فریادی

اسی کرۂ ارض پر بہت سے جمہوری ممالک میں آئین فائنل اتھارٹی ہوتا ہے جبکہ کچھ ملکوں میں آئین کبھی فریادی اور کبھی سوالی ہوتا ہے۔ پاکستان میں تین آمروں نے آئین کو کلی یا جزوی طور پر پامال کیا۔ ایوب خان نے 1956ء کے متفقہ آئین پر خط تنسیخ پھیر دیا اور پھر 1962ء کا ''چوک گھنٹہ گھر فیم‘‘ آئین نافذ کر دیا۔ ضیاالحق مرحوم نے دستور کے بارے میں کہا تھا کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کا ایک پرزہ ہی تو ہے۔ یہی کام پرویز مشرف نے بھی کیا؛ تاہم اس بار آئین شکنی کا سہرا ایک سول ڈکٹیٹر عمران خان کے سر بندھتا ہے۔ وہ یکے بعد دیگرے جس طرح سے آئین پاکستان کو مرکز اور پنجاب اسمبلی میں پائوں تلے روند رہے ہیں اُس سے تو یہ لگتا ہے کہ وہ نازی ڈکٹیٹر ہٹلر کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔
2 اپریل کو علی الصبح مجھے ایک عزیزہ کے جنازے میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا پڑا۔ سہ پہر کو تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر میں نے مولانا فضل الرحمن صاحب کو فون کیا۔ انہوں نے فرمایا 6 بجے کے قریب آ جائیں۔ میں اور میرا بیٹا سلمان طے شدہ وقت پر مولانا کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ مولانا حسب معمول نہایت تپاک اور محبت سے ملے۔ میں نے عرض کیا: مولانا! کیا صورتحال ہے۔ مولانا نے مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مرکز اور پنجاب اسمبلی میں ہمیں واضح برتری حاصل ہے۔
میں نے بعض موہوم معلومات کی بنا پر ملفوف انداز میں عرض کیا کہ عمران خان قومی اسمبلی میں ''سرپرائز نمبر2‘‘ دے سکتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا: اگر وہ ایسا کریں گے تو اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماریں گے۔ آئین کے مطابق 3 اپریل کو سوائے ووٹنگ کے اور کوئی کام نہیں ہو سکتا؛ تاہم قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ جس طرح سے مولانا صاحب کے لیے غیرمتوقع تھا اُسی طرح ساری قوم کے لیے بھی غیر متوقع ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسی روز سوموٹو ایکشن لیا اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اپنی تمام تر توجہ اس نکتے پر مرکوز کر رکھی ہے کہ کیا قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین کے مطابق ہے یا آئین کے منافی۔ مجھے انتہائی واجب الاحترام بزرگ قانون دان ایس ایم ظفر کے صاحبزادے علی ظفر کی باتیں سن کر تعجب ہوا۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کی کسی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پوچھا کہ اگر یہ رولنگ آئین شکنی پر مبنی ہو تو کیا پھر بھی عدالت اس کا جائزہ نہیں لے سکتی؟ اس پر بیرسٹر صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔
بعض عالی دماغ قانون دانوں سے میں نے پوچھا کہ ڈوبتی ہوئی حکومت نے آخری لمحات میں آرٹیکل 5 کے تنکے کا سہارا لیا۔ اس کی کیا حیثیت ہے؟ ملک کے ایک بہت نامور قانون دان نے بتایا کہ حکومت کو جس کسی نے اس آرٹیکل کا سہارا لینے کا مشورہ دیا وہ قانون کا کھلاڑی نہیں کوئی اناڑی ہے۔
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
آئین کے آرٹیکل 5 کی دو شقیں ہیں۔ پہلی شق میں یہ لکھا ہے کہ مملکت سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے۔ یقینا اس قومی فریضے سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اسی آرٹیکل کی شق نمبر 2 کے مطابق قانون و آئین کی پاس داری کا فرض ہر شہری پر عائد ہوتا ہے۔ پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت سے سپیکر یا ڈپٹی سپیکر بھی ماورائے آئین کوئی رولنگ نہیں دے سکتا۔
گزشتہ دو تین ہفتوں سے جناب عمران خان نے مختلف حیلوں بہانوں سے تحریک عدم اعتماد کے دستوری عمل کے آگے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ کبھی عوامی جلسے جلوسوں کے ذریعے، کبھی ''دھمکی آمیز مبہم خط‘‘ کے ذریعے، کبھی اپنے علاوہ ہر کسی کی ریاست سے وفاداری پر سوالیہ نشان لگا کر۔ پنجاب اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس کو روکنے کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے ہیں اُن کی نظیر پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ممبرانِ اسمبلی کا ایوان میں داخلہ روکنے کے لیے چاروں طرف خاردار تار لگائے گئے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی ایک تجربہ کار سیاست دان ہوتے ہوئے بھی خان صاحب کے آمرانہ طریقے پر چل پڑے ہیں۔
عمران خان کے دھمکی آمیز بیانات کا سب سے بڑا نقصان معیشت کو پہنچا ہے۔ ڈالر 189 روپے کا ہو گیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی پیدا ہو چکی ہے۔ پہلے ہی اشیائے صرف کی قیمتیں ناقابل برداشت تھیں، اب ساتویں آسمان پر جا پہنچی ہیں۔
خان صاحب نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے ''امریکی دھمکی‘‘ کا جو بہانہ نعرے کے طور پر اختیار کیا ہے اس کا کسی اور کو تو کوئی نقصان ہو گا یا نہیں، سب سے بڑا نقصان پاکستان کو پہنچ رہا ہے۔ 7 مارچ کو معمول کی ایک سفارتی کیبل امریکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ایک پاکستانی سفیر اسد مجید نے وزارتِ خارجہ کو بھیجی۔ خان صاحب نے پورے بیس روز اس کیبل پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اُس وقت تک انہوں نے اس کا ذکر نہ پارلیمنٹ میں کیا، نہ نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا، اور نہ کسی حکومتی فورم پر اس پر کسی تشویش کا اظہار کیا‘ لیکن 27 مارچ کو ایک جلسہ عام میں نہایت ڈرامائی انداز میں مجمع عام کے سامنے یہ خط ہوا میں لہراتے ہوئے یہ کہا کہ ہمیں ایک ملک نے دھمکی دی ہے۔
امریکہ تو دو بار اس کی تردید کر چکا ہے کہ ہم دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں کرتے‘ نیز ہم پارٹیوں سے نہیں ریاستی و حکومتی اداروں سے بات چیت کرتے ہیں۔ اب بتائیے‘ ہم کیسی قوت ہیں کہ ہم نے اپنے امور خارجہ کو دوسری قوتوں کے ہاتھ میں دے کر ساری دنیا میں اپنا مذاق بنا رکھا ہے۔ امریکہ نے ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کی تھی یا نہیں اس کا فیصلہ تو کسی نہ کسی فورم پر ہو جائے گا مگر ہمارے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے نتیجے میں دوتین روز قبل روس نے شاید ہمارے داخلی و خارجی معاملات میں واضح مداخلت کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ عمران کو دورۂ ماسکو کی سزا دی گئی اور اس سزا کے طور پر پاکستانی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی۔
روسی وزارتِ خارجہ کے بیان پر پاکستانی وزارتِ خارجہ اور اپوزیشن کو شدید احتجاج کرنا چاہئے۔ کسی پاکستانی حکمران کا یہ پہلا دورۂ روس نہ تھا۔ اس بات کا فیصلہ ہونا چاہئے کہ کیا پاکستانی امریکہ کے بے دام غلام ہیں کہ اُس کے کہنے پر قومی اسمبلی کے تقریباً 200 ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔ تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن گزشتہ سال ڈیڑھ سال سے خاموشی کے ساتھ کام کر رہی تھی۔
اِکّا دُکّا تجزیہ کار یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کا ایکشن تو غیر آئینی و غیر دستوری ہے مگر اس پر ''مٹی پائو‘‘ اور آگے عارضی حکومت کی طرف چلو۔ ہم گزشتہ ستر پچھتر سال سے ''مٹی پاتے پاتے‘‘ اور ''نظریۂ ضرورت‘‘ کا سہارا لیتے لیتے اس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کے ہر ذمہ دار اور سمجھدار شہری کا مطالبہ ہے کہ اب نظریۂ ضرورت کو دفن ہو جانا چاہئے اور ہمیشہ کے لیے آئین کی بالا دستی قائم ہو جانی چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں