گھر گھر غربت کے ڈیرے

پرانی ضرب المثل ہے کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔ آج کل پاکستانی وزیر خزانہ شوکت ترین شاہ مدار بن کر بھوک سے دم توڑتے عوام پر کوڑے برساتے اور جی بہلاتے ہیں۔ گزشتہ شب جناب عمران خان نے پٹرول کی قیمت میں اکٹھے بارہ روپے تین پیسے کا کمرتوڑ اضافہ کردیا جو افسوسناک ہی نہیں نہایت ظالمانہ و بے رحمانہ فیصلہ ہے۔
منگل کی رات کوئی گیارہ بجے کے قریب ٹی وی سکرین پر ٹکر آیا کہ وزیراعظم نے اوگرا کی بارہ روپے تین پیسے فی لٹر قیمت میں اضافے کی سمری وزارت خزانہ کو یہ کہہ کر بھیج دی کہ یکدم اتنا اضافہ نہیں کر سکتے۔ میرا خیال ہے کہ اوگرا نے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بارہ روپے تین پیسے اضافہ کی سمری جاری کی تھی۔ وزیراعظم نے عوام کی اشک شوئی کے لیے وزارتِ خزانہ کو نظرثانی کا جو حکم دیا تھا اسے غالباً انڈرسٹینڈنگ کے مطابق پرِکاہ کی حیثیت بھی نہ دی گئی اور آئی ایم ایف کے وضع کردہ اضافے کو من وعن نافذ کردیا گیا۔ اگر جناب وزیراعظم بھی عوام کی طرح اتنے ہی بے بس ہیں تو پھر وہ اقتدار چھوڑ کر سینہ چاکانِ چمن سے کیوں نہیں آملتے؟
جب جناب عمران خان آئی ایم ایف کی خوفناک شرائط پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کو خودمختار ادارہ بنا رہے تھے، ریاست پاکستان کے بینک کو ایک طرح سے آئی ایم ایف کے حوالے کررہے تھے اور اس کے نمائندے کو بحیثیت گورنر سٹیٹ بینک لامحدود اختیارات دے رہے تھے تو اپوزیشن واویلا کر رہی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت اور ہمارے ریاستی بینک کو ایک عالمی مالیاتی ادارے کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ پٹرولیم نرخوں میں اس جان لیوا اضافے کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ حزب اختلاف کا واویلا مبنی برحقیقت تھا۔
دیکھئے اس قوم کے ساتھ کیسا کیسا سنگین مذاق ہوتا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں جبکہ پیر کے روز ہی یہ خبر عالمی میڈیا پر آگئی تھی کہ یوکرائن پر روس امریکہ کشیدگی میں مثبت پیشرفت کے بعد روس نے سرحد پر تعینات کچھ فوجی دستے واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے‘ جس کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 4فیصد تک گر گئیں۔ عالمی مارکیٹ میں برنٹ کروڈ آئل کی قیمت 3.38 کی کمی سے 93.10 ڈالر فی بیرل پر آگئی اور ویسٹ ٹیکساس کی قیمت میں 3.9 فیصد کمی واقع ہوگئی جبکہ ہماری وزارتِ خزانہ نے پٹرولیم کی قیمتوں میں عالمی اضافے کی خبر آنے کے بعد منگل اور بدھ کی درمیانی شب ہوشربا اضافہ کردیا۔ ہمارے حکمران عوام کو اتنا بے خبر کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا انہوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں دو چار روپے اضافے سے مہنگائی کی خوفناک لہر آتی ہے مگر اکٹھے بارہ روپے اضافے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا وہ بہت کچھ بہا کر لے جائے گا۔ اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو خان صاحب بندئہ مزدورو مجبور کے تلخ حالات سے بالکل بے خبر ہیں یا پھر...
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
چند ہی روز پہلے وزیراعظم اس بات کو پھر دوہرا رہے تھے کہ معیشت کی بہتری کا سب سے اہم پیمانہ یہ ہے کہ غریب آدمی کی حالت کتنی بہتر ہوئی ہے۔ اس کی زندگی میں کتنی خوشحالی آئی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اُن کے دورِ اقتدار میں غریب فی الواقع روٹی کا بھی محتاج ہوگیا ہے۔ نیم متوسط کلاس اب غریبوں کی صف میں شامل ہوچکی ہے اور آہ وزاری کررہی ہے۔ متوسط کلاس کا بھرم بھی اب دم توڑ رہا ہے؛ البتہ خان صاحب کے سنہری دور میں امیر امیر تر اور مزید خوشحال ہوچکا ہے۔
حیرت ہے کہ بھوک سے نڈھال اور معاشی صدموں سے بے حال عوام کے زخموں پر خان صاحب نمک پاشی بھی مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ منگل کے روز ہی انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں مہنگائی بڑھی مگر پاکستان میں کم ہوئی ہے۔ یہ بالکل خلاف واقعہ ہے۔ اکانومسٹ جیسے ثقہ عالمی جریدے کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی میں پاکستان کا دنیا میں تیسرا نمبر ہے۔ اس کے علاوہ خان صاحب اکثر یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ 22 کروڑ آبادی میں 20 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ میرے علم کے مطابق یہ بھی درست نہیں۔ حقیقتاً پاکستان میں ہر شخص بالواسطہ بھاری ٹیکس دینے پر مجبور ہے۔ اُسے ہر بل کے ساتھ‘ چاہے وہ بجلی کا بل ہو یا موبائل فون کارڈ، ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت ماچس کی ڈبیا سے لے کر تمام اشیائے صرف پر 17 فی صد سیلز ٹیکس وصول کرتی ہے۔ حکومت مزید امیروں کو ضرور ٹیکس نیٹ میں لائے مگر غریبوں کو یہ طعنہ دینا کہ وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے میری دانست میں بالکل ناروا ہے۔
یکم جنوری 2018ء کو خان صاحب نے حکومتِ وقت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی عوام پر پٹرول بم گرا دیا گیا ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔ خان صاحب نے تب اپنے ٹویٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ٹیکس اصلاحات لانے اور منی لانڈرنگ کنٹرول کرنے کے بجائے حکومت عوام پر مزید بوجھ لادے جا رہی ہے۔ 16 فروری 2022ء کو خان صاحب کی اپنی اصطلاح کے مطابق اُنہوں نے عوام پر پٹرول بم گرایا ہے۔ اس بم کے بارے میں خان صاحب اور اُن کے وزیروں نے قوم سے کوئی معذرت کی‘ نہ ہی عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا۔ وزیر خزانہ سمیت وزیروں مشیروں کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر پاکستان پر بھی پڑا ہے۔ اوپر ہم بیان کر آئے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں اضافہ نہیں کمی ہوئی ہے۔ بالفرض اضافہ ہوا بھی ہو تو عوام دوست حکومتیں لوگوں پر اضافے کی پوری توپ نہیں چلا دیتیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق انڈیا میں اس وقت پٹرول کی قیمت 95 روپے فی لٹر جبکہ بنگلہ دیش میں 89 ٹکا فی لٹر ہے۔
حکومت کے وزیروں، مشیروں اور ماہرین معیشت کی فوج ظفر موج کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی عالمی اضافے کو معاشی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی سے مینج کریں اور سارا بوجھ عوام پر نہ ڈالیں۔ جناب عمران خان سے اتنا جارحانہ فیصلہ کروا کے اُن کے وزیروں مشیروں نے اُن کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے جمعرات اور جمعہ کو پاکستان کے ہر شہر میں احتجاج کی کال دے دی ہے۔
پنجابی بولیوں کا کمال یہ ہے کہ ایک سطر میں ایک عہد کا دکھ درد بیان کردیا جاتا ہے۔ بولی میں جو حقیقت آشکار کی جاتی ہے وہ سیدھی آپ کے دل میں جاکر ترازو ہو جاتی ہے۔ سمیع اللہ عرفی کی اس بولی میں ہمارے دکھ درد کی مکمل ترجمانی موجود ہے:
بھکھاں آھلنے گھراں وچ پائے
تے چڑیاں نے جیبھ وڈ لئی
حسن نثار صاحب نے اس بولی کا اردو میں ترجمہ کچھ یوں کیا ہے کہ ''جب بھوک نے گھروں میں گھونسلے بنا لیے تو چڑیوں نے چہچہانے کے بجائے اپنی زبانیں کاٹ لیں‘‘۔ آج آپ کسی بھی عوامی بستی میں نکل جائیں تو آپ کو گھروں سے ہنسنے اور چہچہانے کے بجائے دودھ کو ترستے بچوں کے بلکنے کی آوازیں سنائی دیں گی۔ خان صاحب آئے تو تھے مسرت و شادمانی اور خوشحالی بانٹنے مگر انہوں نے لوگوں سے اُن کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور مسکراہٹیں بھی چھین لی ہیں۔ آج ان بستیوں کے ہر گھر میں بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں