رمضان کی رحمتیں اور برکتیں

یوں تو حرمین شریفین کی یادیں کبھی ہمارے دل سے محو نہیں ہوتیں مگر رمضان المبارک میں وہاں کی رحمتیں اور رونقیں بہت یاد آتی ہیں۔ ارضِ مقدس پر انوارو برکات کا نزول رمضان میں بہت بڑھ جاتا ہے کیونکہ ہزار مہینوں سے افضل لیلۃ القدر بھی اسی مہینے میں جلوہ فگن ہوتی ہے۔ آج ہم نے یہ سوچا ہے کہ اہلِ وطن بالخصوص اپنے قارئین کو بتائیں کہ سعودی عرب اور ترکی میں رمضان کی عبادات کو اپنے اپنے کلچرل رنگ میں کیسے پُررونق بنایا جاتا ہے۔
مسجدالحرام مکۃ المکرمہ میں روزہ داروں کی افطاری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم مسجد نبوی میں ضیوف الرحمن اور ضیوف مصطفی ﷺ کی جس انداز سے مہمان نوازی کی جاتی ہے اس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ سعودی عرب میں اپنے طویل قیام کے دوران عمرے اور زیاراتِ روضہ رسولﷺ کے کئی مواقع نصیب ہوئے۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
چلئے آغاز مسجد ِقبا سے کرتے ہیں۔ یہ زیارت مسجد نبوی کے لیے میرے ایک سفر کی روداد ہے۔ رسول اللہﷺ نے مکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا اسے طریق الہجرہ کہتے ہیں۔ یہی طریق جو کبھی ایک ریتلی اور پتھریلی گزرگاہ تھی اب یہ ایک شاندار دوطرفہ وسیع و عریض موٹروے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سعودی موٹروے پولیس کی طرف سے حدِرفتار ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر کی گئی تھی تاہم شوقِ سفر اکثر اس حدرفتار کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے‘ بالخصوص جب مسافرِ شوق خود گاڑی بان ہو نیز تیزرفتار راستہ اور عمدہ گاڑی بھی تیز تر سفر کے لیے مہمیز کا کام دیتے ہیں۔ مکۃ المکرمہ سے شروع ہونے والا موٹروے مدینہ منورہ میں مسجد قبا پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ وہی قبا ہے جس کے باشندوں نے ہجرت کے موقع پر آقاﷺ کے استقبال کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کر رکھے تھے۔ اور جب انہوں نے آپﷺ کی اونٹنی کو کئی دنوں کے انتظار کے بعد قریب آتے دیکھا تو بچیوں نے والہانہ انداز میں یہ ترانۂ استقبالیہ گانا شروع کر دیا۔ ترانے کے الفاظ کچھ یوں تھے:
طلع البدر علینا ... من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ... ما دعا للہ داع
مختلف ادوار میں مسجد نبوی کی توسیع و تزئین کی گئی‘ تاہم سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے اپنے دورِ حکومت میں اس مسجد کی تاریخ میں سب سے بڑا توسیعی منصوبہ اپنی زیر نگرانی مکمل کروایا۔ ہم جب قبا پہنچے تو اذانِ مغرب ہو چکی تھی اور مسجدکے اندر اور باہر روزہ دار روزہ افطار کر رہے تھے۔ مسجد کے وسیع صحن میں عوامی دسترخوان پر سینکڑوں دوسرے روزہ داروں کے ساتھ ہم نے انواع و اقسام کی نعمتوں کے ساتھ روزہ افطار کیا اور رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا۔ مسجد نبوی میں حاضری اور نمازِ عشا کی ادائیگی کے لیے گاڑی میں ایک بار پھر رواں دواں ہو گئے۔
مسجد نبوی کے اندر اہلِ مدینہ کے کئی خاندان پشتوں سے رمضان المبارک کی افطاری کے لیے دسترخوان لگاتے چلے آرہے ہیں۔ ان دسترخوانوں کی سب سے نمایاں خوبی وہ مہمان نوازی اور خوئے دل نوازی ہے جو اہلِ مدینہ کا خاصہ ہے۔ اس مہمان نوازی کا مظاہرہ مسجد نبوی کے میزبان نہایت گرم جوشی سے کرتے ہیں۔ وہ حاجی حاجی کی صدائیں لگا کر مہمانوں کی منت سماجت کرتے ہیں کہ وہ اُن کے دسترخوان کو رونق بخشیں۔ مسجد نبوی کے اندر مہمانوں کی تواضع کھجور‘ قہوے‘ دہی‘ زعتر اور شامی روٹی سے کی جاتی ہے۔ فلسطین و شام سے آنے والے ایک مزیدار مسالے کو زعتر کہا جاتا ہے۔ یہی زعتر دہی پر چھڑکا جاتا ہے جس سے دہی بہت ہی خوش ذائقہ ہو جاتا ہے۔
اس مختصر افطاری سے طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے اور بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا جس کی بنا پر رکوع و سجود کی ادائیگی میں کسی طرح کی غنودگی طاری نہیں ہوتی۔ حرم نبوی کی انتظامیہ کی طرف سے پابندی لگائی گئی ہے کہ کوئی روزہ دار اپنے ساتھ کھانے کی کوئی شے مسجد کے اندر نہ لے جائے۔ اس ضابطے کا پاکستانی بھی احترام کرتے ہیں البتہ مسجد کے اندر وہ ''پکوڑوں کی سمگلنگ‘‘ کو خلافِ ضابطہ نہیں سمجھتے۔
رمضان المبارک کے دوران سعودی عرب میں رات کو دن کا سماں ہوتا ہے۔ وہاں کے شہروں میں تو زیادہ نہیں مگر بادیہ میں ایک نہایت دلکش روایت اس ماہِ مقدس کے دوران دیکھی جاتی ہے۔ بادیہ کا نام صحرائی دیہاتوں کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ ان صحرائی بستیوں میں رواج یہ ہے کہ آبادی کے وسط میں کسی مناسب جگہ پر قالینوں اور شامیانوں کا اپنی مدد آپ کے ذریعے بندوبست کیا جاتا ہے جہاں عصر کے قریب چائے قہوہ اور دیگر لوازمات کی تیاری کے لیے آگ جلائی جاتی ہے۔ اس محفل میں ہر شخص حسبِ ذوق اور حسبِ استطاعت گھر سے کچھ نہ کچھ لاتا ہے اور پھر ایک دسترخوان بچھا کر اس پر یہ نعمتیں اور پکوان چن دیے جاتے ہیں اور اذانِ مغرب کے ساتھ افطاری کی جاتی ہے اور پھر یہ محفل شب بھر آباد رہتی ہے اور خورونوش کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بدو خواتین بھی اسی طرح کی محفلیں اپنی اپنی آبادیوں میں سجا لیتی ہیں۔ ''آگ‘‘ ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔
رمضان المبارک کے تیس روز ترکی میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ وہ اسے جشنِ رمضان کہتے ہیں۔ ترکی کے سیاسی نظام کی مضبوطی کا ایک بڑا سبب اس کا بااختیار بلدیاتی نظام ہے۔ ترکی کی پانچ بڑی پارٹیاں ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کوئی ایک بڑی پارٹی نہیں جیتتی بلکہ ہر علاقے میں مختلف پارٹیاں جیت کر سامنے آتی ہیں اور وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ اس طرح پارٹیوں کے درمیان صحت مندانہ مسابقت جاری رہتی ہے۔ آغازِ رمضان سے ہر تحصیل‘ قصبہ حتیٰ کہ یونین کونسل کی سطح پر رمضان میلے لگائے جاتے ہیں جہاں زیادہ تر ''جدیدوقدیم‘‘ خواتین دستکاری کے شاہکار فروخت کے لیے پیش کرتی ہیں۔
ہر علاقے کی بلدیہ روزہ داروں کی باعزت افطاری کا‘ میزیں لگا کر اہتمام کرتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روزہ داروں کی افطاری کا یہ اہتمام اسلامک و سیکولر‘ ہر طرح کی پالیسی رکھنے والی جماعتوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ رمضان میں شہروں اور بازاروں کو ہی نہیں بلکہ مساجد کو بھی بقعہ نور بنایا جاتا ہے۔ مساجد میں ملکی جھنڈے بھی لہرائے جاتے ہیں۔ ترکی کا کمال یہ ہے کہ وہاں مذہب اور قوم ہم آہنگ ہیں‘ لہٰذا مذہبی عبادات اور تہواروں کو قومی سطح پر نہایت شوق و ذوق کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ترکی کے مرکزی علاقے کے اردگرد کے پارکوں میں ایک اور بھی دل خوش کن منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ وہاں کئی کئی خاندان افطاری سے قبل اپنے اپنے چولہے اور سامانِ خورونوش لے آتے ہیں اور شب بھر کھانے پینے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نعتیں‘ ملّی نغمے اور ترانے لَے میں پڑھنے اور گانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ترکی کے اکثر شہروں میں توپوں سے گولے داغ کر افطار کا اعلان کیا جاتا ہے۔ استنبول اور کئی دوسرے شہروں میں ابھی تک گلیوں اور محلوں میں روایتی ڈھول والے پھرتے ہیں۔ وہ ڈھول بجا بجا کر روزہ داروں کو جگاتے اور پھر اختتام رمضان پر آکر اپنی عیدی وصول کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی محدود پیمانے پر افطاریوں کا انتظام کیا جاتا ہے مگر کوئی اجتماعی اہتمام نہیں ہوتا۔ روزہ ایک پُرمشقت عبادت ہے؛ تاہم اسے ایک جشن بنا دیا جائے تو شوق و ذوق بڑھ جاتا ہے اور روزے کی کلفت کم ہو جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں