یوکرین کی تباہی میں پاکستان کے لیے سبق

یوکرین کی تباہی کا منظرنامہ مختصر مگر اس کا پس منظر طویل ہے۔ یہ کہانی یوکرین کی بے بسی اور امریکہ کی بے وفائی کی کہانی ہے۔ یوکرینی صدر ولادی میرویلنسکی کی کہانی بس اتنی ہے کہ: مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔
اس وقت یوکرین کا منظرنامہ یہ ہے کہ ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ گزشتہ چند روز سے روس یوکرین کی خودمختاری کو روندتے ہوئے اس پر بمباری بھی کر رہا ہے اور گولہ باری بھی۔ فوجی تنصیبات ہی نہیں شہری آبادیوں کے بعض حصے بھی ان حملوں کی زد میں آچکے ہیں جن سے 200 سے زیادہ یوکرینی ہلاک اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں روسی فوجیں داخل ہوچکی ہیں۔ امریکہ اس بربادی کا دور سے نظارہ کر رہا ہے۔
میزائلوں کی برستی بارش میں یوکرین کی مدد کے لیے کوئی ''ساتواں بحری بیڑہ‘‘ آیا اور نہ ہی امریکہ نے روس کو کوئی ایسی دھمکی دی جو اسے اپنے ارادوں سے باز رکھتی۔ اس موقع پر امریکی صدر نے یوکرینی صدر کو پیشکش کی کہ امریکہ انخلا میں اُن کی مدد کر سکتا ہے۔ اس کے جواب میں جرأت مند یوکرینی صدر نے کہا کہ مجھے انخلا کی نہیں، اسلحے کی ضرورت ہے۔ روس نے یوکرین پر حملے سے متعلق سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد ویٹو کر دی۔ منگل کے روز جب آپ یہ کالم ملاحظہ کر رہے ہوں گے نہ جانے اُس وقت تک صورت کیا ہوگی۔
اب آئیے پس منظر کی طرف۔ مشرقی یورپ سے متصل پانچ کروڑ آبادی کا ملک یوکرین زاروں کے زمانے سے روس کا حصہ چلا آرہا تھا۔ جب سوشلسٹ سوویت یونین قائم ہوئی اس وقت قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان اور بیلاروس وغیرہ تقریباً پندرہ ریاستوں کو بالجبر اس یونین کا حصہ بنا لیا گیا‘ جن میں یوکرین بھی شامل تھا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے اوائل میں روس کے داخلی حالات اور اس وقت کے صدر گورباچوف کے بعض اقدامات کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گئی۔ ہر ریاست کو آزادی اور خود مختاری مل گئی؛ تاہم یہ نئے ''خود مختار‘‘ ممالک زبان و کلچر وغیرہ کے اعتبار سے روس کے زیراثر رہے۔ تب روس سیاسی و عالمی سطح پر خاصا کمزور ہوگیا اور امریکہ واحد سپرپاور کی حیثیت سے دنیا کے منظرنامے پر جلوہ گر ہوا تھا۔
2013ء میں یوکرینی حکومت روس نواز تھی۔ اس وقت کے یوکرینی صدر وکٹر یاکووچ کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ صدر کی برطرفی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے تھے۔ یوکرین کے صدر مقام کیف کے لاکھوں مظاہرین یورپی یونین میں شمولیت اور نیٹو کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ اُن کا نقطہ نظر یہ تھاکہ اس طرح انہیں روس کی فوجی مداخلت اور اس کے دبائو سے مستقلاً نجات مل جائے گی۔ روس نواز دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں کی رائے یہ تھی کہ ہمیں روس کے حلقۂ اثر سے نہیں نکلنا چاہئے۔ صدر مخالف تحریک زور پکڑ گئی تو خونریز ہنگامے شروع ہوگئے۔ فروری 2014ء میں صدر وکٹر یوکرین سے فرار ہوکر روس پہنچ گئے۔
موجودہ پرجوش یوکرینی نوجوان صدر بھی یورپ اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ یوکرین ایک نہایت سرسبزو شاداب اور زرخیز علاقہ ہے جو دوسرے کئی ممالک کو گندم وغیرہ برآمد کرتا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسے نیٹو میں جانے سے ہر قیمت پر روکا جائے۔ قارئین کو یقینا علم ہوگا کہ نیٹو امریکہ اور یورپی ممالک کا قائم کردہ فوجی اتحاد ہے، جس کے اصولوں میں یہ بات شامل ہے کہ ان میں سے کسی ملک پر ہونے والا بیرونی حملہ نیٹو ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ امریکہ نے وعدہ کیا تھاکہ سردجنگ کے خاتمے کے بعد وہ کسی ملک کواس فوجی اتحاد کا ممبر نہیں بنائے گا مگر اس نے یہ وعدہ وفا نہیں کیا۔
یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ جب 1990ء میں یوکرین ایک آزادو خودمختار ملک بنا اس وقت یہ دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت تھا۔ تب اس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں جوہری ہتھیار تھے۔ یوکرین کو اپنی آزادی کی قیمت جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ تب اپنی اپنی مصلحتوں کی خاطر امریکہ، برطانیہ اور روس تینوں قوتوں نے مل کر یوکرین کو یقین دلایا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کرے‘ ہم اس کی آزادی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اس وقت کی یوکرینی قیادت نے سوچا‘ امریکہ اور برطانیہ یقینا اپنے وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کریں گے۔ اس معاہدے کو ''بڈاپسٹ معاہدہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
9 فروری 1990ء کو یورپ و امریکہ کی اعلیٰ سطح کی قیادت نے گورباچوف سے ملاقات کی جس میں امریکہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ جیمز بیکر نے یقین دہانی کرائی کہ ہم مشرق کی طرف ایک انچ کو بھی نیٹو میں شامل نہیں کریں گے۔ امریکہ، سوویت یونین، جرمنی، برطانیہ اور فرانس میں منظرعام پر آنے والے اس معاہدے کی کاپی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں موجود ہے۔ اپنے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ اور یورپی ممالک نے نیٹو کے فوجی اتحاد میں مزید 14 ممالک شامل کیے۔ ان میں مشرقی یورپ کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جو پہلے روس کے تابع تھے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے اپنے وعدے کی پاسداری نہ کرنے پر روس، امریکہ اور دیگر بڑے یورپی ممالک سے ناراض ہے۔ دوسری طرف یوکرین اس وقت امریکہ سے شدید برگشتہ ہے کہ اسے امریکہ نے بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ یوکرین کی ناراضگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ نے 1990ء میں یوکرین کے جوہری ہتھیاروں کو تحفظ دینے اور اسے ایٹمی طاقت تسلیم کرنے کے بجائے اسے طفل تسلی دے کر تمام ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کردیا تھا۔ اگر آج یوکرین ایک جوہری قوت ہوتا تو صورتحال یقیناً مختلف ہوتی۔
اس ساری صورتحال میں پاکستان کیلئے بڑا اہم سبق ہے۔ اگر آج یوکرین ایٹمی قوت ہوتا تو روس یوں دندناتا ہوا اس پر بمباری اور گولہ باری نہ کرتا اور نہ ہی ٹینکوں کے ساتھ اس کے دارالحکومت اور دوسرے شہروں میں داخل ہوتا۔ کوئی ملک چھوٹا ہو یا بڑا، اگر وہ ایٹمی قوت ہے تو کوئی جارح ملک اس پر حملہ آور نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو اسی لیے انڈیا یا کوئی اور ملک میلی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ وہ ایٹمی قوت ہے۔ ہمیں رب ذوالجلال اور پاکستان کو جوہری قوت بنانے والے محسنوں کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
یہ بات میرے لیے ہی نہیں تمام پاکستانیوں کیلئے یقینا شدید دکھ کا باعث ہوئی جب ہم نے گزشتہ شب پولینڈ کی سرحد پر زاروقطار روتی ہوئی یوکرین میں زیر تعلیم ایک پاکستانی طالبہ کی گفتگو سنی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے نے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ انہیں جو بس پولینڈ کی سرحد تک پہنچانے آئی تھی اس نے انہیں سرحد سے 30 کلومیٹر پیچھے اتاردیا۔ اس نے بتایا ہم تین دنوں سے بھوکے پیاسے منفی دو درجے کی شدید ترین سردی میں پیدل چلتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔ یہاں پر سینکڑوں پاکستانی طلبہ و طالبات‘ دو دنوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ زادِ راہ سے محروم پاکستانی بچوں کی حالت زار کیف میں پاکستانی سفارتخانے اور ہماری حکومت کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میری یورپ میں آباد پاکستانی بھائیوں سے درخواست ہوگی کہ وہ بلاتاخیر پولینڈ اور ہنگری کے راستے سرحدوں اور یوکرین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ اور دیگر پاکستانیوں کی بھرپور مدد کریں۔
روس کی ایٹمی تیاریوں اور جوابی امریکی دھمکیوں سے تادم تحریر جنگ کے شعلے بجھتے نہیں بھڑکتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ خدا خیر کرے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں