آتی جاتی حکومتیں

ایک حکومت کے جانے اور دوسری کے آنے سے بس انیس بیس کا فرق ہی پڑتا ہے البتہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی تب آئے گی جب کوئی حکومت صدقِ دل کے ساتھ آئین کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی اور امیر غریب کے لیے یکساں انصاف کے حصول کو یقینی بنائے گی۔ اس طرح کی دل لگتی باتیں عمران خان نے اتنی مہارت اور اتنے تسلسل سے بار بار دہرائیں کہ لوگوں نے انہیں سچ جانا۔ تاہم اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار کے اندازِ حکمرانی میں انہوں نے آئین کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا اور نہ ہی قانون کا کسی ادنیٰ درجے میں بھی کوئی احترام کیا۔ انہوں نے ''میں‘‘ سے بات شروع کی اور ''میں‘‘ پر ہی ختم کی۔ جو لوگ عمران خان کو تھوڑا بہت جانتے ہیں اُن پر یہ بات آشکارا ہے کہ اُن کی دل چسپی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے اور اپنی ذات پر ختم ہو جاتی ہے۔
عمران خان کی ان دنوں زبردست مقبولیت کا راز معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ خان صاحب ملک کے بڑے اداروں سے ناراض کیوں ہیں؟ اور ان اداروں کے خلاف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جو شرمناک مہم سوشل میڈیا سے چلائی گئی اس کا سبب سمجھنے کے لیے کسی گہرے مطالعے کی نہیں‘ عام مشاہدے کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اداروں نے انتخابات سے لے کر میڈیا تک عمران خان کو ہر شے مینج کرکے دی اور اُن کے سر پر خصوصی دست شفقت رکھا۔اب چونکہ یہ ہٹ گیا سو سارے فسانے میں یہی وہ بات ہے جو خان صاحب کو بہت ناگوار گزری ہے۔ خان صاحب کا شکوہ ''صاحب شکوہ‘‘ کے الفاظ میں یہ ہے:
اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
پہلی سی ''مدارات‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جیسے اُن کے لیے پہلے سب کچھ مینج ہوتا تھا‘ اب ایسا کیوں نہیں۔ عمران خان کی اعلیٰ عدالتوں سے ناراضی کا سبب یہ ہے کہ اس مرتبہ عدالت عظمیٰ نے عدلیہ کی تاریخ کے متنازع فیصلوں کے برعکس کسی نظریۂ ضرورت کو مدنظر رکھا اور نہ ہی کسی ''عملی تقاضے‘‘ کو کوئی اہمیت دی‘ اور نہ ہی روایتی تاخیر کی جس سے انصاف کی روح کچلی جاتی ہے۔ عدلیہ کی سابقہ تاریخ میں بعض فیصلے اُس وقت آتے تھے جب حالات کا جبر اپنا آرا چلا چکا ہوتا تھا۔ اس بار عدلیہ نے انصاف کے تقاضوں کے مطابق بروقت فیصلہ سنایا۔
ہفتہ کی شب عمران خان کراچی کے ایک بڑے جلسے میں کہہ رہے تھے کہ میں نے کیا جرم کیا تھا کہ رات کے بارہ بجے عدالتیں کھل گئیں۔ جب آپ عدالت عظمیٰ کو بھی ڈاج کر رہے تھے اور آئین سے ہٹ کر اپنی من مانی کر رہے تھے تو عدالتیں ملک کو انتشار اور انارکی سے بچانے کے لیے اپنے آئینی فیصلے پر پہرہ دینے کے لیے رات کو بھی ڈیوٹی پر حاضر ہو گئیں۔
اب آئیے عمران خان صاحب کی مقبولیت کی طرف۔ خان صاحب بنیادی طور پر ایک کھلاڑی ہیں مگر گزرتے مہ و سال کے ساتھ ساتھ انہیں اردو اور انگریزی خطابت پر قابل رشک عبور حاصل ہوگیا ہے لہٰذا وہ اپنی بات اتنی دردمندی اور دل سوزی سے کرتے ہیں کہ سننے والا یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ خان صاحب کہہ رہے وہ سچ ہے اور سچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ عمران خان کے طرزِ سیاست اور اندازِ خطابت سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے میکاولی کی دی پرنس اور ہٹلر کے پروپیگنڈا ایڈوائزر گوئبلز کے بنیادی اصولوں کو ازبر کر رکھا ہے۔ گوئبلز نے ریاست کے لیے جو چند رہنما اصول مقرر کیے تھے اُن میں جھوٹ اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کا بے محابا استعمال ازبسکہ ضروری تھا۔ عمران خان اور اُن کے ترجمان فواد چودھری کے بیانات سے یوں لگتا ہے کہ وہ ایوانوں کو مانتے ہیں نہ عدالتوں کو اور اُن کے بقول ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا ٹریلر اُنہوں نے پنجاب اسمبلی میں چلا کر بھی دکھا دیا ہے۔
اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے امریکہ سے متعلق عمران خان کے بیانیے سے ہوا نکال دی ہے اور علی الاعلان بتایا ہے کہ امریکہ نے نہ تو پاکستان سے ہوائی اڈے مانگے تھے اور نہ ہی پاکستان کے خلاف کوئی سازش ہوئی تھی۔ 17 اپریل کے بعض ملکی و غیرملکی اخبارات میں اس الوداعی لنچ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا گیا ہے جس میں امریکی نائب سیکرٹری خارجہ برائے ایشیا ڈونلڈ لُو اور رخصت ہونے والے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے مابین پاکستانی سیاست کے بارے میں کچھ غیر رسمی بات چیت ہوئی تھی جس میں دور دور تک کسی سازش کا کوئی اشارہ یا کنایہ نہ تھا۔ گوئبلز کے پروپیگنڈا اصولوں میں سے خان صاحب نے اس ''سنہری اصول‘‘ کو پلّے باندھ رکھا ہے کہ کبھی کسی دانشورانہ بحث میں مت الجھو اوراپنی پروپیگنڈا مہم کو ایک دو مقبول عام نکات تک ہی محدود رکھو۔
دورانِ حکومت پی ٹی آئی کی مہم رات دن کرپشن اور چور ڈاکو تک محدود تھی۔ اب حکومت سے باہر آنے کے بعد اُن کے صرف دو مطالبے ہیں کہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد امریکی سازش تھی اور فوری انتخابات ہونے چاہئیں۔ یہ وقت تو اپنی ساڑھے تین سالہ حکومت کی کارکردگی پیش کرنے کا تھا مگر خان صاحب نے نہایت مہارت کے ساتھ قوم کو امریکی سازش کے پیچھے لگا دیا ہے۔ خان صاحب نے معیشت کو گور کنارے پہنچایا‘ خارجہ محاذ پر سعودی عرب‘ چین اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔ جوں جوں وقت گزرے گا‘ حقائق سامنے آتے جائیں گے۔ توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
نئی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف کو اسلام آباد کی میٹرو اور سڑکوں وغیرہ کے انتظامات کسی منتظم کے سپرد کرکے اپنا زیادہ وقت 'امریکی سازش‘ کے اصل حقائق عوام کے سامنے لانے اور اُس کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے‘ اپنی کابینہ مکمل کرنے‘ اکنامک اور ایمبیسڈر کانفرنسیں بلانے اور بجٹ کے لیے صلاح مشورے اور ہوم ورک کرنے پر صرف کرنا چاہئے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کو اب کچھ عرصے کے لیے سیاسی دائو پیچ ایک طرف رکھ کر دانشمندی اور خلوص نیت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں ادراک ہونا چاہئے کہ وہ ایک ایسی کشتی میں سوار ہیں کہ جو بخیرو عافیت کنارے لگتی ہے تو اسی میں سب کی سلامتی ہے۔ اس موقع پر زرداری صاحب کا وزارتوں سے انکار ناقابل فہم ہے۔ جواں سال بلاول بھٹو کا وزیر خارجہ بننا اُن کی سیاسی گرومنگ اور سٹیٹ کرافٹ سے آگاہی کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔ اگر بحیثیت والد زرداری صاحب بلاول کو موروثی سیاست کے اس کرشمے کی بنا پر وزیراعظم دیکھنے کے خواہاں ہیں تو انہیں بلاول کو پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے سے نہیں روکنا چاہئے اور سب کو مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی صدقِ دل سے ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر کراچی کی حالت زار کو درست کرے اور اس کے لیے ضروری قانون سازی میں کسی طرح کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔
یہ حکومت اگر دیرینہ مسائل کے حل کے لیے عملی قدم اٹھائے گی تو عوام کو محسوس ہوگا کہ آنے والی حکومت جانے والی حکومت سے مختلف ہے۔ وگرنہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ سب حکومتیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں