یہ بارگاہِ سرورِ دیں ہے سنبھل کے آ

شوق و نیازِ عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ
امت کے اولیا بھی ادب سے ہیں دم بخود
یہ بارگاہِ سرورِ دیں ہے سنبھل کے آ
(حفیظ تائب)
یہاں بڑے بڑے اولیا‘ بڑے بڑے حکماء‘ بڑے بڑے دانا‘ بڑے بڑے رئوسا‘ بڑے بڑے امراء اور بڑے بڑے اغنیاء‘ سب کے سب نہایت ادب و احترام کے ساتھ گزشتہ چودہ صدیوں سے اسی طرح حاضری دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہاں کبھی کسی کی آواز بلند نہیں ہوئی۔ لوگ یہاں آکر آپس کی تلخیوں کو بھول جاتے ہیں‘ آپس کی رنجشوں کو بھلا دیتے ہیں۔ یہاں آنے کے آداب خود اس محب نے وضع کر دیے ہیں جس نے اپنے حبیب کے بارے میں اپنی کتابِ مبین میں فرمایا ہے: ورفعنا لک ذکرک۔ ہم نے تمہارا ذکر بلند کیا۔ یہ ذکر صرف مدینہ منورہ کی گلیوں میں بلند نہیں کیا‘ صرف جزیرۃ العرب میں بلند نہیں کیا بلکہ چہار دانگ عالم میں بلند کیا ہے۔
صرف ایمان والوں نے آقائے دوجہاں کے ذکر سے اپنے قلوب کو منور نہیں کیا بلکہ شرق و غرب کے غیرمسلموں نے بھی خاتم الانبیا محمد مصطفیﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔
ہم کسی دین سے ہوں‘ قائل کردار تو ہیں
ہم ثنا خوانِ شہ حیدرِ کرار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے‘ کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
دوسری طرف تھامس کارلائل سے لے کر کیرن آرمسٹرانگ تک سینکڑوں مغربی سکالرز نے عظمت رسولﷺ کا دل و جان سے اعتراف کیا ہے اور اب تک کر رہے ہیں۔
مسجد نبوی کا جو شخص قصد کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نہایت خوش نصیب سمجھتا ہے۔ صرف پاک و ہند میں ہی نہیں دنیا کے بہت سے ممالک کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ مدینے سے بلاوا آتا ہے تو انسان کا قصد حقیقت کا روپ دھارتا ہے۔ مسجد نبوی کی طرف جانے والے ہر مسلمان کے پیش نظر حاضری کا وہ پروٹوکول ہوتا ہے جسے رب ذوالجلال نے سورۃ الحجرات کی اس آیت میں بیان کر دیا ہے: ''اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور اُن کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو‘‘۔
28 اپریل بروز جمعرات جب سعودی حکومت کی دعوت پر مسجد نبوی میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستانی حکومتی وفد کی آمد پر کچھ لوگوں نے نہایت بے ہودہ قسم کی نعرے بازی کی‘ مریم اورنگزیب پر نہایت غیرشائستہ آوازے کسے گئے‘ شاہ زین بگٹی کے بال کھینچے گئے اور بازاری نعرے بازی کی گئی۔ ان لوگوں نے مسجد نبوی کے تقدس کی بے حرمتی کی۔ میرے نزدیک کسی سیاست دان کا بیان سند کا درجہ نہیں رکھتا مگر مفتی منیب الرحمن سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی سے میری ذاتی نیازمندی بھی ہے۔ انہیں میں نے کبھی جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا۔ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ ایک خاص جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مسجد نبوی میں جس طرح سے سیاسی نعرے بازی کی ہے اس کی وہ پرزور مذمت کرتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن نے اس واقعے کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی بعض شخصیات پر عائد کی ہے۔
یہ فقیر سعودی عرب کے گرمائی دارالحکومت طائف میں 25 برس سعودی وزارتِ تعلیم و تربیت سے منسلک رہا۔ اس دوران اللہ نے اس عاصی کو عمرے اور حج کی کئی بار توفیق عطا کی اور بارہا مسجد نبوی میں حاضری اور روضۂ رسول پر ہدیۂ سلام پیش کرنے کی سعادت بخشی۔ اگرچہ ایسے معاملات بندے اور اس کے خدا کے درمیان ہوتے ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر بحر عصیاں میں غرق ہونے کی بنا پر جو ندامت ہوتی تھی وہ روضۂ رسول پر حاضری کے دوران آنسوئوں میں ڈھل جاتی۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا کہ دل پاش پاش ہو جائے گا اور ضبط کا بندھن ٹوٹ جائے گا مگر پاسِ ادب سے کبھی آواز بلند نہ ہوتی تھی۔ بقول استاذِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی
وہ شدتِ احساس ہے یہ پاسِ ادب ہے
دل چاک‘ جگر چاک‘ گریباں نہ دریدہ
یقین کیجئے ان پچیس سالوں میں ہم نے کبھی حرمِ مکی یا حرمِ مدنی میں ایسی بدتمیزی‘ ایسی بدتہذیبی اور ایسی ذہنی پستی کبھی نہ دیکھی۔ میرے کئی رفقائے کار کا تعلق شام سے تھا۔ اُن میں حماۃ اور حمص کے اُن دو شہروں سے تعلق رکھنے والے شامی اساتذہ بھی تھے جن دونوں شہروں کو حافظ الاسد نے ٹینکوں اور بمبار جہازوں سے وہاں کے سینکڑوں باسیوں سمیت ملیامیٹ کر دیا تھا۔ اس دوران جب کبھی حافظ الاسد اور اس کے بعد بشارالاسد اپنے وفود کے ساتھ آئے تو اُن پر کسی طرح کے آوازے حرمین شریفین میں نہ کسے گئے۔
میرے سعودی عرب میں طویل قیام کے دوران صرف 1987ء میں مکہ مکرمہ کی شاہراہوں پر ایرانی حجاج کا امریکہ کے خلاف احتجاج ہوا جس کے خلاف سعودی حکومت نے انتظامی کارروائی کی تھی۔مجھے معلوم تھا کہ مصر کے بعض فوجی ڈکٹیٹروں نے مصریوں کی محبوب جماعت اخوان المسلمون کی یگانہ روزگار شخصیات کو کچل کے رکھ دیا تھا۔ اخوانیوں کے پیروکاروں نے کبھی حرمین میں ان فوجی ڈکٹیٹروں اور اُن کے وفود کے خلاف نعرے نہ لگائے۔ جس بات نے میرے دل کو بہت پریشان کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ مسجد نبوی کے اس دل خراش واقعے کی مذمت ہر پاکستانی سیاسی وابستگی سے ماورا ہوکر بلا مشروط کرے گا کیونکہ مسلمان کتنا ہی بے عمل کیوں نہ ہو مگر جہاں حرمتِ رسول ﷺ کا سوال اٹھتا ہے وہاں اپنے جذبات کے اظہار میں عاصی مسلمان متقی مسلمان سے پیچھے نہیں رہے گا۔
مگر یہ دیکھ کر مجھے بڑی کربناک حیرت ہوئی کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے سیاسی تلخیوں اور تقسیم کا جو کلچر پیدا کر دیا ہے اُس کے اظہار سے مقاماتِ مقدسہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ عمران خان نے تو حالیہ مدینہ منورہ کے واقعے کی مذمت بھی نہیں کی؛ تاہم جن سابق وزراء نے مذمت کی بھی ہے تو انہوں نے ساتھ ہی اس واقعے کی توجیحات پیش کرنے کی بھی کوشش کی ہے البتہ ایک سابق وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے دوٹوک انداز میں کہا کہ مسجد نبوی میں ہونے والے واقعے کی کسی اگر مگر کے بغیر سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔
ہزاروں درود و سلام ہوں میرے آقا ﷺ پر جو اپنے چاہنے والوں کے ہر سلام کا جواب دیتے ہیں اور انہیں یاد رکھتے ہیں۔ کسی نادان کی بدبختی اور روسیاہی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ وہ مدینہ پہنچ جائے مگر اُسے شانِ مصطفی ﷺکا ادراک ہو اور نہ ہی وہ مسجد نبوی کی عظمت اور وہاں حاضری کے آداب کے بارے میں کوئی آگاہی رکھتا ہو۔ اللہ ایسے بدنصیب شخص کے حال پر رحم فرمائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں