مصری جیلیں اور پاکستانی جمہوریت

''مجھے 5 جولائی 2019ء کو رات گئے قاہرہ میں میرے گھر سے زبردستی گرفتار کر لیا گیا۔ میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور میرے دونوں ہاتھوں کو ہتھکڑی لگا کر مجھے قاہرہ کی ایک غیرمعروف جیل میں ڈال دیا گیا اور تقریباً اڑھائی برس تک مجھے یہ بھی نہ بتایا گیا کہ میرا جرم کیا ہے۔ 23 مربع فٹ کے جس کمرے میں لاکر مجھے پھینکا گیا اس میں پہلے ہی درجنوں قیدی موجود تھے جو بمشکل اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے میں ہر طرف تعفن اور کیڑے مکوڑے پھیلے ہوئے تھے۔ مجھے بھی ان جان لیوا مراحل سے گزرنا پڑا‘‘۔
درج بالا جملے اس انٹرویو کا حصہ ہیں جو چند روز پہلے رامی شعث نے سی این این کو دیا۔ اس انٹرویو نے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ رامی شعث فلسطینی اوریجن کا مصری ہے۔ وہ مصر میں برسوں سے بنیادی انسانی حقوق‘ سماجی انصاف‘ آزادیٔ تحریر و تقریر اور ایک آزادو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کررہا تھا۔ وہ سیکولر خیالات رکھتا ہے اور اخوان المسلمون سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
جس رات اسے قاہرہ سے گرفتار کیا گیا اسی رات زبردستی اس کی فرانسیسی بیگم سیلین لیبرن کو پیرس روانہ کر دیا گیا۔ اکیاون سالہ رامی شعث سے چند ہی روز پہلے فرانس میں سی این این کے اینکر نے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ اڑھائی برس کے بعد آپ کی رہائی کیسے ممکن ہوئی۔ جیل میں آپ پر کیا گزری۔ کیا یہ رہائی آپ کی فرانسیسی بیوی سیلین کی چلائی ہوئی مہم کا نتیجہ ہے؟
رامی شعث نے سی این این کو بتایا کہ اڑھائی برس کے دوران مجھ سے صرف 45 منٹ تفتیش کی گئی اور اس میں بھی مجھے بس اتنا بتایا گیا کہ تمہارا ایک دہشت گرد جماعت سے تعلق ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس جماعت کا کیا نام ہے تو مجھے شٹ اپ کرا دیا گیا اور کہا گیا کہ انہیں اس سے زیادہ کچھ بتانے کی اجازت نہیں۔
اس دوران رامی کی فرنچ بیگم نے اپنے میاں کی رہائی کے لیے زبردست مہم چلائی۔ اس مہم کے نتیجے میں فرانس کے مختلف اداروں کے منتخب تقریباً 180 ارکان‘ یورپین پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس کے بہت سے ممبران نے رامی شعث کی بلاجواز قید کے خلاف عالمی سطح پر بھرپور آواز اٹھائی۔ اس زوردار مہم کے سامنے صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ ڈیڑھ برس کے بعد انہوں نے رامی کی بیوی سیلین لیبرن کو قاہرہ آنے اور اپنے مقید میاں سے ملاقات کی اجازت دے دی اور مزید ایک برس کے بعد وہ اپنے میاں کو بدترین جیل سے رہائی دلانے میں کامیاب ہوگئی۔
رامی کے فلسطینی والد نبیل شعث الفتح کے سینئر رہنما ہیں۔ اس دوران وہ بھی رامی کی رہائی کے لیے کوشاں رہے مگر السیسی نے اُن کی ایک نہ سنی۔ رامی نے سی این این کے نمائندے کو بتایا کہ یہ فرانسیسی و عالمی دبائو ہی تھا کہ جس کے سامنے مصری ڈکٹیٹر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔ اس نے میری رہائی کے لیے یہ شرط رکھی کہ میں اپنی مصری شہریت سے دستبردار ہو جائوں۔ یہ کھلی بلیک میلنگ تھی؛ تاہم رہائی کے لیے میرے پاس کوئی اور آپشن نہ تھا۔ مجھے مصری بن کر بھی اپنے فلسطینی ہونے پہ فخر تھا اور آج بھی فلسطین و مصر اور بلادِ عربیہ میرے دل کی دھڑکنوں میں شامل ہیں۔
سی این این کے اینکر نے انٹرویو کے دوران رامی شعث سے سب سے اہم سوال یہ پوچھا کہ اس وقت مصر میں کتنے سیاسی قیدی ہیں؟ اس کے جواب میں رامی نے دل دہلا دینے والے حقائق سے دنیا کو آگاہ کیا۔ اس وقت مصر میں 60 ہزار ضمیر کے قیدی ہیں۔ ذرا دل تھام کر سنئے‘ ان میں وکیل‘ ایکٹرز‘ صحافی‘ اساتذہ اور بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے قانونی جدوجہد کرنے والے اور اخوان کے ساتھ اپنے نہاں خانۂ دل میں قدرے نرم گوشہ رکھنے والے عام مصری بھی شامل ہیں۔ ان 60 ہزار کے علاوہ ہزاروں اخوانی کارکنان بھی ٹارچر سیلوں میں 2013ء سے بند ہیں۔ اسی سال صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کو بزورِ شمشیر ختم کرکے عبدالفتاح السیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ برسوں سے مقید اخوانی اور دیگر سیاسی قیدیوں کے مقدمات کی شنوائی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
رامی نے اپنے انٹرویو میں یہ تشویشناک انکشاف بھی کیا کہ اُن کی جیل میں موجودگی کے دوران وہاں سینکڑوں ایسے عام شہری قیدی بنا کر لائے گئے کہ جنہیں سڑکوں پر پولیس روکتی اور اُن کے موبائل فون چیک کرتی تھی۔ اگر پولیس کو فون پر کوئی ایسی پوسٹ نظر آتی کہ جس میں حکومت کے بارے میں کوئی کمنٹ یا کسی مزاحیہ تنقیدی تبصرے کو لائک کرنے کا نشان بھی ملتا تو انہیں دھر لیا جاتا۔ وہ سالہا سال سے جیل میں پڑے ہوئے ہیں اور اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
رامی شعث نے سی این این کو بتایا کہ صدر حسنی مبارک کے زمانے میں 2011ء میں زبردست عوامی تحریک سیاسی و شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے چلائی گئی تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کو مستعفی ہونا پڑا اور 2012ء میں صدر محمد مرسی پہلے آزادانہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے مصر کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ 2011ء کی عوامی تحریک سے نئے فوجی آمر نے کوئی سبق نہ سیکھا اور وہ گزشتہ کئی برس سے اپنے شہریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔
رامی شعث نے اپنے انٹرویو کے اختتام میں یورپ اور مغرب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سمجھنا چاہئے کہ مصر اور عالم عرب کی دیگر آمرانہ حکومتوں کے شہری کیا چاہتے ہیں؟ وہ سیاسی و شہری آزادیاں چاہتے ہیں۔ یورپ عرب دنیا میں منتخب ہونے والی جمہوری حکومتوں کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کرتا اور آمرانہ و جابرانہ حکومتوں کے تحفظ پر کیوں کمر بستہ رہتا ہے۔ رامی نے کہا کہ مغرب مصر کے دیگر ساٹھ ہزار سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بھی مہم چلائے۔ غالباً یہ رامی شعث کی رہائی کے لیے یورپ و امریکہ میں چلائی گئی مہم کا نتیجہ ہے کہ حال ہی میں مصر اور امریکہ کے درمیان اڑھائی بلین ڈالر کے امدادی ہتھیاروں کا جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کی 30 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط کی ادائیگی کے بعد 13 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط یہ کہتے ہوئے روک لی گئی ہے کہ جب تک انسانی حقوق کے حوالے سے بعض شرائط پوری نہیں کی جاتیں اس وقت تک یہ قسط جاری نہیں کی جائے گی۔ ادھر وطن عزیز میں چند ایسے دانشور بھی ہیں جو رات دن یہاں کی جمہوریت پر تبریٰ بھیجتے رہتے ہیں۔ کبھی اسے جھوٹی‘ کبھی اسے نمائشی‘ کبھی اسے موروثی اور کبھی اسے آمرانہ جمہوریت کہتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہ دانشور بھائی پاکستانی جمہوریت اور جمہوری آئین کی قدرومنزلت سے ناآشنا ہیں۔ اسی نمائشی جمہوریت کی بدولت پاکستان میں میڈیا آزاد‘ عدالتیں آزاد‘ پارلیمنٹ آزاد اور آزادیٔ تحریرو تقریر کی نعمت موجود ہے۔
میری تجویز یہ ہوگی کہ جمہوریت مخالف ان واجب الاحترام دانشوروں کو مصر جیسے عرب ممالک میں کم از کم چھ ماہ کے مطالعاتی دورے پر بھیجنا چاہئے تاکہ جا کر انہیں معلوم ہوکہ وہاں میڈیا سرکاری گزٹ کے علاوہ کچھ نہیں‘ تحریرو تقریر کی آزادی ناقابلِ تصور ہے۔ اور وہ مصر کہ جہاں سیاسی لطیفوں سے حکمران بھی محظوظ ہوتے تھے آج وہاں آمریت اس نقطۂ عروج پر ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی سیاسی و حکومتی معاملات پر ہلکا پھلکا تبصرہ بھی قابلِ دست اندازیٔ پولیس ہے۔
مجھے امید ہے کہ عرب دنیا کے اس طرح کے مطالعاتی دورے کے بعد ہمارے یہ مٹھی بھر دانشور بھی پاکستانی جمہوریت کو نعمتِ غیرمترقبہ سمجھیں گے اور اس کے گن گائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں