تماشا ختم ہونے والا ہے!

حجرۂ درویش سے آنے والی صدا نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تماشا اور ڈرامہ ختم ہونے والا ہے۔ بہت کچھ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
(جناب افتخار عارف)
قارئین کرام! پل پل بدلتی سیاسی صورت حال کے پیش نظر ایک کالم قلم زد کر چکا ہوں۔ تادمِ تحریر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا ہے اور ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ جناب عمران خان کے سامنے نوشتۂ دیوار بھی ہے اور نوشتۂ تقدیر بھی لیکن تیسری دنیا میں ایک فانی انسان کرسیٔ اقتدار پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو وہ پہلے لمحے سے ہی ایک ایسی غیر مرئی عینک پہن لیتا ہے جو اسے اندھیری شب کو سپیدۂ سحر میں تبدیل کر کے دکھا دیتی ہے۔
آج جمعرات 31 مارچ کی صبح تک اپوزیشن کے ووٹوں کی قومی اسمبلی میں تعداد 197 ہو چکی ہے۔ جانے والے کو آپ منت سماجت سے تو روک سکتے ہیں مگر کبھی کوئی بزورِ شمشیر نہ رکا ہے نہ اسے روکا جا سکا ہے‘ مگر جناب عمران خان اپنے ''منحرفین‘‘ کو دھمکیوں کے ذریعے واپس لانے کے لیے ابھی تک کوشاں ہیں۔
دمِ واپسیں ایک حکمران کو اُن وعدوں کا حساب دینا پڑتا ہے جو اُس نے ووٹ لیتے ہوئے عوام سے کیے ہوتے ہیں۔ آپ چار سالہ کارکردگی کی بات چھیڑیں گے‘ وہاں سے کسی ''عالمی سازش‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کر دیا جائے گا۔ جناب عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے دلکش نعرے لگائے تھے۔ انہوں نے ایک ایسی دنیا کا نقشہ پیش کیا تھا جہاں ہر شے نہایت سستے داموں دستیاب ہوگی۔ انہوں نے عدل و انصاف کے شعبے میں ایسی اصلاحات لانے کی نوید سنائی تھی کہ جس کے بعد انصاف آپ کے در پر دستک دے گا اور آپ کو داد فریاد کے لیے کہیں جانا نہیں پڑے گا۔ انہوں نے ایک ایسی سوسائٹی کی بات کی تھی جہاں کوئی ظالم کسی کا حق چھین سکے گا اور نہ ہی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جائے گی۔ مگر اِن میں سے ایک وعدہ بھی وہ پورا نہیں کر سکے۔
انہوں نے پولیس اور محکمہ مال میں انقلابی اصلاحات لانے کی خوشخبری بھی سنائی تھی۔ انہوں نے ایک خواب یہ بھی دکھایا تھا کہ ہر شخص جو ہنرمند ہوگا یا بے ہنر اسے روزگار دیا جائے گا۔ انہوں نے اپنی قوم کو یہ نوید بھی دی تھی کہ ملک میں بے پناہ سرمایہ کاری ہوگی۔ طرح طرح کی فیکٹریاں اور ملیں لگیں گی، اُس کے بعد ملک میں روزگار کے مواقع ان گنت ہوں گے لہٰذا دوسرے ملکوں سے روزگار کے متلاشی پاکستان آئیں گے۔ گویا اس دکھیاری قوم کی قسمت بدل جائے گی۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
خان صاحب نے نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر بہت زور دیا تھا۔ انہوں نے پاکستانیوں کو بتایا تھا کہ مرشد اقبال کی نصیحت کو پلّے باندھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ مرشد اقبال نے فرمایا تھا:
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
جناب عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں اقتدار کی کوئی ہوس نہیں۔ وہ دنیا کی ہر کامیابی اور نعمت سے سرفراز ہوچکے ہیں اس لیے اُن کے نزدیک اقتدار مقصود بالذات نہیں بلکہ قوم کی قسمت بدلنے کا ایک ذریعہ ہے‘ مگر چار سالہ دورِ اقتدار کو جاتا دیکھ کر وہ جس طرح سے بے چین ہوئے پھرتے ہیں اُس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا اوّل و آخر مطلوب و مقصود کرسیٔ اقتدار تھی۔
27 مارچ کے تاریخی جلسے میں وہ قوم کو کوئی بہت بڑا سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ اُن کے بہت سے مداحوں کا خیال تھا کہ اس موقع پر وہ اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہ کر سکنے اور قوم کی پلکوں میں آویزاں کیے گئے خوابوں کو خوابِ پریشاں بنانے کے بارے میں اپنی توجیحات پیش کریں گے مگر انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ایک لیٹر لہرایا اور اس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا کہ انہیں کسی قوت کی طرف سے دھمکی دی جا رہی ہے۔
ہر کھلاڑی، ہر فنکار، ہر مقرر اور ہر سیاست دان کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ when to stop۔ خان صاحب خود کھلاڑی رہے ہیں اور ایک نہایت مناسب وقت پر انہوں نے کھیل سے ریٹائرمنٹ لی تھی۔ اب میرے خیال میں سیاسی صورت حال کو دیکھ کر اُنہیں مناسب فیصلہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک خان صاحب کا تعلق ہے وہ کبھی عوامی جلسوں سے امید لگاتے ہیں، کبھی صدارتی ریفرنس کے تنکے کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی وہ کسی بیرونی قوت کی طرف سے لکھے گئے یا اُن کے کہنے پر تحریر کردہ خط کے ساتھ اپنی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے خان صاحب کو یاد دلایا ہے کہ جس طرح کے خط کا وہ ذکر کر رہے ہیں یہ ایک حساس قومی دستاویز کے زمرے میں آتا ہے‘ لہٰذا خان صاحب اسے پبلک نہیں کر سکتے۔ اب یہ سننے میں آ رہا ہے کہ خان صاحب شاید پارلیمنٹ کے اِن کمرہ اجلاس میں اس خط کا ذکر کریں۔ خان صاحب نے بدھ کے روز سینئر صحافیوں کو خط کے مندرجات سے آگاہ کیا۔
جناب عمران خان نے عملاً امریکہ یا یورپ کی پالیسیوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا اس لیے یہ قوتیں خان صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کیونکر سازش کریں گی؟ بعض سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حساس معاملات میں کوئی چھوٹا بڑا ملک براہِ راست کسی کسی سربراہِ حکومت کو تحریری طور پر دھمکی نہیں دیتا۔ اگر انہیں کوئی بات حکومت تک پہنچانی مقصود ہوتی ہے تو اُس کے لیے اُن کے پاس ایک سو ایک طریقے ہوتے ہیں۔
جس معمے کو میں ابھی تک سلجھا نہیں سکا وہ یہ ہے کہ جناب عمران خان نے اپنے آپ کو ذوالفقار علی بھٹو سے تشبیہ کیوں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمران خان صاحب کو بھٹو جیسے انجام سے محفوظ رکھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ٹریجڈی کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے سیاست کے تقاضے نہ سمجھنے اور اپوزیشن پارٹیوں سے بروقت اور با مقصد مذاکرات کرنے سے اجتناب کیا تھا جس کے نتیجے میں تیسری قوت کو مداخلت کا موقع مل گیا اور باقی ساری تاریخ ہے۔
جناب عمران خان کے دورِ اقتدار کا خلاصہ تین چیزیں ہیں: ایک غم و غصہ، دوسری بلند ترین قیمتیں، اور تیسری ''نہیں چھوڑوں گا‘‘ والی پالیسی۔ عمران خان نے سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی کا رنگ دے دیا تھا‘ جس پر وہ تادمِ تحریر قائم ہیں جبکہ اُن کی اقتدار سے رخصتی نوشتۂ دیوار بھی ہے اور نوشتۂ تقدیر بھی۔ کاش خان صاحب اس نوشتے کو پڑھنے میں کامیاب ہو جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں