افغان بیٹی کے آنسو

عائزہ!
جی دادا!
ایک دن اور لاہور میں ٹھہر جائو پھر سرگودھا چلی جانا۔ دادا! میری مِس نے کہا ہے کہ امتحان قریب ہیں اس لیے چھٹی نہ کرنا۔ اس کی ماں عائشہ نے کہا :بیٹا! دادا کی بات مان جائو۔ اس پر ''خدا کی رحمت‘‘ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میں نے عائزہ کو گلے لگایا‘ اسے دعا دی اور کہا: نہیں نہیں بیٹا! ہم تمہیں نہیں روکیں گے۔ تمہاری تعلیم میں ایک دن کا خلل بھی نہیں پڑنا چاہئے۔ بیٹی کے آنسو باپ کو تڑپا دیتے ہیں۔ قارئین کرام! عائزہ صرف چار برس کی ہے اور سرگودھا کے ایک سکول میں نرسری کی سٹوڈنٹ ہے۔ اندازہ لگائیے کہ جن بچیوں کو گزشتہ سات ماہ سے بزورِ شمشیر حصولِ تعلیم سے روکا گیا ہے اُن کی آنکھوں میں آنسوئوں کے کتنے سمندر جمع ہوچکے ہوں گے۔
طالبان نے اگست 2021ء کو کئی برس کی مسلح جدوجہد کے بعد غیرملکی قوتوں کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کردیا تھا۔ برسر اقتدار آنے کے کچھ عرصہ بعد پرائمری سکولوں کی طالبات کے سکول تو کھول دیے گئے مگر گرلز ہائی سکولوں کو تاحکم ثانی بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس دوران داخلی و بیرونی طور پر طالبان حکام سے مذاکرات کیے گئے۔ بیرونِ ملک یو این او جیسے اداروں نے بھی افغانستان کے لیے اپنی امداد کو گرلز ہائی سکولوں کی اجازت کے ساتھ مشروط کر دیا۔ یہ مذاکرات اور دبائو کامیاب رہے اور طالبان نے اپنے اقتدار کے سات ماہ بعد 23 مارچ کو سینئر گرلز سکولوں کو کھولنے کا وعدہ کرلیا۔ اس وعدے کی روشنی میں کابل کے ساتھ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر وسیع تر اقتصادی‘ سیاسی اور فنی تعاون کا آغاز کردیا گیا۔
23 مارچ بدھ کے روز حسبِ وعدہ اور حسبِ پروگرام طالبان حکومت نے افغانستان کے طول و عرض میں گرلز ہائی سکول کھول دیے۔ صبح جب کابل اور دیگر شہروں میں عبایہ اور سکارف زیب تن کیے افغان لڑکیاں اپنے اپنے سکولوں میں پہنچیں تو اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہی تھیں؛ تاہم اُن کی یہ مسرت لمحاتی ثابت ہوئی اور صرف چند گھنٹوں کے بعد ہی یہ اعلان کردیا گیا کہ گرلز ہائی سکول دوبارہ بند کیے جاتے ہیں۔ کابل کے ایک سکول سے سینکڑوں بچیاں باہر آئیں تو آنسو اُن کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ یہ غمناک منظر مسلم و غیرمسلم دنیا نے افسوس اور دل گرفتگی کے ساتھ دیکھا۔ اب وہ شخص جو ایک بیٹی کے آنسو دیکھ کر بے قرار ہو جاتا ہو وہ سینکڑوں بیٹیوں کی نمناک آنکھوں اور اداس چہروں کو دیکھ کر کیسے نہ تڑپا ہوگا۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ طالبان کس شرعی یا عقلی دلیل کی بنا پر ہائی سکولوں کی بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ طالبان آج تک افغان قوم‘ مسلم برادری اورعالمی کمیونٹی کو یہ نہیں بتا سکے کہ وہ تعلیم نسواں کے اتنے شدید مخالف کیوں ہیں۔
طالبان جس دینی مکتب فکر سے تعلق کے دعویدار ہیں اور پاکستان کے جن دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں وہ تو بچوں کی طرح بچیوں کی بھی ہر مرحلے کی تعلیم کے علمبردار ہیں۔ 26 مارچ کو ہم نے اسی مکتب فکر کے ایک جید عالم مولانا محمد حنیف جالندھری کہ جو پاکستان کے ایک بڑے شہر کے دینی مدرسے کے مدیر اور وفاق المدارس کے اعلیٰ عہدیدار ہیں‘ سے طالبان کے اس طرزعمل کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ بھی اس حکم کی حکمت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مولانا کے ارشاد کے مطابق ایک دوٹوک حدیث ہے کہ طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمہ‘ یعنی حصولِ علم ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے ایک فریضہ ہے۔ پاکستان کے اس نامور عالم دین نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں وفاق المدارس کے تحت آنے والے مدارس البنات کی تعداد مدارس البنین کے مقابلہ میں دوگنا ہے۔
اہلِ علم ہی نہیں دینی مدرسے کا عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فقیہ الامت تھیں‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فقیہہ و مفتیہ تھیں‘ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پڑھنا لکھنا جانتی تھیں۔ حضرت خنساء عربی زبان کی نامور شاعرہ تھیں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ کی عورتوں نے جناب رسالت مآب ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لیے بھی ایک دن مقرر فرمائیں اور ہمیں بھی اسی طرح تعلیم دیں جیسے آپ مردوں کو دیتے ہیں۔ جناب مصطفی ﷺ نے عورتوں کی اس درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا اور یوں مسجد نبوی میں آپ ﷺنے عورتوں کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز فرما دیا۔ اس عظیم آغاز کے بعد اسلامی معاشروں میں تعلیم ِنسواں کا ہر جگہ فروغ ہونے لگا۔
26 مارچ ہفتے کے روز کابل کی درجنوں طالبات و خواتین نے وزارتِ تعلیم کے سامنے مظاہرہ کیا اور گرلز ہائی سکولوں میں بلاتاخیر تعلیم کے اجرا کا مطالبہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے گزشتہ سات ماہ کے تعطل سے ان کا ناقابل تلافی نقصان ہو چکا ہے۔ اس احتجاج کی خبر بھی دنیا میں ہر جگہ تشویش سے سنی گئی۔ ہفتے ہی کے روز کابل ایئرپورٹ پر اندرون و بیرونِ ملک جانے والی پروازوں میں عورتوں کو مرد محرم کے بغیر سفر سے روک دیا گیا۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جن کے پاس دہری شہریت ہے۔
انہی دنوں دوحہ میں طالبان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو امریکہ نے منسوخ کردیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق طالبان کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے اور انہوں نے افغان عوام اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے‘ اسی وجہ سے ہم اُن کے ساتھ دوحہ میں کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ان مذاکرات میں اہم اقتصادی و سیاسی معاملات پر مثبت پیش رفت ہوگی۔
اس وقت افغانستان کے لیے دو معاملات سب سے اہم ہیں۔ ایک ابتر اقتصادی صورتِ حال کی اصلاح اور دوسرے دیگر ملکوں کو طالبان حکومت تسلیم کرنے پر قائل کرنا۔ ابھی تک کسی ایک ملک نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ ایک ملک قحط کے اندیشے سے دوچار ہو‘ اس کا کوئی اقتصادی سٹرکچر موجود نہ ہو اور اُس کا مستقبل بھی غیرواضح ہو تو وہ ہر طرح کے اہم معاملات کو نظرانداز کرکے محض تعلیم نسواں کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائے تو یہ ناقابل فہم ہے۔
تعمیرِنو کے اس مرحلے پر ہر افغان مردوزن کو شب وروز جانفشانی کے ساتھ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ قالین بافی اور کمپیوٹر وغیرہ کے شعبوں میں افغان خواتین کام کر سکتی ہیں۔ اگر خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے روک دیا جائے تو کیا عورتوں کے امراض کا بھی مرد ہی علاج کریں گے؟ جب آدھی آبادی جاہل اور بے ہنر رہے گی تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بیروزگار مردوں کو اپنا ہی نہیں آدھی غیرتعلیم یافتہ آبادی کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔
اس وقت پاکستان کی حکومت اور طالبان سے نیک خواہشات وابستہ کرنے والی دینی و سیاسی شخصیات کو چاہئے کہ وہ اُنہیں قائل کریں کہ اسلام میں عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کا قطعاً کوئی شرعی و دینی جواز نہیں ہے۔ طالبان کو چاہئے کہ وہ ساری توجہ دنیا سے اپنی حکومت منوانے پر مبذول کریں اور گلوبل ویلج کے ثمرات سے فیضیاب ہوں۔ طالبان بھائی تعلیم ِنسواں کے حوالے سے فی الفور اپنے رویئے پر نظرثانی کریں اور افغان بیٹیوں کو یقین دلائیں کہ اب کسی بیٹی سے زیورِ تعلیم نہیں چھینا جائے گا اور نہ ہی کسی بیٹی کی آنکھوں سے آنسو ٹپکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں