جنگلوں کو کاٹ کر کیسا غضب ہم نے کیا

سائنسدان اور سیاستدان گزشتہ چند دہائیوں سے جنگلوں کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہوئے ہیں اور دنیا کو یہ آگہی منتقل کر رہے ہیں مگر شعرائے کرام تو دنیا کی ہر زبان میں صدیوں سے جنگلوں کے گن گاتے چلے آ رہے ہیں۔ اردو نظم کے شہرہ آفاق شاعر جناب مجید امجد نے در مدح اشجار ان گنت اشعار کہے ہیں۔ دیکھئے مجید امجد صاحب نے کتنا ڈوب کر یہ شعر کہا ہے:
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
انگریزی کے ایک ادیب نے درختوں کے بارے میں نہایت جذب و سوز سے ایک مختصر جملہ لکھا ہے۔ میں نے اس جملے کا اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی مگر بات نہیں بنی لہٰذا میں نے سوچا کہ اپنے قارئین کو اس جملے کے حسن سے محروم کیوں رکھا جائے۔ رائٹر نے لکھا ہے:
To cut a tree is to kill a tree
درختوں کے قتل پر پروین شاکر کا نوحہ بھی ملاحظہ کیجئے:
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
جنگلوں کو ہمارے سیارے کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے۔ جنگل ہمارے لیے آکسیجن بناتے ہیں۔ وہ نمی جذب کر کے بخارات کی صورت میں فضا میں بکھیرتے ہیں‘ پھر انہی آبی بخارات سے بادل وجود میں آتے ہیں اور بارشیں ہوتی ہیں۔ ان بارشوں سے صرف کھیتیاں ہی نہیں لہلہاتیں بلکہ رگِ حیات میں زندگی بھی دوڑتی ہے۔ جنگل جتنے کم ہوتے جائیں گے اتنی ہی گلوبل وارمنگ بڑھتی جائے گی۔ ہنستی مسکراتی زندگی اور معاشی خوش حالی کے لیے جنگلوں کی کثرت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
منگل کے روز سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت گلاسگو میں عالمی سربراہی کانفرنس میں تحفظ جنگلات کے لیے نہایت اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ ان فیصلوں کے مطابق 2030ء تک دنیا میں جنگلوں کی کٹائی اور تباہی کا سلسلہ روک دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومتوں اور نجی اداروں کی فنڈنگ سے 20 بلین ڈالرز کی خطیر رقم صرف کی جائے گی۔ 90 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ برازیل اور روس سے بطورِ خاص درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جنگلات کا تحفظ کریں اور درختوں کی بے تحاشا کٹائی کا سد باب کریں۔ دستخط کرنے والوں میں برازیل، روس، امریکہ، چین، آسٹریلیا اور فرانس بھی شامل ہیں۔ دنیا کے سو قائدین نے اس معاہدے کو بخوشی قبول کر لیا ہے۔ ان ممالک میں دنیا کے 85 فی صد جنگلوں کا رقبہ پایا جاتا ہے۔ ان جنگلات کا بڑا حصہ ایمازون، شمالی کینیڈا اور کانگو کے برساتی جنگلوں پر مشتمل ہے۔
برطانوی وزیر اعظم نے سربراہی کانفرنس کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا کہ جنگلات کے تحفظ سے نہ صرف ماحولیاتی نقصانات پر قابو پا لیا جائے گا بلکہ دنیا کی معیشتوں میں زیادہ خوش حالی آئے گی اس لیے جنگلات کا تحفظ ہم سب کے لیے نہایت اہم ہے۔ دنیا میں جنگلوں کا سب سے بڑا سلسلہ ایمازون کا برساتی جنگل ہے۔ برازیل کے شمال مغرب میں پایا جانے والا یہ جنگل کولمبیا، پیرو اور اس کے علاوہ جنوبی امریکہ کے دیگر سات ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ اس جنگل کا رقبہ 55 لاکھ مربع کلومیٹر ہے جبکہ پاکستان کا کل رقبہ تقریباً 8 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔
ایمازون جنگلات کا درختوں کی کٹائی اور آگ لگنے سے رقبہ کم ہو رہا ہے۔ تحفظ جنگلات کا شعور رکھنے والی تنظیمیں دنیا بھر کی حکومتوں کو مسلسل باور کروا رہی ہیں کہ روئے ارض پر جنگلوں کا رقبہ بڑھنے کے بجائے تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ ساری دنیا میں زندہ انواعِ حیات کا تقریباً نصف ایمازون جنگلات میں پایا جاتا ہے۔
اب ذرا آئیے وطن عزیز کی طرف جہاں ہم زبانی کلامی ایک بلین نہیں کئی بلین درخت لگا چکے ہیں۔ جنگلات کے اعتبار سے دنیا بھر میں ہمارا نمبر 173واں ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے 30 برس میں پاکستان کے جنگلوں میں 76 فی صد کمی ہوئی ہے۔ ماہرین ماحولیات و ارضیات کے مطابق ہر ملک کے اندر 25 فی صد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں یہ رقبہ اب صرف 4 فی صد رہ گیا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے ہمالیائی پہاڑی علاقوں پر صنوبر، دیودار، پائن اور شاہ بلوط کے درخت پائے جاتے ہیں۔ ان درختوں سے سارا علاقہ ہی مہک اٹھتا ہے۔ گلگت بلتستان میں یہ درخت کثرت میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں کے باسیوں کے لیے حکومت کی طرف سے بجلی، گیس اور پانی وغیرہ کی سہولیات مہیا نہیں کی گئیں نہ ہی کوئی سلسلۂ روزگار ہے۔
نسبتاً دیہی علاقوں کی اکثریت ان درختوں کو ہی کاٹ کر اُن سے ایندھن کا کام لیتی ہے۔ لکڑی کو تعمیراتی کاموں کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے اور پاکستان کے دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے تاجروں کو یہ قیمتی لکڑی اونے پونے بیچ دی جاتی ہے۔ گرمیوں میں ہمارا ملکہ کوہسار مری اور آگے ایوبیہ وغیرہ کی طرف آنا جانا رہتا ہے۔ اس ''ملکہ‘‘ کے حسن کو چار چاند لگانے والے اشجار اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی حال ایوبیہ، خانس پور، نتھیا گلی اور دیگر گلیات کا ہے۔ برفباری کے دنوں میں جو لوگ یہاں ہوتے ہیں اور نیچے راولپنڈی، اسلام آباد جانے کی استعداد نہیں رکھتے وہ انہی درختوں کو کاٹ کر ایندھن اور آتش دان کا کام لیتے ہیں۔ اگرچہ درختوں کی کٹائی کے بارے میں خاصے سخت قسم کے قوانین موجود ہیں مگر اُن پر خاطر خواہ طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ روزگار کے متبادل ذرائع موجود ہوں گے تو پھر مرتا کیا نہ کرتا کا یہ سلسلہ بند ہو جائے گا۔
یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو درختوں اور جنگلوں کی اہمیت کا ادراک ہے مگر محض چند نمائشی تقریبات و اعلانات سے بلین ٹری وجود میں نہیں آ جاتے۔ اس کے لیے ایک جامع پالیسی ہونی چاہئے۔ ایوبیہ، نتھیا گلی اور دیگر گلیات کے درمیان جنگل کے بیچوں بیچ خوبصورت ٹریل بنی ہوئی تھیں مگر ان راستوں پر کچرا پھینک دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے شہریوں کی رہائش کے لیے ہائوسنگ سکیموں کی ضرورت ہے مگر اس کے لیے بھی مناسب منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔
رہائشی کالونیوں پر پابندی ہونی چاہئے کہ وہ زرعی زمینوں اور درختوں کو ہڑپ نہ کرتی جائیں۔ اس کے لیے کئی کئی منزلہ عمارتوں اور فلیٹوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ دیکھئے فرحت احساس نے کس شدتِ احساس سے ہمارے درِ دل پر دستک دی ہے:
جنگلوں کو کاٹ کر کیسا غضب ہم نے کیا
شہر جیسا ایک آدم خور پیدا کر لیا
ہمیں اس شعر کو صدقِ دل سے ایک ماٹو بنا لینا چاہئے کہ:
تم لگاتے چلو اشجار جدھر سے گزرو
اس کے سائے میں جو بیٹھے گا دعا ہی دے گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں