آقا صلی اللہ علیہ وسلم

سیدہ خدیجہؓ کے آرام دہ، نفیس، پکے دومنزلہ گھر میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیاوی آسائشیں مہیا تھیں۔ ان کا یہ نیا گھر سردار ابوطالب کے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ خانۂ خدا بھی دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔ گھر میں خدمات کے لیے غلام تھے، سواری کے لیے اونٹ تھے، دودھ کے لیے اونٹنیاں اور بھیڑ بکریاں تھیں۔
سیدہ نے ایک مہذب اور پڑھا لکھا غلام‘ جس کی عمر پندرہ سولہ سال تھی، حضور کی خدمت کے لیے پیش کر دیا۔ لڑکے کا نام زید بن حارثہ تھا۔ وہ ایک معزز اور متمول گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہتے رہتے زید کو دھیرے دھیرے غلامی اچھی لگنے لگی۔ یہ کیسے آقا ہیں جو کبھی ڈراتے ہی نہیں، ایک ہلکی سی دلربا مسکراہٹ ہر وقت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پہ رہتی تھی۔ ایک حج کے موقع پر اسے اچانک اپنے قبیلے کے کچھ لوگ نظر آ گئے۔ زید نے اپنی ایک نظم قبیلے کے لوگوں کو دی اور کہا کہ یہ میرے والدین کو پہنچا دیجئے۔ زید کی والدہ اور والد اس کی گمشدگی اور غلام بنائے جانے پر بہت آزردہ خاطر تھے۔ زید بن حارثہ کی نظم ملاحظہ کیجئے:
''میرا پیغامِ محبت لے جائو
میرے اپنوں کے پاس
جو میرے دل میں رہتے ہیں
میں رہتا ہوں اُس شہر میں
جو عرب کے سب ریگزاروں سے مقدس شہر ہے
دُکھی نہ ہوں
افسردہ بھی نہیں ہونا
میری تلاش میں اب اونٹوں کو دوڑا کے نہ تھکانا
میں کہنے کو غلام ہوں
مگر میرا آقا صلی اللہ علیہ وسلم
عرب کے تمام شریف زادوں میں سب سے بہترین ہے
خاندانوں کی لڑیوں میں الامین ہے‘‘
سالہا سال کی تلاش اور چار ہفتوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد زید کے والد حارثہ کو منزل ملی تھی۔ وہ اپنے بھائی کے ہمراہ مکہ پہنچا اور آقا کے دروازے پر دستک دی تو دروازہ کھولنے والا زید ہی ہوتا ہے۔ زید اپنے باپ اور چچا سے لپٹ جاتا ہے۔ تینوں کی آنکھیں شدتِ جذبات سے اُبل پڑتی ہیں۔ آقا مہمانوں کو شفقت کے ساتھ اندر بلا لیتے ہیں۔ میٹھے مشروب سے اُن کی تواضع فرماتے ہیں۔
تھوڑی سی تمہید کے بعد زید کا باپ یہ عرض کردیتا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بیٹے کی رہائی کے لیے جو بھی تاوان مانگیں گے وہ دینے کو تیار ہے۔ آقا دلجمعی سے مسکرا کر فرماتے ہیں کہ ''زید کو انتخاب کر لینے دو۔ اگر وہ آپ کے ساتھ جانا چاہے، آپ کے ساتھ چلا جائے بغیر کسی تاوان کے کوئی پیسہ نہیں لوں گا...‘‘ زید نے یہ سنا تو وہ آقا کے گھٹنے پکڑ کر، اُن پر ماتھا رکھ کر بادیدہ تر بلبلا کے کہتا ہے ''آقا صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کے پاس رہنا ہے، میں نے کہیں نہیں جانا۔ آقا مجھے دور نہ کیجئے گا‘‘۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کا بازو پکڑ کر سینے سے لگایا۔ اُسے اپنی بغل میں لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور زید کے والد اور چچا کو محبت سے بولے ''باقی باتیں خدا کے گھر کو گواہ بنا کر کعبے کی چوکھٹ پر کریں گے‘‘۔ آپ زید کا ہاتھ پکڑے کعبے کے پاس آئے، حجر اسود کو چوما اور پھر حطیم میں کھڑے ہو کر، صحن کعبہ میں موجود لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بہ آواز بلند بولے:
''لوگو! غور سے میری بات سنو!
میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم خدا کے گھر کو اور آپ سب کو گواہ بنا کے کہتا ہوں میں نے زید کو آزاد کیا۔ زید کو اپنا ولی بنایا، یہ میرا بیٹا ہے، میں اس کا وارث ہوں، یہ میرا وارث ہے‘‘۔ زید آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ کے زاروقطار رونے لگتا ہے۔ زید کے والد اور چچا کچھ دن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان رہنے کے بعد دلجمعی سے خوشی خوشی اپنے گھر پلٹ جاتے ہیں۔
درج بالا سطور میں نے ڈاکٹر ابدال بیلا کی کچھ ہی عرصہ قبل منظرعام پر آنے والی سیرت کی انتہائی دلکش کتاب ''آقا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے ایک باب سے نقل کرکے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ یہ کتاب تقریباً ساڑھے گیارہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ فاضل مصنف نے عقیدت و محبت کے یہ گراں قدر موتی تاریخ و تحقیق کے ترازو میں تول کر پروئے ہیں۔
''اصولِ سیرت نگاری‘‘ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی نے پچیس اصول بیان کیے ہیں جن میں قرآن و حدیث سے گہری واقفیت اور عربی ادب سے شناسائی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
سید سلمان ندویؒؒ نے فرمایا تھا کہ اگر سیرت نگاری محض تاریخ نویسی بن کر رہ جائے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے چوبِ خشک کا ڈھانچہ جس میں زندگی کی کوئی حرارت اور نمی موجود نہیں ہوتی۔ انہوں نے بھی ایک سیرت نگار کے لیے سیرت کے بنیادی مصادر اور جدید و قدیم کتب کے مطالعے پر زور دیا ہے۔
کتاب کی تیاری کے لیے مصنف کی لگن، تڑپ اور محنت کی جھلک بیلا صاحب کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:
''چودہ سال جس کام کی تکمیل میں دو سو کے لگ بھگ کتابیں پڑھیں، نوٹس بنائے، تحقیق، جستجو اور محبت پالی، سال بہ سال سعودی عرب کے ریگزاروں میں گزارے اُسے اللہ نے 17 رمضان کو افطاری کے وقت مکمل کرا دیا۔ یہ کتاب ایک غلام کی اپنے اور پوری کائنات کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ہدیۂ تبریک ہے‘‘۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر بیلا کے قلم سے تیس خوبصورت کتابیں منظر عام پر آئیں مگر اُن کی یہ عظیم تصنیف ''آقا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اُن تیس کتابوں پر بھاری ہے۔ بیلا صاحب نے اس کتاب میں لفظوں کی حرمت اور دلکشی کا بہت خیال رکھا ہے تاہم ہماری ناقص رائے کے مطابق کہیں کہیں اُن کے عرفان سے قدرے بھول بھی ہوئی ہے۔ بس ایک مثال کا ذکر کروں گا۔ کتاب کے صفحہ نمبر37 پر مصنف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''وہ دیکھیں سامنے تمہارے خدائوں کی منڈلی میں سب سے بڑا بت سالم کھڑا ہے اور کلہاڑا اُسی کے کندھے پر جھول رہا ہے‘‘۔
بیلا صاحب نے خود تراشیدہ خدائوں کے لیے ''منڈلی‘‘ کا نہایت موزوں لفظ استعمال کیا ہے مگر پھر انہوں نے صفحہ نمبر40 پر یہی لفظ ایک اور ماحول کو اجاگر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے جو ذوق پر قدرے گراں گزرتا ہے۔
کتاب ''آقا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ایک مقدس مقناطیس ہے جو قاری کو اپنے سحر کا گرویدہ بنا لیتی ہے اور وہ دورانِ مطالعہ خیرالقرون میں پہنچ جاتا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پیش لفظ میں آپ فاضل مصنف کی قلمی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اُن کی گہری روحانیت بھی آپ پر آشکارا ہو جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں