او آئی سی اجلاس اور موجودہ سیاسی کشمکش

امریکہ کے چند اہل درد پاکستانیوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور شکوہ کیا کہ پاکستانی میڈیا نے او آئی سی وزرائے خارجہ کی کانفرنس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ اُن کا کہنا تھا کہ وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ میں نے شکوہ کرنے والے پاکستانیوں کو بتایا کہ میڈیا اپنی قومی و ملی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور حسبِ موقع اس کا بھرپور اظہار کرتا رہتا ہے؛ تاہم میڈیا کو حکمرانوں اور سیاست دانوں کی طرف سے جس طرح کی خبریں ملیں گی وہ انہیں نمایاں کرنے پر مجبور ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس سے کم از کم آٹھ دس دن قبل جنابِ وزیراعظم کو حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں کے ساتھ سیزفائر کرکے پارلیمنٹ کے فورم سے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کا آغاز کردینا چاہئے تھا؛ تاہم انہی دنوں وزیراعظم کی شعلہ بیانی عروج پہ تھی۔ وہ اپوزیشن کو ضمیر فروش اور چوہے وغیرہ سے کم لقب دینے کو تیار نہیں تھے۔ اشاروں کنایوں سے ریاستی اداروں کو بھی نشانۂ تنقید بنایا۔
23 مارچ سے دو تین روز قبل انہوں نے اپنے ''منحرف‘‘ ارکانِ اسمبلی کو وہ دھمکیاں دیں جن کی توقع ایک وزیراعظم کجا کسی عام ذمہ دار شخص سے بھی نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ان ''منحرف‘‘ ارکان کے بچوں کی شادیاں نہیں ہو سکیں گی اور سکولوں میں اُنہیں نشانۂ تضحیک بنایا جائے گا۔ خان صاحب کے ان شعلہ بداماں بیانات کے بعد پی ٹی آئی کے پرجوش کارکنوں نے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے اپنی ہی پارٹی کے ارکانِ اسمبلی کے گھروں پر دھرنے دینے اور سنگ باری کا سلسلہ شروع کردیا۔ اِن چیختی چنگھاڑتی سیاسی خبروں کے باوجود میڈیا نے او آئی سی کے قیام، تاریخ اور 23 مارچ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ 22 مارچ 2022ء کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے نہایت جرأت مندانہ خطاب کیا۔ انہوں نے اس دردِ مشترک کا اظہار کیا جو ہر صاحب احساس واخلاص مسلمان حکمران اور شہری کے دل میں موجود ہے۔ عمران خان کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ دردوغم کا بیباکی سے اظہار کردیتے ہیں جبکہ دیگر مسلم حکمرانوں کی اکثریت کلمۂ حق کہنے سے ہچکچاتی ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ مسلم ممالک اپنا بلاک بنائیں‘ ڈیڑھ ارب مسلمان امن کیلئے اپنی طاقت استعمال کریں۔ کانفرنس کے میزبان نے سارے اسلامی ممالک کی نمائندگی کرنے والے وزرائے خارجہ کو لگی لپٹی رکھے بغیر باور کرایا کہ مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دینے پر کئی مسلم حکمرانوں نے ٹھوس موقف اختیار کرنے کے بجائے خود کو روشن خیال ظاہر کیا۔ جناب عمران خان کے جذبات اپنی جگہ، چلیے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ انہیں احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے، مگر اسلامی ممالک کی قیادت کا جو حال ہے وہ بھی ان کے پیش نظر رہنا چاہئے۔
منگل کے روز جب پاکستان میں اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کا اہم اجلاس ہورہا تھا عین اس وقت مصر سے ملحقہ بحر احمر کے کنارے تفریحی مقام شرم الشیخ میں ایک سہ رکنی میٹنگ ہورہی تھی جس میں مصری غیرمنتخب فوجی حکمران الفتاح السیسی توجہ کا مرکز بنے درمیان میں بیٹھے تھے جبکہ ان کے دائیں طرف ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زیدالنہیان اور اُن کے بائیں طرف اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینٹ بیٹھے تھے اور باہمی دلچسپی کے موضوعات زیر بحث تھے۔ مصر کی اسرائیل کے ساتھ دو جنگیں ہوئیں: ایک میں اسرائیل غالب رہا اور دوسری 1973ء کی جنگ میں مصر کو فتح حاصل ہوئی‘ مگر اب مصر اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوچکا ہے۔ یو اے ای وغیرہ جیسے کئی امیر عرب ممالک نے بھی چند ماہ قبل اسرائیل سے سفارتی ہی نہیں تجارتی و تعلیمی اور سماجی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں۔
یہ بات خان صاحب سے یقینا مخفی نہیں ہوگی کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں لاکھوں بھارتی ملازمت اور تجارت سے وابستہ ہیں۔ ہر ماہ وہ کروڑوں ڈالرز کا سرمایہ بھارت منتقل کرتے ہیں اور اس سرمائے سے بی جے پی اور مودی جیسے متعصب حکمران کی مدد کرتے ہیں۔ امیر خلیجی ممالک اور سعودی عرب نے انڈیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ اس سرمائے سے چلنے والے کارخانوں میں لاکھوں بھارتی کاریگر اور مزدور کام کرتے ہیں اور فیکٹری مالکان اربوں کا منافع کماتے ہیں۔ مسلمانوں پر بھارتی حکومت انڈیا اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے تو اس پر ہمارے برادر عرب ممالک سے کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے اور نہ ہی بھارت کو کوئی دھمکی دی جاتی ہے۔
جناب عمران خان عالمی فورمز پر اسلاموفوبیا جیسے مسائل اٹھاتے اور مغرب کو انسانی و سیاسی ذمہ داریاں یاد دلاتے رہتے ہیں۔ غالباً 2019ء میں عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے مجبور مسلمانوں کے حق میں ایسی شعلہ نوائی سے کام لیا کہ انہیں نہ صرف اہل کشمیرو پاکستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے زبردست داد ملی مگر بات محض داد تک محدود رہی جبکہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے مصائب میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور اس شعلہ نوائی کے بعد عمران خان نے مسئلہ کشمیر کا کوئی فالواپ کیا اور نہ ہی کشمیر کے لیے سفارتی محاذ پر کوئی مہم چلائی۔
قارئین کو یاد دلا دوں کہ 21 اگست 1969ء کو مسجد اقصیٰ پر ہونے والے یہودی حملے اور اُسے آگ لگانے کے مذموم ارادوں کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں شاہ فیصل شہید کی خصوصی کوششوں سے اسلامی تعاون تنظیم کا قیام وجود میں آیا۔ او آئی سی سے پہلے مصر جیسے بعض ممالک اسے عربوں کا مسئلہ سمجھتے تھے مگر او آئی سی کے قیام کے بعد یہ عالم اسلام کا مشترکہ مسئلہ بن گیا۔ او آئی سی کا دوسرا سربراہی اجلاس پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں 22 سے 24 فروری تک 1973ء میں منعقد ہوا۔
اس کانفرنس میں عالم اسلام کی تقریباً وہ ساری شخصیات تشریف لائیں جو اس وقت کے عالمی منظرنامے پر چھائی ہوئی تھیں۔ ان میں شاہ فیصل، معمر قذافی، انورالسادات، الجزائر کے حوری بومدین، مراکش کے شاہ حسن اور اردن کے شاہ حسین شامل تھے۔ ان سب شخصیات نے تاریخی بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ اس موقع پر شاہ فیصل کی دعا مانگتے ہوئے تصویر ابھی تک بہت پسند کی جاتی ہے۔ اس موقع پر لاہور کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے جو اپنی پُرجوش اور ولولہ انگیز قیادت کی بنا پر عالم اسلام میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ اس موقع پر بھٹو مرحوم نے بڑا پرجوش خطاب کیا‘ عالم اسلام کے حقیقی اتحاد کی ضرورت کو اجاگر کیا اور کشمیر و فلسطین کی آزادی کے لیے عملی اور فوری اقدام کی ضرورت پر بہت زور دیا۔ اسی طرح 26 تا 29 جنوری 1987ء کو کویت میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی ایک معرکہ آرا خطاب کیا اور القدس میں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے عالمی امن کانفرنس کے فوری انعقاد کا مطالبہ کیا۔ سربراہی اجلاس میں جنرل ضیاء الحق کی تجویز پر اسلامی دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
منگل کے روز جناب عمران خان نے ایک الگ اسلامی بلاک کی تشکیل کی تجویز پیش کی۔ عالم اسلام کی سربلندی کے لیے دی گئی خان صاحب کی یہ تجویز بھی ان تجاویز کا تسلسل ہے جو اس سے پہلے پاکستانی حکمران پیش کرتے آئے ہیں مگر ہماری سنتا کون ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں