مقبوضہ کشمیر کا تازہ ترین منظرنامہ

دو تین روز قبل ایک حکومتی رہنما فرما رہے تھے کہ تمام مذہبی جماعتیں 5 فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منائیں گی۔ یوم کشمیر کو بھی اب ہم ایک تہوار کی طرح محض رسمی طور پر مناتے ہیں:
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
اِدھر مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری پہلے کی طرح جاری ہے بلکہ بھڑکتے ہوئے شعلۂ آزادی کو بجھانے کے لیے مزید بھارتی فوج سری نگر اور وادی کے دوسرے علاقوں میں بلا لی گئی ہے۔ آئے روز یہ فوجی سرچ آپریشن کے نام پر کشمیری بستیوں میں بھاری اسلحے سمیت داخل ہو جاتے ہیں۔ جوانوں کو شہید کرتے اور عمارتوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ ایک اور 5 فروری آپہنچا ہے مگر اہل کشمیر ابھی تک زخموں سے لہولہان ہیں۔ کشمیر کے مردوزن، پیروجواں بھارتی سرکار کے ظلم و جبر کا شکار ہیں۔
اپنے نفسِ گرم کی تاثیر سے کشمیریوں کے اندر روحِ آزادی پھونکنے والے سید علی گیلانی خلدمکانی ہوچکے ہیں۔ اُن کے بعد آل پارٹیز حریت کانفرنس کی ساری قیادت جیلوں میں نظربند ہے۔ تاہم مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں انسانوں میں آزادی کی جو تڑپ سید علی گیلانی نے پیدا کی تھی وہ تڑپ قیادت کے منظرعام پر نہ ہونے کے باوجود پہلے سے بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ نوجوان برہان وانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر لیے ہمہ وقت بھارتی جبرو استبداد سے نجات پانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ عفت مآب بیبیاں بھی بے دھڑک جلوسوں میں شرکت کرتی ہیں۔ وہ پیلٹ گنوں سے ڈرتی ہیں نہ ہی سٹین گنوں سے گھبراتی ہیں۔
تازہ ترین منظرنامے کا ذکر کرنے سے پہلے مسئلہ کشمیر کے بارے میں چند ضروری حقائق قارئین کو یاد دلا دوں۔ وسط اگست 1947ء میں جب تقسیم ہند ہوئی تو یہ اصول طے پایا تھا کہ انگریزوں کے ماتحت سارے ہندوستانی علاقے کو آزادی مل جائے گی اور ملک کی جو نیم خودمختار چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں اُن کے حکمران اپنے شہریوں کی خواہش کے مطابق انہیں بھارت یا پاکستان کا حصہ بنائیں گے۔ اُس وقت کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اپنی ریاست کی اکثریتی مسلمان آبادی کی رائے کو یکسر نظرانداز کرکے بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا خفیہ معاہدہ کرلیا۔ بھارت نے کشمیر میں ہوائی جہازوں سے اپنی فوج اتارنا شروع کردی۔
نئے ملک کی نئی پاکستانی فوج ابھی نظم و نسق کے مراحل سے گزر رہی تھی لہٰذا انگریز جنرل گریسی نے بھارت کے جواب میں اپنی فوج کو سری نگر نہ بھیجا۔ نتیجتاً پاکستان کے شمالی علاقوں کے قبائلیوں اور کشمیریوں نے ڈٹ کر بھارتی فوج کا مقابلہ کیا اور کشمیر کے بہت سے علاقے آزاد کروا لیے۔ یہی علاقے اب آزاد کشمیر کہلاتے ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں اقوام متحدہ فی الواقع رائے شماری کروانا چاہتا تھا مگر بھارت نے ایک چال چلی اور جنوری 1950ء میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ کردیا۔ اس سے مراد یہ تھی کہ بھارت کے دوسرے صوبوں کے برعکس ریاست جموں و کشمیر کو متعدد شعبوں میں مکمل خودمختاری ہوگی۔ یہی آرٹیکل 370 بھارت نے اگست 2019ء میں اپنے آئین سے خارج کردیا جس کے بعد کشمیر کی حیثیت بھارت کے ایک صوبے جیسی ہوگئی۔
74 سال کے پاک بھارت حالات وواقعات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس دوران دونوں ممالک کے مابین جنگیں بھی ہوئیں، صلح بھی ہوئی، مذاکرات بھی ہوئے، بھارت نے اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل جیسے فورمز پر رائے شماری کے وعدے وعید بھی کیے مگر بھارت مسلسل ڈھٹائی سے کام لے رہا ہے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورِ حکمرانی میں کشمیریوں پر جو ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی ہوئی اُس کی مثال بھارتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یوں تو بھارت کے ساتھ جنگوں کے علاوہ معاہدئہ تاشقند اور شملہ معاہدہ بھی ہوا تھا مگر اچھے جذبے سے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی امن مشن لے کر بس میں لاہور آئے تھے اور یہاں انہوں نے مینارِ پاکستان کے سائے تلے پاکستان کو تسلیم کیا۔ عمررسیدہ اور جہاندیدہ بھارتی وزیراعظم واجپائی اور پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان باہمی معاہدئہ امن پر اتفاق ہوگیا تھا۔ اس معاہدے کو اعلانِ لاہور کا نام دیا گیا جس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت تمام مسائل پرامن مذاکرات سے حل کیے جانے تھے۔ واجپائی شاعر بھی تھے اور اپنی نظموں میں کہہ چکے تھے کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان امن قائم ہوگا تو ہمیں غربت اور جنگ سے نجات ملے گی۔ اپنی ایک نظم ''جنگ نہ ہونے دیں گے‘‘ میں وہ کہتے ہیں:
کبھی نہ کھیتوں میں پھر خونی کھاد پھلے گی
کھلیانوں میں نہیں موت کی فصل کھِلے گی
اُن کے زمانۂ اقتدار میں مسئلہ کشمیر کا باہمی مشاورت سے کوئی ایسا مرحلہ وار حل سامنے آنے کا امکان تھا جو تینوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہوتا۔ مگر معاہدے کے چند ماہ بعد کارگل کی جنگ چھڑ گئی اور یوں ایک موہوم امکان کہیں راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ آج اسی پارٹی کے متعصب وزیراعظم مودی کے دور میں اس کے اپنے بھارتی شہری کبھی شدید سردی، کبھی شدید گرمی اور کبھی بھوک سے دم توڑ رہے ہیں مگر کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں۔ 31 جنوری 2022ء کے روز دنیا بھر کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں صرف اس سال کی شدید سردی کے دوران 176 بے گھر افراد فٹ پاتھوں پر سردی سے ٹھٹھر کر دم توڑ گئے۔ مودی اگر کشمیر میں فوجوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے یہ رقم اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کرتے اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرلیتے تو وہ اپنے کروڑوں شہریوں کو خوراک، تعلیم، صحت اور ہائوسنگ وغیرہ فراہم کر سکتے تھے مگر وہ تو مسلمانوں کو کچلنے اور جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں تازہ ترین منظرنامہ یہ ہے کہ بھارت ریاستی اسمبلیوں کی سیٹیں بڑھا کر الیکشن کروانا چاہتا ہے۔ آبادی وادیٔ کشمیر کی زیادہ ہے مگر بھارت نے وہاں اسمبلی کی صرف ایک سیٹ بڑھائی ہے جبکہ جموں میں پانچ سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ کسی ڈوگرہ کو کشمیر کا وزیراعلیٰ بنایا جاسکے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور کئی دیگر جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ ہیں جبکہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی زیادہ تر قیادت جیلوں میں ہے یا گھر پر نظربند۔ مقبوضہ کشمیر میں سب سے بڑا بحران لیڈرشپ کا ہے۔ سید علی گیلانی کے بعد کشمیریوں کو ایک جرأت مند اور دوراندیش فعال قیادت کی ضرورت ہے۔ نیشنل کانفرنس اور دیگر پارٹیوں کو آرٹیکل 370 اور 35اے کی بحالی کے بغیر انتخاب میں نہیں حصہ لینا چاہئے۔ بھارت پاکستان سے دوطرفہ مذاکرات کیلئے تیار نہیں، دنیا مسئلہ کشمیر سے بڑی حد تک لاتعلق ہوچکی۔
پانچ فروری کو محض ایک رسم پوری کرنے کے بجائے اس موقعے پر پاکستان کے وزیراعظم کو کشمیر کے حوالے سے اپنی ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرنی چاہئے۔ کشمیری تو اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا تہیہ کر چکے ہیں‘ ہمیں بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ کشمیریوں پر بھارت ہر روز ایک نئی قیامت ڈھاتا ہے مگر عالم اسلام چپ، یواین او چپ، عالمی قوتیں چپ اور خود ہماری حکومت بھی چپ ہے۔ کیا ہم اس لیے چپ ہیں کہ ہم کشمیر کو بھول چکے ہیں:
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں