طائف

رسولِ رحمت ﷺنے جب آغازِ نبوت میں لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا اور انہیں امن و سلامتی کا راستہ دکھلایا تو کوئی اُن کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ اللہ کے رسول کو مسلسل 23 برس تک مشکلات و مصائب کے دریائوں کو عبور کرنا پڑا اور پے در پے جنگیں لڑنا پڑیں۔ آپ کی حیاتِ طیبہ ایک جانکاہ جہد مسلسل کی بے مثال حقیقی داستان ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک روز رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ آپ پر کوئی دن ایسا بھی آیا ہے جو اُحد کے دن سے زیادہ سنگین رہا ہو؟ آپؐ نے فرمایا ''ہاں! تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا...‘‘۔
مکۃ المکرمہ سے طائف صرف 100 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ آپﷺ نے یہ سفر پیدل طے فرمایا۔ آپ کے ساتھ آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ تھے۔ راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا انہیں رسولِ خدا اسلام کی دعوت دیتے تھے مگر کوئی مسلمان نہ ہوا۔ جب آپ طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے ہاں تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے۔ ان کے نام تھے عَبْدِیالیل‘ مسعود اور حبیب۔ آپ اُن کے پاس بیٹھے اور انہیں اللہ کی وحدانیت‘ اس کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔ تینوں نے دل میں چھید کر دینے اور روح کو تڑپا دینے والے جواب دیے۔
ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو۔ دوسرے نے کہا کہ اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا۔ تیسرے نے کہا میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا، اگر تم واقعی اللہ کے پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہئے۔ یہ سن کر آپ وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جنابِ مصطفی ﷺ نے طائف میں دس روز قیام فرمایا۔ اس دوران آپﷺ نے ایک ایک کو کلامِ خدا سنایا اور اللہ کی اطاعت کی دعوت دی لیکن ان سنگ دل انسانوں کا ایک ہی جواب تھا کہ تم ہمارے شہر سے نکل جائو۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اپنے اوباشوں کو شہ دے دی؛ چنانچہ آپ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں بکتے‘ تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپ کے پیچھے لگ گئے۔ انہوں نے گالیوں اور بدزبانیوں کے ساتھ ساتھ سنگ باری بھی کی جس سے آپ کی ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تربتر ہوگئے۔
لاعلم اوباشوں نے پتھر پھینکنے کا یہ سلسلہ جاری رکھا حتیٰ کہ آپ مکۃ المکرمہ سے تعلق رکھنے والے عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ ذرا چشم تصور سے سوچیے کہ یہ سلوک دنیا وی شان و شوکت والے خانوادئہ بنو ہاشم کے اس چشم و چراغ سے ہورہا تھا کہ جس کے مرحوم دادا عبدالمطلب عربوں کے سردار تھے۔ اگر رسولِ خدا بددعا کر دیتے تو خالق ِارض و سما طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اہلِ طائف کو آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیتا۔
انگوروں کے اس باغ میں ایک عیسائی غلام عدّاس نے جنابِ مصطفیﷺ کو انگور کا ایک گچھا پیش کیا۔ آپ بسم اللہ پڑھ کر انگور کھانے لگے۔ جب آپ قرنِ منازل پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا۔ ملک الجبال نے آنجناب ﷺ کو آواز دی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں۔ آپﷺ نے فرمایا ''نہیں ایسا مت کرنا۔ مجھے امید ہے کہ اللہ عزّوجل اُن کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھیرائے گی‘‘۔ خالقِ دو جہاں نے اس دعا کو شرفِ قبولیت بخشا۔
اللہ نے اس فقیر کو طائف میں دو دہائیوں سے اوپر مقیم ہونے کی سعادت بخشی۔ طائف سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار فٹ بلند ہے۔ گرمیوں میں یہاں گرمی نہیں ہوتی‘ موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ سردیوں میں شدید سردی نہیں ہوتی اور نہ ہی معمولاتِ زندگی منجمد کرنے والی برفباری ہوتی ہے۔ گویا سارا سال موسم معتدل رہتا ہے۔ طائف کے خوش ذائقہ انگوروں اور بغیر بیج کے میٹھے اناروں کا ساری دنیا میں کوئی متبادل نہیں۔ آج کا جدید خوبصورت طائف رحمۃ للعالمینﷺ کی دعا کا ثمر ہے۔ انکار کرنے والے ثقفی سرداروں کی اولاد آج اپنے نبی سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتی ہے۔
آج جبکہ ہم عشرئہ رحمۃ للعالمین اور جشن ولادتِ رسولﷺ منا رہے ہیں‘ اس موقع پر میں نے طائف کے واقعے کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے تاکہ ہمیں احساس ہو سکے کہ جنابِ مصطفی ﷺ کی ساری زندگی مشکلات و مصائب میں گزری جس کا نقطۂ عروج سفرِ طائف تھا۔ نبوت کے بعد قریش کے بائیکاٹ کے نتیجے میں آپﷺ کو اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں تین برس محصور رہنا پڑا۔ اس سے اگلے سال حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہو گیا جو ایک طرح سے دنیاوی سہاروں کا اختتام تھا۔ اس کے دو برس بعد آپﷺ کو میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ یثرب کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔
ہجرت کے صرف دو برس بعد ہی جنگ بدر کی مہم پیش آگئی۔ اس کے ایک برس بعد حضورﷺ کو غزوئہ اُحد کے اذیت ناک لمحات سے گزرنا پڑا۔ اُحد میں آپ کے عزیز ترین اور انتہائی بہادر چچا حضرت حمزہ ؓکو چالبازی سے شہید کردیا گیا۔ اس موقع پر جناب مصطفی ﷺ پر بھی تیروں کی بارش کردی گئی مگر جانثار صحابہ آپﷺ کے لیے ڈھال بن گئے۔ اُحد کے بعد غزوئہ خندق اور حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا جس میں قریش نے مدینہ سے آئے ہوئے 1400 مسلمانوں کو عمرے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے حدودِ حرم میں خونریزی سے بچنے کے لیے کفارِ مکہ کے پیش کردہ صلح نامے کو قبول کر لیا اور اُس پر دستخط کر دیے۔ اگرچہ مسلمان اس پر بہت دل گرفتہ تھے مگر بعد میں یہ صلح مسلمانوں کے لیے فتح مبین ثابت ہوئی۔
سفر طائف سے لے کر فتح مکہ تک رسول خداﷺ کی پرصعوبت طویل جدوجہد کا نتیجہ یومِ شوکتِ اسلام یعنی فتح مکہ کی صورت میں ایک عظیم خوشخبری بن کر مسلمانوں کے سامنے آیا۔ یوں تو رسول ﷺ کی ساری حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے اسوئہ حسنہ ہے؛ تاہم واقعۂ طائف سے لے کر فتح مکہ تک ہمیں سیکھنے کے لیے دو اہم سبق ملتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ محمد مصطفی ﷺ نے اللہ کے سپرد کردہ مشن کی تکمیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم وستم ڈھانے اور گھٹیا ترین بازاری زبان استعمال کرنے والوں کو بھی معاف کردیا۔
اس سال جشن ولادتِ رسول کے موقع پر ہمارے حکام اور شہریوں کو اپنے آپ سے اور اپنے خالق سے یہ وعدہ کرنا چاہئے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے فرائض نہایت دیانت و امانت سے ادا کریں گے نیز عفوودرگزر کو اپنا شعار بنا کر اللہ اور اس کے رسول سے اپنی سچی محبت کا ثبوت دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں