میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہئے غیر سے تہی

ارادہ تو ایک اور موضوع پر لکھنے کا ہے مگر علی الصبح اخبار میں ایک سرخی پڑھ کر طبیعت میں ایک عجب سی ترنگ پیدا ہوگئی۔ اس ''ترنگ‘‘ کو اپنے تک محدود رکھنا اور قارئین کو اس میں شامل نہ کرنا بخیلی کے زمرے میں آئے گا۔ بخل مالی ہو یا علمی یا ادبی یہ ہمیں پسند نہیں۔ بدھ کے روز اخبارات کے صفحہ اوّل پر ایک سرخی تھی: قومی بھنگ پالیسی تیار
قارئین کرام! بھنگ کا پودا آزاد منش، کم بلندی پر واقع سرد علاقوں میں کھیتوں کے کناروں پر خود بخود لہلہانے لگتا ہے اور ''ضرورت مند‘‘ اس سے حسب ظرف استفادہ کرتے ہیں۔ عموماً ہمارے ہاں پنجاب میں ملنگ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اور پھر سرمستی میں کچھ گنگنانے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ ''ساوا مشروب‘‘ پی کر آسمانوں میں اُڑنے لگتے ہیں۔ پنجاب میں پوٹھوہار اور وادیٔ سون سکیسر جیسے علاقوں میں بھنگ خوب اُگتی ہے۔ سنا ہے اب اس کی باقاعدہ کاشت سے بہت سا زرمبادلہ ہمارے ہاتھ آئے گا۔
جناب عبدالقادر حسن مرحوم تقریباً ساٹھ ستر برس تک بڑے بڑے قومی اخبارات میں کالم لکھتے اور قارئین سے داد وصول کرتے رہے۔ 30 نومبر 2020ء کو وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ رخصت ہوتے ہوتے بھی وہ اردو داں باذوق قارئین کو کچھ یادگار کالم دے گئے ہیں۔ 5 ستمبر 2020ء ''بھنگ وغیرہ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھتے ہیں ''شاعر‘ جس کی زبان فارسی تھی‘ کسی ملنگ کے ہتھے چڑھ گیا جس نے شاعر کو ایک پیالہ بھنگ کا پلا دیا۔ اس کے بعد شاعر پر ایسے طبق روشن ہوئے کہ بیساختہ اس کی زبان سے یہ شعر نکلا:
بنگے زدیم و غلغلہ بر آسماں زنیم
ما را ازیں گیاہ ضعیف ایں گماں نہ بود
بھنگ چڑھائی اور پھر غلغلہ بلند کیا یہاں تک کہ آسمان تک کو ہلا دیا۔ مجھے گھاس کے ان کمزور پتوں سے یہ امید ہرگز نہ تھی...‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ''وفاقی وزیر اور میرے بھتیجے فواد چودھری نے پوٹھوہار کے علاقہ کو بھنگ کی کاشت کا بہترین علاقہ قرار دیا ہے۔ ہم وادیٔ سون سکیسر والے پوٹھوہار کے ہمسائے ہیں اور بھنگ کی کاشت کے لیے ہماری زمینیں بھی زرخیز ہیں‘‘۔ پی ٹی آئی نے اپنے انتخابی منشور میں زراعت کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی معیار پر لے جانے کی نوید سنائی تھی مگر دوسرے بہت سے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔ بقول شبلی فراز یہ پالیسی طبی اور صنعتی کھپت کے لیے بنائی گئی ہے۔
آج کل انکشافات کا موسم ہے۔ بعض ریٹائرڈ جج بطورِ خاص کچھ اندر کی خبریں باہر لا رہے ہیں۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد ایک انتہائی سنجیدہ وضع قطع کے آدمی ہیں۔ اُن کا سابقہ ریکارڈ یہی ہے کہ وہ پہلے سوچتے، پھر تولتے اور پھر بولتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز ایک بیان میں جناب عمران خان کی ایمانداری پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جس شخص کے گھر کا خرچ کوئی دوسرا چلاتا ہو وہ شخص دیانتدار کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس صاحب کے بقول بنی گالہ کا خرچ پہلے 30 لاکھ ماہوار تھا اور پھر یہ خرچ بڑھا کر 50 لاکھ ماہانہ کر دیا گیا۔ اس خرچ کا بار جہانگیر ترین اور علیم خان اٹھاتے تھے۔ جہانگیر ترین نے اس کی تردید کی ہے۔
جسٹس وجیہ الدین پی ٹی آئی کے بانیوں میں سے تھے اور کبھی یہ منصف تحریک انصاف کے ماتھے کا جھومر سمجھا جاتا تھا اور جناب عمران خان ایسی نظریاتی شخصیات کی پذیرائی کیا کرتے تھے جبکہ جناب فواد چودھری کہیں بعد میں ''نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت پارٹی میں شامل ہوئے۔ خدا کی شان دیکھئے کہ آج وہی فواد چودھری اپنی پارٹی کے اس فائونڈنگ فادر کو مسخرہ اور جوکر قرار دے رہے ہیں۔ بقول محسن بھوپالی:
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
2013ء کے پارٹی الیکشن کے لیے جناب عمران خان نے جسٹس صاحب کو الیکشن ٹربیونل کا چیف مقرر کیا تھا۔ جسٹس صاحب نے پارٹی الیکشن میں اثر انداز ہونے والے تین حضرات جہانگیر ترین، پرویز خٹک اور علیم خان کے خلاف ثبوت ملنے پر اُن کے پارٹی سے اخراج کی سفارش کی۔ مثالیت پسند جسٹس وجیہ الدین یہ سمجھتے تھے کہ جناب عمران خان بھی اُن کی طرح آئیڈیلسٹ ہیں، وہ اس فیصلے کو بہت سراہیں گے مگر تب تک خان صاحب ''عملی سیاست‘‘ کی ضرورتوں سے بخوبی آگاہ ہو چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے مبینہ طور پر جسٹس صاحب کو ''ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا اشارہ دیا۔ جب وہ نہیں مانے تو خان صاحب نے خود منصف کی ہی پارٹی رکنیت معطل کر دی۔ یوں سمجھئے کہ جسٹس وجیہ الدین کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو جناب اسداللہ غالب کے ساتھ ہوا تھا۔ بقول غالب:
میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
جناب عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کے روزِ اوّل سے سیاسی حربوں اور ہتھکنڈوں سے خود کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا کہ جو سیاست دانوں کی مروجہ وارداتوں اور گھاتوں سے بہت ماورا تھی‘ مگر جب انہوں نے حصولِ اقتدار کے لیے وہ سارے حربے استعمال کرنا شروع کیے جو دوسری سیاسی پارٹیاں کرتی تھیں تو اُن کے نظریاتی قائدین اور کارکنان کو بے حد مایوسی ہوئی۔ جناب عمران خان ریاستی اداروں کی طرف سے سیاست دانوں کی سرپرستی کو ہمیشہ نشانۂ تنقید بناتے رہے مگر جب وہ خود کوچۂ اقتدار میں آنے کو بیقرار تھے تو انہوں نے نہ صرف یہ سرپرستی اختیار کی بلکہ اُن کی قربت کو باعثِ فخر جانا۔
جناب عمران خان کے بعض دانشور ترجمان میڈیا پر یہ کہتے سنے گئے کہ ان کے جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے دوست اُن کے ساتھ ''حق دوستی‘‘ نبھا رہے تھے۔ پارٹی منصب ہو یا حکومتی منصب، کسی صاحبِ منصب سے اتنا بھاری تعاون ہمیشہ وسیع تر مقاصد کی خاطر کیا جاتا ہے۔ لوگ اس بات پر بھی بہت حیران ہیں کہ وزیراعظم کی حیثیت سے جناب عمران خان نے اب تک اُن تحائف کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں دیا جو اُنہیں بیرونی دوروں سے وصول ہوئے تھے۔
خان صاحب جس ریاست مدینہ کا اکثر پرچار کرتے ہیں اُس کے والی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ایک صحابی نے بتایا کہ زکوٰۃ کا یہ مال بیت المال کے لیے ہے اور یہ تحائف میرے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنے باپ کے گھر میں بیٹھ جائو تو کیا تمہیں اسی طرح تحائف ملتے رہیں گے۔ مقصود یہ تھا کہ تحائف انسان کو نہیں منصب کو ملتے ہیں۔
جناب عمران خان ریاست مدینہ کے ساتھ ساتھ مغربی جمہوریت، مغربی عدل و انصاف، وہاں کی دیانت و امانت اور مغرب کے حکمرانوں کی سادہ زندگی کے گن گاتے رہتے ہیں۔ وہاں کوئی حاکم اپنی انفرادی حیثیت میں کوئی چھوٹا بڑا تحفہ قبول نہیں کرتا اور زندگی نہایت سادگی سے گزارتا ہے۔
جناب وزیراعظم اور اُن کی قانونی ٹیم پی ٹی آئی کے ایک اور بانی رکن کے دائر کردہ فارن فنڈنگ کیس کا جواب الیکشن کمشن میں جمع کروا چکے ہیں جو ابھی تک منظرعام پر نہیں آیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اپنی پارٹی کے بانی رکن جسٹس وجیہ الدین احمد کے لگائے گئے الزامات کا کیا جواب دیتے ہیں۔ اس طرح کے سوالات اور جوابات ہی جمہوریت اور اسلامی طرزِ حکومت کی شان ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں