عمران خان کا دورِ حکومت

کوئی مانے یا نہ مانے ہمیں عمران خان کی کوچۂ اقتدار سے یوں واپسی کی خوشی نہیں افسوس ہوا۔ بلاشبہ عمران خان نے بیس بائیس برس تک سیاسی و سماجی انقلاب لانے کی زبردست جدوجہد کی۔ ورلڈ کپ وِنر کپتان سے اہلِ وطن بہت محبت کرتے تھے‘ بہت سے آج بھی کرتے ہیں۔
عمران خان کی مقبولیت کے ایک نہیں کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب کرکٹ‘ دوسرا ان کی کرشماتی شخصیت اور تیسرا کینسر ہسپتال کے ناقابل یقین منصوبے کی تکمیل تھا۔ خان کی سیاسی جدوجہد کے آغاز میں انہیں بہت کم پذیرائی ملی؛ تاہم بدلتے ہوئے شب وروز کے ساتھ ساتھ عمران خان نے عوام کی پلکوں میں وہ خواب آویزاں کیے جو پہلے سے ہی اُن کے دل میں انگڑائیاں لے رہے تھے۔
ہر دل نے یہ جانا کہ جو خان کہہ رہا ہے یہی تو اس کے اپنے دل کی صدا ہے۔ یوں عمران خان کھیل میں ہی نہیں سیاست میں بھی قوم کے ہیرو بنتے چلے گئے۔ آغاز میں خان صاحب میں سادگی بھی تھی اور سادہ دلی بھی۔ جدوجہد کے پہلے چند سالوں میں خان کے دل میں اقتدار کے لیے ہوس نہیں تھی بلکہ اُن کی تحریک میں سماجی خدمت کا پلڑا بھاری تھا۔
2002ء میں قائم ہونے والی اسمبلی میں عمران خان پی ٹی آئی کے اکلوتے ممبر تھے۔ وہ پارلیمنٹ لاجز کی ایک لاج میں رہائش پذیر تھے اور اپروچ ایبل تھے۔ وہاں پر میری اُن سے دوسری ملاقات ہوئی جبکہ اُن سے پہلی ملاقات جدہ میں احسن رشید مرحوم کے دولت کدے پر ہوچکی تھی۔ اس وقت تک عمران خان اصول پسندی کی سیاست کو دنیا کی ہر شے پر ترجیح دیتے تھے۔ تب ان کی گفتگو میں تلخ نوائی کم اور دردمندی زیادہ تھی۔ اس وقت تک وہ غیظ و غضب اور غصے سے کھولتی ہوئی شخصیت نہ تھے۔ وہ پرمزاح جملوں کو خندہ روئی سے سنتے اور اس پر مسکراتے بھی تھے۔
خان کے سیاسی تصورات اور سیاسی اصول پسندی سے عملیت پسندی کی طرف شفٹ کب ہوا؟ مجھے لگتا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں بائیکاٹ کرنے کے بعد عمران خان نے ''عملی سیاست‘‘ کے تقاضے سمجھنے اور اُن کے ساتھ سمجھوتے کا دل میں تہیہ کرلیا۔ اکتوبر 2011ء میں لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد عمران خان نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر وہ ایک بار کسی نہ کسی طرح انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ راتوں رات وہ اصلاحات نافذ کر دیں گے جن کے خواب وہ برسوں سے خود بھی دیکھ رہے تھے اور عوام کو بھی دکھا رہے تھے۔
خاردارِ سیاست میں عملی تقاضوں سے سمجھوتے کا سفر تو 2011ء سے شروع ہوچکا تھا؛ تاہم 2013ء میں خان صاحب کو حسبِ منشا انتخابی کامیابی نہ ملی تو انہوں نے مزید بہت سے کمپرومائزز کرلیے۔ 2018ء کے انتخابات میں بانی و نظریاتی ممبران کو اسمبلی ٹکٹ دینے کے بجائے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینے کا اصولی فیصلہ ہوگیا۔ غیبی امداد سے بھی اونچی اونچی توقعات وابستہ کر لی گئیں اور سیاسی مخالفین کی بلاثبوت بہ آوازِ بلند کردارکشی شروع کردی گئی۔
2018ء کی انتخابی مہم میں خان صاحب نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ نئے پاکستان میں وہ دودھ اور شہد کی نہریں نہ بھی بہا سکے تو پھر بھی ہر طرف خوشحالی اور ہریالی ہی ہریالی ہوگی۔ آئی ایم ایف جانے کے بجائے میں خودکشی کرلوں گا۔ پولیس ریفارمز ہوں گی‘ انصاف گھروں کی دہلیز پر مہیا کیا جائے گا‘ کرپشن کو تین ماہ میں ختم کر دیا جاے گا۔ سیاست دانوں کے فارن اکائونٹس سے سینکڑوں بلین ڈالرز لے کر آئیں گے تو ملکی خزانہ لبالب بھر جائے گا۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دیں گے۔ سبز پاسپورٹ دنیا کا مقبول ترین پاسپورٹ بن جائے گا۔ لوگ بیرونِ ملک سے نوکریاں لینے یورپ‘ امریکہ جانے کی بجائے پاکستان آئیں گے۔
خان صاحب کرنے کیا آئے تھے اور اب پونے چار سال بعد کیا کرکے جا رہے ہیں۔ وہ مذکورہ بالا وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کر سکے اور نہ ہی کسی خواب کی تعبیر دے سکے ہیں۔ 2018ء میں ڈالر 120 روپے کا تھا آج وہ 184 روپے کی سطح کو چھو رہا ہے۔ بعض اشیائے ضروریہ کی قیمتیں تین تین بلکہ چار چار گنا بڑھ چکی ہیں۔ بیڈ گورننس‘ پولیس کلچر اور انتظامیہ کی نااہلی کے عوام پہلے سے بھی بڑھ کر کشتۂ ستم بنے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کو جو نیم خودمختاری کا سٹیٹس حاصل تھا وہ بھی2019ء میں ختم ہو گیا اور کشمیر پر نریندر مودی کی حکومت کے ظلم و ستم پہلے سے کہیں بڑھ چکے ہیں۔
فارن پالیسی میں بھی خان صاحب نے کئی چھکے مارے اور پاکستان کے لیے ناقابل تصور مشکلات پیدا کیں۔ ان پونے چار سالوں میں انڈیا کے خلاف بڑھکیں مارنے اور کبھی اس کی بے پناہ تعریفیں کرنے کے علاوہ مسئلہ کشمیر یا ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں پڑوسی ملک سے کوئی مذاکرات ہو سکے اور نہ ہی اس بارے عالمی کمیونٹی کو متحرک کیا جاسکا۔ خان صاحب کے دورِ حکومت میں پاکستان کے قریب ترین برادر اسلامی ملک سے بھی تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ جاتے جاتے کسی سازشی تھیوری کا شاخسانہ بھی خان صاحب قوم کو دے گئے ہیں اور یوں پاکستان کے روایتی دوست امریکہ سے بھی ہمارے تعلقات نہایت نچلی سطح پر چلے گئے ہیں۔
اس ہنگام میں تو شاید خان صاحب کو غوروفکر کی مہلت نہیں ملی ہوگی مگر حکومتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر انہیں گوشہ تنہائی میں اپنی پونے چار سالہ پرفارمنس کا جائزہ ضرور لینا چاہئے۔ عمران کے خلاف ''ہمہ گیر بغاوت‘‘ اُن کی ''ہمہ گیر ناکامی‘‘کی بنا پر ہوئی ہے۔ چونکہ وہ دو دہائیوں سے اپوزیشن میں رہے اور اپنے سے پہلے حکمرانوں اور سیاست دانوں پر سخت تنقید کرتے رہے اسی لیے برسراقتدار آکر بھی انہوں نے اپوزیشن والا طرزعمل اور لب و لہجہ نہیں چھوڑا بلکہ اس تلخ نوائی میں بہت زیادہ اضافہ بھی کرلیا تھا۔
خان صاحب نے اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں کہ پارلیمانی نظام میں اگرچہ اپوزیشن حکومت کا حصہ نہیں ہوتی مگر ملکی و قومی مسائل میں وہ بھی اتنی ہی حصہ دار ہوتی ہے جتنی برسراقتدار پارٹی۔ خان صاحب نے ہر قابل ذکر چھوٹے بڑے مخالف سیاست دان کو جیل تک پہنچایا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے علیم خان جیسے قریبی دوست کو بھی ذاتی وجوہات کی بنا پر جیل میں ڈلوایا اور اپنے کئی دوستوں کے خلاف میرٹ پر نہیں ذاتی پسند ناپسند پر مقدمات قائم کروائے۔عمران خان اپنے دورِ حکومت میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔ معیشت نزع کی حالت کو پہنچ چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے مختلف عالمی فورمز پر مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کیا اور دنیا کو بتایا کہ وہ اسلاموفوبیا سے باہر آئے۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔
جناب عمران خان نے اقتدار سے رخصتی کا نوشتۂ دیوار پڑھ کر بھی سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ 9 اپریل کو ساڑھے تیرہ گھنٹے تک قومی اسمبلی کے پروسیجر اور پھر سپریم کورٹ کے احکامات کو حیلوں بہانوں سے پس پشت ڈالتے رہے۔ اس دوران اسلام آباد ہی نہیں دنیا بھر میں مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں اور پاکستانی دھڑکتے دلوں کے ساتھ خیر کی دعا مانگتے رہے۔ شب گیارہ بجے کے بعد اسلام آباد میں اعلیٰ عدالتیں کھل گئیں اور سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان اپنے 7اپریل کے فیصلے پر پہرہ دینے کے لیے عدالت عظمیٰ تشریف لے آئے تب کہیں جاکر بادلِ ناخواستہ عمران خان اقتدار سے رخصت ہونے کے لیے آمادہ ہوئے۔ خان صاحب کا پونے چار سالہ دورِ حکومت ایک ناکام دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں