فیصلے ایوانوں میں نہیں میدانوں میں ہوں گے؟

ہماری سیاست میں ڈرامائی عنصر بہت زیادہ ہے۔ یہاں عام روٹین کے جمہوری عمل کو بھی ایک سسپنس فلم بنا دیا جاتا ہے۔ بیچارے لوگ دھڑکتے دلوں کے ساتھ اگلے منظر کے منتظر رہتے ہیں اور آخر تک انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ فلم کا کیا انجام ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد کسی بھی جمہوری ایوان کے لیے ایک معمول کی کارروائی ہے۔ دنیا کے جمہوری ایوانوں میں باوقار طریقے سے یہ کارروائی ایوان کے اندر انجام پاتی ہے۔
حکومت نے تحریک عدم اعتماد کی گیم ہاتھ سے جاتے دیکھی تو اسے ایوانوں سے نکال کر میدانوں میں لے آئی ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے ہمارے وزیر اطلاعات نے اپنے لیے مولا جٹ کا کردار کیونکر منتخب کیا ہے اور انہوں نے دھمکی دی ہے کہ 28 مارچ کو ڈی چوک اسلام آباد میں دس لاکھ کے مجمعے کو عبور کرکے کون مائی کا لال ایوان میں جائے گا اور پھر عمران خان کے خلاف ووٹ دے کر واپس اسی مجمعے سے گزرے گا۔ ان کی یہ دھمکی تو صریحاً خانہ جنگی کی دھمکی ہے۔
حکومت کی واضح دھمکیوں اور بڑھکوں پر مولانا فضل الرحمن نے فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم حسبِ پروگرام 23 مارچ کو اسلام آباد پہنچیں گے اور پھر دیکھتے ہیں کہ کون کس کو ایوان میں جانے سے روکتا ہے۔ بعد میں مولانا نے 23 مارچ کو او آئی سی کی اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کے پیش نظر پروگرام میں ترمیم کی۔ اپنے نظرثانی شدہ پروگرام میں مولانا نے کہا ہے کہ عوام کا بحر بیکراں اب 25 مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوگا اور تحریک عدم اعتماد تک وہاں موجود رہے گا۔
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ مگر یہ سچ بھی بیان کرنا پڑے گا کہ اس آگ کو حکمران جماعت نے سلگایا اور اُن کے بعض وزیر اور مشیر اسے مسلسل بھڑکا رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے منگل کے روز حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا نہ صرف بھانڈا پھوڑ دیا بلکہ نہایت ہی درد مندی کے ساتھ بعض گفتنی و ناگفتنی باتوں کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سربراہ حکومت میں سمجھداری کا فقدان ہے، ناتجربہ کاری بہت ہے، نیچے اتریں گے تو بہت کچھ سیکھیں گے‘ انہیں بدلہ لینے کا بڑا شوق ہے، سب کو نیب میں ڈالا۔ اب تک یہی نظر آتا ہے کہ حکومت کی تینوں اتحادی جماعتوں کا واضح جھکائو اپوزیشن کی طرف ہے؛ تاہم بدھ کے روز چودھری پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو میں کہی ہوئی باتوں کی کچھ وضاحت بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس موقع پر بیمار بزرگ سیاستدان چودھری شجاعت حسین نے نہایت دلسوزی کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن سے سیزفائر کرنے اور تحریک عدم اعتماد سے پہلے کے جلسوں اور مارچوں کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ معاملات کو میدانوں سے واپس لے جا کر ایوانوں تک محدود کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومتی کارکردگی کا ایک اتحادی کی زبان سے لیا گیا جائزہ جناب عمران خان کے لیے ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ انہیں خود احتسابی اور اپنی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اندرونِ خانہ کہانی یہ ہے کہ اب خان صاحب والی سے سوالی بن کر اُن اتحادیوں کے گھروں پر بھی دستک دے رہے ہیں جنہیں گزشتہ تین برس کے دوران وہ شاذونادر ہی شرفِ ملاقات بخشتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی اور دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اسمبلی ممبران خان صاحب کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے۔ یہ معزز منتخب ارکان وزیراعظم سے ملاقات کے لیے بیوروکریٹس کی منت سماجت کرتے اور شاہی ہرکاروں کی طرف سے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر سخت نادم و شرمسار ہوتے۔
خان صاحب نے حقیقی معنوں میں ایک روز کے لیے بھی ملک کا وزیر اعظم بن کر نہیں دکھایا۔ وہ جب بھی بات کرتے ہیں‘ ایک اپوزیشن لیڈر کی طرح خطاب کرتے ہیں۔ پارٹیاں دلجوئی اور خوش خلقی سے چلتی ہیں‘ مگر بقول چودھری پرویز الٰہی خان صاحب نے تعلقات بنائے نہیں بگاڑے ہیں۔ دل جیتنے کیلئے خان صاحب نے مرشد اقبال کے ارشاد پر بھی توجہ نہیں کی۔ مرشد نے فرمایا تھا کہ
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
جناب عمران خان کو ایک سے بڑھ کر ایک مہرباں ملا ہے جو سیاسی درجۂ حرارت نیچے لانے کے بجائے اسے مزید اوپر لے جانے کیلئے دھمکیوں اور بڑھکوں سے کام لیتا ہے۔ اس کام میں فواد چودھری اور شیخ رشید احمد یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ جناب اسد عمر بھی ایک دلچسپ شخصیت ہیں۔ پہلے اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ مالی و اقتصادی جینیس ہیں جس میں وہ بری طرح فلاپ ہوئے۔ پھر وہ منصوبہ بندی اور انتظامی جینیس بن کر سامنے آئے اور ناکام ہوئے ہیں اور اب وہ بحیثیت سیاسی جینیس منظرعام پر آئے ہیں۔
جناب وزیراعظم مسلم لیگ (ق) کی قیادت کو منانے کیلئے سرگرداں ہیں اور اُن کے سیاسی جینیس وزیر فرماتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) صرف چند اضلاع کی پارٹی ہے۔ وہ ہم سے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے۔ کسی ناراض ساتھی یا اتحادی کو منانے کیلئے تلخ نوائی کی نہیں دل جوئی اور شیریں بیانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسد عمر صاحب کو کیوں اندازہ نہیں ہو رہا کہ اب وہ پہلے والی صورت حال نہیں جب اُن کی پارٹی کے معاملات کہیں اور سے مینج ہوتے تھے۔
اسد عمر صاحب کو اتنا تو علم ہونا چاہئے کہ دلوں کے آبگینے بہت نازک ہوتے ہیں‘ ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ یوں تو پی ٹی آئی سے متعلق ایک نہیں کئی ماہرین کی مہارت کا بھرم کھلا ہے مگر جس انداز سے اسد عمر کی مالی و انتظامی اور سیاسی مہارت کا بھرم کھلا ہے اس کی کہانی اسداللہ غالب کی زبانی سنیے:
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر طرّئہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
میرے خیال میں اسد عمر صاحب کے قامت کی درازی کا بھرم پوری طرح کھل چکا ہے۔
ہم نے ماہرین قانون سے رجوع کیا تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506 کے تحت کسی کو ڈرانا، اس کی نقل و حرکت کو بزورِ شمشیر روکنا اور اسے جان سے مارنے کی دھمکی دینا نہایت سنگین نوعیت کا جرم ہے‘ جس کی شدید سزا ہے۔ جہاں ایک نہیں درجنوں ارکانِ اسمبلی کو دس لاکھ لوگوں کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جارہا ہو تو اس جرم کی سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس کی یقینا سخت سزا ہوگی۔ جہاں تک چودھری شجاعت حسین اور مولانا تقی عثمانی کی طرف سے سورۃ الحجرات کی آیت نمبر11 کی پیروی کرنے اور لوگوں کا مذاق نہ اڑانے اور اُن کے نام نہ بگاڑنے کی تلقین کا تعلق ہے اس پر خان صاحب نے ابھی تک عمل نہیں کیا۔ آنے والے چند روز بتائیں گے کہ کیا وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن بزرگ سیاست دان چودھری شجاعت حسین کی اس نصیحت کو پلے باندھتے ہیں یا نہیں کہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے جلسے منسوخ کریں اور ملک کو تصادم سے بچائیں۔
اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر عائد ہوتی ہے کہ وہ قائدانہ اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کر کے ارکان اسمبلی کی بحفاظت آمدورفت کو یقینی بنائیں۔ فواد چودھری صاحب کی دھمکیوں کا عدالتوں سے پہلے خود شدید نوٹس لیں، تحریک عدم اعتماد کو میدانوں سے واپس ایوانوں میں لائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں