ٹوٹے دلوں کے جڑنے کا موسم

یقینا وہ ایک خوب صورت لمحہ ہوتا ہے کہ جب ٹوٹے ہوئے دل ایک بار پھر جڑ جاتے ہیں۔ ہفتے کے روز لاہور میں میاں شہباز شریف کی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات تھی تو سیاسی نوعیت کی مگر اس کی فضا بڑی شاعرانہ تھی۔ دوریاں‘ قربتیں‘ پھر کدورتیں اور رنجشیں اور اب پھر قربتیں۔ اس موقع پر گلے شکوے بھی ہوتے ہیں اور پھر غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں اور یوں فاصلے ایک بار پھر قربتوں میں بدل جاتے ہیں۔ یہی بات ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہی تھی کہ آپ اس ملاقات کو ٹوٹے ہوئے دلوں کا جڑنا بھی کہہ سکتے ہیں:
بڑا مزا اس ملاپ میں ہے
کہ صلح ہو جائے جنگ ہو کر
ہم شاعر تو نہیں مگر آج اشعار کی بہت ''آمد‘‘ ہے۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ آج وقتی طور پر کوچۂ سیاست کو خیرباد کہہ دیا جائے اور آپ کی تواضع شعرائے کرام کے حسبِ حال اشعار سے کی جائے مگر ہمارے مجلسی و صحافتی کلچر کی روایت میں سیاست رچی بسی ہوئی ہے۔ بقول مرزا غالب؎
ہرچند ہو مشاہدئہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں بادہ و ساغر کہے بغیر
اپنا ''مشاہدئہ حق‘‘ آپ سے شیئر کرنے سے پہلے میاں شہباز شریف کے جناب آصف علی زرداری کے بارے میں سابقہ ارشادات و بیانات کے بارے میں سوچئے اور اُن کی تازہ ترین ملاقات کا منظرنامہ ذہن میں لائیے اور پھر مومن خان مومن کا یہ حسب موقع شعر ملاحظہ کیجئے ؎
از کفِ دشمن گرفتم جام را
من شناسم گردشِ ایام را
(گویا آصف علی زرداری کہتے ہیں) میں نے ''دشمن‘‘ کے ہاتھ سے جام قبول کرلیا کیونکہ میں گردشِ ایام کا نبض شناس ہوں۔ قارئین جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری سے بڑھ کر پاکستان میں ''گردشِ ایام‘‘ کا نبض شناس کوئی اور نہیں۔
اب آئیے ہمارے مشاہدئہ حق کی طرف۔ ہفتے کے روز شریف خاندان کی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے ''فل ہائوس‘‘ ملاقات‘ کہ جس میں شہباز شریف‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز سبھی شامل تھے‘ کا اہم ترین میسج یہ تھا کہ شریف فیملی ایک پیج پر ہے جس کی قیادت میاں شہباز شریف کر رہے ہیں۔ دو تین روز پہلے کی اس ملاقات میں سب سے بڑا بریک تھرو یہ ہوا کہ پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کے بارے میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے موقف سے باقاعدہ اتفاق کرلیا ہے۔ شہباز شریف نے پریس بریفنگ میں اعتراف کیا کہ( ن) لیگ میں دو رآرا تھیں مگر ہم میاں نواز شریف کی ہدایت پر یکسو ہو گئے ہیں۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ پہلے میاں نواز شریف کا مؤقف یہ تھا کہ عمران خان کو اپنی نااہلی اور ناسمجھی کے بوجھ سے خود ہی گرنے دیا جائے اور تحریکِ عدم اعتماد کا آپشن استعمال نہ کیا جائے۔ اب لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب کو قائل کرلیا گیا ہے کہ مہنگائی کے بوجھ تلے غریب اور سفیدپوش بری طرح پس کر رہ گئے ہیں۔ اس وقت بھی اگر اپوزیشن چپ رہے گی تو عوام جہاں موجودہ حکومت سے سخت ناراض ہیں وہاں وہ حزبِ اختلاف کی بے عملی سے بھی نالاں ہو جائیں گے۔ غالباً پیپلز پارٹی کو بھی ان عوامی جذبات کا ادراک ہوگیا۔
آج صبح ہی سیاست کے ایک پیرِ مغاں سے بات ہورہی تھی۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ یہ موسم بیک وقت دوریوں اور قربتوں کا موسم ہے۔ اُن کے کشف کے مطابق مقتدرہ سے ون پیج کے دعویداروں سے تو بڑی حد تک دوری ہوچکی ہے مگر کسی اور کے ساتھ قربت کے بارے میں اُن کا کشف دھندلی سی کوئی تصویر تو بناتا ہے مگر واضح طور پر نشاندہی نہیں کرتا کہ قربت کس سے اور کس قدر ہوئی ہے۔عمران خان کی ساڑھے تین برس کی حکمرانی دراصل اَنا کی حکمرانی ہے۔ جناب وزیراعظم نے پہلے روز ہی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور چیخ پکار پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ ہی نہیں آئیں گے۔ لہٰذا پارلیمنٹ سے انہیں جو قوت اور اعتماد مل سکتا تھا اسے انہوں نے اپنی تنک مزاجی سے پہلے روز ہی رد کردیا۔ انہوں نے صرف اور صرف اپوزیشن کا احتساب کروانے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا اور اپنے اکثر سیاسی مخالفین کو حوالۂ زنداں کرنے کا اہتمام کیا اور اپنا زیادہ وقت خدمت عوام کے بجائے اپوزیشن کو للکارنے پر صرف کیا۔ انہوں نے ابھی چند روز پہلے احتساب کے مشیر شہزاد اکبر کو فارغ کردیا جو اس بات کا کھلااعتراف ہے کہ وہ مخالفین کے خلاف کوئی کیس ثابت نہیں کر سکے۔ اَنا کی حکمرانی کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ خان صاحب دستوری پابندیوں کے مطابق قائد حزبِ اختلاف سے مشورہ کرنے کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ ہمارے پاس کوئی ''چڑیا‘‘ تو نہیں مگر ہمیں لگتا ہے کہ کسی نے حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کو یہ حقیقت باور کرا دی ہے کہ اگر وہ الگ الگ لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد آئیں گی تو شاید وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ میاں شہباز شریف نے اندرونِ خانہ طے پانے والی ساری خبریں تو نہیں بتائیں مگر ہمارے طوطے کی فال کے مطابق پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم لانگ مارچ کے لیے اپنی اپنی تاریخوں پر اصرار نہیں کریں گی اور مارچ کے وسط میں کوئی متفقہ تاریخ طے کرلی جائے گی اور مشترکہ دھرنا دیا جائے گا۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق دونوں پارٹیاں صدقِ دل کے ساتھ مرکز اور پنجاب میں تحریکِ عدمِ اعتماد اور عوامی لانگ مارچ کے دونوں محاذوں پر بیک وقت سرگرمِ عمل ہو جائیں گی۔ تحریکِ عدمِ اعتماد کے لیے پی ٹی آئی کے غیرمطمئن ارکانِ پارلیمنٹ‘ حکومتی پارٹی کی ایم کیو ایم اور ق لیگ جیسی اتحادی جماعتوں اور پنجاب میں جہانگیر ترین گروپ سے خصوصی رابطہ کیا جائے گا۔
زبانی طیور کی ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آج کل احسن اقبال اور خرم دستگیر خان پاکستان میں اور اسحاق ڈار لندن میں قلم و قرطاس اور لیپ ٹاپ کے ساتھ بہت مصروف دیکھے جاتے ہیں۔ انہی طیور کا کہنا ہے کہ حکومت کو اَپ سیٹ کرنے کے بعد عبوری سیٹ اَپ قائم ہوگا اور پھر انتخابات میں ہر کسی کی اپنی اپنی سیاست ہوگی۔ گویا بقول سلیم کوثر؎
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
شبِ رفتہ میں نے مولانا فضل الرحمن صاحب سے شہباز شریف زرداری ملاقات کے بارے میں پوچھا تو مولانا اس ملاپ سے مطمئن نظر آئے۔ میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آج کل ٹوٹے دلوں کے ملاپ کا موسم ہے۔ کیا آپ جماعت اسلامی کے دیرینہ دوستوں سے بھی ملاقات کریں گے؟ مولانا نے اپنے پرانے ہمسفر جناب سراج الحق کے بارے میں محبت کے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پرانے کرم فرما جناب لیاقت بلوچ گاہے گاہے اسلام آباد میں مجھ سے ملاقات کرکے تجدیدِ محبت کرتے رہتے ہیں۔ اب میں جس روز لاہور گیا منصورہ حاضر ہو کر احباب سے ملاقات کروں گا۔ اب یہ کوئی سیاسی نجومی ہی بتا سکتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت کے خلاف 101 دھرنے دینے والی جماعت اسلامی بھی متحدہ اپوزیشن کے مشترکہ لانگ مارچ میں شامل ہوگی یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں