جناب عمران خان کس راستے پر چل پڑے؟

گزشتہ 22 برس تک جناب عمران خان آزادیٔ اظہار کے سب سے بڑے علمبردار رہے۔ وہ جب بھی کسی فورم پر خطاب کرتے تو آزادیٔ صحافت کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرکٹ کی وجہ سے عمران خان کو عوامی مقبولیت حاصل تھی مگر اُن کی سیاسی مقبولیت کو چار چاند لگانے میں میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اُن کا جلسہ یا دھرنا بڑا ہوتا یا چھوٹا، الیکٹرانک میڈیا اس کی لائیو کوریج کرتا۔ پاکستانی سیاست دانوں میں جتنے عمران خان میڈیا فرینڈلی تھے کوئی اور سیاستدان نہ تھا۔ میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے وہ سابق وزیراعظم نواز شریف پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔
نہ جانے اس میں ہمارے مشرقی مزاج کا قصور ہے یا ہماری ناپختہ جمہوری اقدار کا کہ جو بھی حکمران جمہوریت کے ذریعے منتخب ہوکر آتا ہے وہ کرسیٔ اقتدار پر متمکن ہوتے ہی آل پاورفل بننا چاہتا ہے۔ اسی لیے باوردی ہی نہیں، بے وردی آمر بھی ہمارا مقدر بنتے رہے ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار کیا تھا‘ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے وہ اس شان سے حکمران بنے کہ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔
تمام سیاسی جماعتوں نے اس وقت کی پاکستان کی صورتحال اور بھارت میں مغربی پاکستان کے 90 ہزار قیدیوں کی رہائی کیلئے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا اور بھٹو کے ساتھ بھرپور تعاون کیا‘ مگر اپنی فسطائیت کی ایک جھلک انہوں نے 1972ء میں ہی ولی خان کے راولپنڈی کے جلسے پر گولیاں چلوا کر دکھا دی تھی۔ اس کے باوجود ولی خان کی پارٹی سمیت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے 1973ء کا اسلامی جمہوری آئین بنوانے میں بھٹو صاحب کا پورا ساتھ دیا۔ وہ مغرب کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اور وہاں کی جمہوری و سیاسی روایات کے عینی شاہد تھے‘ اس لیے اُن سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ حقیقی جمہوری روایات کو پروان چڑھائیں گے مگر اُنہوں نے ایک حقیقی جمہوری حکمران بننے کے بجائے مطلق العنان بننے کو ترجیح دی۔ میاں نواز شریف بالعموم اپنے ادوارِ اقتدار میں جمہوری ٹریک پر رہے مگر ایک زمانے میں اُن کے کچھ نادان دوستوں نے انہیں امیرالمومنین کے اختیارات حاصل کرنے کا راستہ دکھایا تھا۔ وہ اس سلسلے میں قانون سازی بھی کرنا چاہتے تھے مگر لگتا ہے جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور وہ دوبارہ جمہوریت کے راستے پر واپس آگئے۔
جناب عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے مغربی جمہوری اقدار کے گن گاتے رہے مگر برسر اقتدار آتے ہی وہ پارلیمنٹ سے ناراض ہوگئے۔ پاکستان کے اکثر بڑے بڑے صحافیوں سے اُن کے دوستانہ مراسم تھے مگر کرسیٔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے ناقد صحافیوں اور اینکرز کی تنقید پر سخت ناگواری کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے صحافیوں کے ساتھ بے تکلفانہ ملاقاتوں اور آزادانہ تبادلۂ خیالات کی روایت بھی ترک کردی۔
جناب وزیراعظم نے اپنے پہلے دورۂ امریکہ کے دوران نہایت سینئر صحافی شاہین صہبائی سے ہونے والی ملاقات میں صہبائی صاحب سے کہا کہ میں اس تیرکش میڈیا کا کیا کروں؟ یہ سوال سن کر زیرک صحافی نے برجستہ جواب دیا: جناب برداشت کریں اسی میں آپ اور ملک کے لیے خیر ہے۔ تاہم گزشتہ تین ساڑھے تین برسوں سے اُن کے حالی موالی انہیں باور کراتے رہے کہ جناب یہ منہ زور میڈیا آپ کی اصلاحات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسے لگام دیں۔
اب پیکا ایکٹ میں جناب وزیراعظم جو ترمیمی آرڈیننس لائے ہیں اسے اپوزیشن، صحافی برادری، تمام اخباری تنظیموں اور ملک کے طول و عرض کی بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی نے جمہوریت کُش قرار دیا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اسے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اور کچھ وکلا نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہتک عزت کے کسی مقدمے میں ایف آئی اے کو براہ راست گرفتاریوں سے روک دیا۔
پہلے یہ جان لیجئے کہ پیکا کیا ہے؟ یہ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ کا مخفف ہے۔ 2016ء میں اس ایکٹ کی قانون سازی مسلم لیگ (ن) نے کی تھی تاکہ ہتک عزت کے ذاتی مقدمات کا تدارک ہوسکے۔ اس وقت بھی میڈیا اور سول سوسائٹی نے اس ایکٹ پر بہت تنقید کی تھی اور کہا تھاکہ اس قانون کو آزادیٔ اظہار کے پر کاٹنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ اُس وقت عمران خان نے ببانگ دہل میڈیا کا ساتھ دیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج وہی عمران خان پیکا آرڈیننس میں ایسی ترامیم لے آئے ہیں کہ جن سے یہ ایکٹ انتہائی خوفناک ہوگیا ہے۔ اب پاکستان کے کسی صحافی یا غیرصحافی کو فیک نیوز کا موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے فوری طور پر چھ ماہ کیلئے حوالۂ زنداں کیا جاسکے گا۔ عدالتوں میں صحافتی تنظیموں اور وکلا نے اس ترمیمی آرڈیننس کو آئینِ پاکستان کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
چاہئے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی ملک کے اصل مسائل کی طرف توجہ دیتی کیونکہ آج ملک کا سب سے بڑا ایشو مہنگائی ہے۔ پٹرول 160 روپے لٹر ہوگیا ہے جس سے ہر شے کئی کئی گنا مہنگی ہوچکی ہے۔ اس ترمیم کی زد میں مین سٹریم میڈیا ہی نہیں، سوشل میڈیا بھی آئے گا۔ یقینا سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنے اور الزام تراشی کا راستہ بند ہونا چاہئے؛ تاہم اُس کے لیے عدالتی طریق کار اختیار کرنے یا متفقہ ضابطۂ اخلاق لانے کی ضرورت ہے۔
ترمیمی آرڈیننس کے معاملے پر حکومت کے اندر سے بھی مخالفت شروع ہو چکی ہے۔ ایم کیو ایم کے راہنما امین الحق نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ہم اس ترمیمی آرڈیننس کی کسی صورت حمایت نہیں کریں گے۔ وفاقی اٹارنی جنرل جناب خالد جاوید خان نے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے کے بعد ایسی رائے کا اظہار کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس ترمیمی آرڈیننس کو جوں کا توں نافذ نہیں کریں گے۔
قارئین کو معلوم ہے کہ میں عرب دنیا میں اپنے طویل قیام کی بنا پر اکثر وہاں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر روشنی ڈالتا رہتا ہوں۔ عالم عرب کے اکثر ملکوں میں بادشاہتیں ہیں یا فوجی آمریتیں۔ یہ غیر جمہوری حکومتیں حرفِ تنقید ہرگز برداشت نہیں کرتیں۔ میرے بے تکلف عرب دوست پاکستان کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسلامی اقدار بھی ہیں، جمہوریت بھی، آزادیٔ اظہار بھی اور آزادیٔ انصاف بھی موجود ہے۔
جناب وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک جمہوری تحریک کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ یہاں جمہوری دستور ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہارِ کی مکمل ضمانت دی گئی ہے۔ ہم اپنے سب دوستوں کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پاکستان کو عرب بنایا جا سکتا ہے نہ ہی چین اور نہ ہی کوئی اور ملک۔ پاکستان ان شا اللہ اپنی اسلامی و جمہوری روایات کے ساتھ ہی مثالی ترقی کرے گا۔ اس لیے عرض ہے کہ جناب وزیر اعظم اپنے جمہوری راستے پر ہی گامزن رہیں اور بالائے تنقید ہونے کے غیر جمہوری رویے سے اجتناب فرمائیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں