کیا ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے؟

عید کے بعد آج قارئین کرام سے ہماری پہلی ملاقات ہو رہی ہے اس لیے ہم اپنے قارئین کو عربوں کی پسندیدہ دعا کا ہدیۂ عید پیش کر رہے ہیں۔ کل عام وأنتم بخیر۔ آپ ہمیشہ خوش و خرم رہیں۔ تقبل اللہ منا ومنکم صالح الاعمال۔ اللہ آپ کے اور ہمارے اچھے اعمال کو قبول فرمائے۔ آمین!
عیدیں تو ہمیں اللہ نے دو عطا کی ہیں مگر ہم نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق ان دونوں عیدوں کو کئی نام دے رکھے ہیں۔ عیدالفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے اور چھوٹی عید بھی۔ عیدالاضحی کو نمکین اور بڑی عید بھی کہا جاتا ہے تاہم سیاستدانوں کی اس قوم پر دیگر نوازشات میں ایک اور کا اضافہ کر لیں اور وہ ہے ''سیاسی عید‘‘۔
میں عید کے دوران جن عزیزو اقارب اور دوست احباب سے ملنے گیا یا جو دوست احباب ہمیں ملنے کے لیے گھر پر آئے یا اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے جن لوگوں نے بھی آن لائن مبارک باددی اُن سب کا ایک ہی سوال تھا‘ کیا خدانخواستہ ملک کسی خانہ جنگی کا شکار تو نہیں ہو جائے گا؟ میرا دوٹوک اور سوچا سمجھا جواب تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ ایسا میں کیوں سمجھتا ہوں؟ اس سوال کا جواب آپ کی خدمت میں چند سطروں کے بعد پیش کرتا ہوں۔
شاعر نے کہا تھا کہ عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب۔ عاشقی کی طرح سیاست بھی ایک صبر طلب کام ہے۔ سیاسی کھیل میں ''اِن‘‘ رہنے کا صرف اور صرف ایک اصول ہے اور وہ ہے آپ کی پرفارمنس۔ خان صاحب کا دوسرا مسئلہ اقتدار کا مزا ہے جسے وہ ہر قیمت پر دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔کوچۂ اقتدار سے نکلنے کے بعد خان صاحب نے طے کرلیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار میں واپس جائیں گے چاہے اس کے لیے ہر سرکاری و غیرسرکاری ادارے میں سیاسی انتشار اور تقسیم پیدا ہوتی ہے تو ہو جائے‘ معیشت تباہ ہوتی ہے تو ہو جائے‘ سیاست برباد ہوتی ہے تو ہو جائے‘ اخلاقیات کا جنازہ نکلتا ہے تو نکل جائے‘ بھائی بھائی سے لڑتا ہے تو لڑ پڑے‘ بیٹا باپ سے الجھتا ہے تو الجھ پڑے‘ دوست اپنے جگری دوست پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہو جائے انہیں اس کی پروا نہیں۔ انہیں اپنا کھویا ہوا تخت و تاج واپس چاہئے جس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔
اہلِ پاکستان کی کچھ تعداد اس وقت عمران خان صاحب کی اندھی تقلید کیوں کر رہی ہے؟ وہ ایسا اس لیے کر رہی ہے کیونکہ خان صاحب نے قومی غیرت اور ملکی وقارو سربلندی کا نعرہ لگایا ہے جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ نعرہ خان صاحب کے دل کی آواز ہے یا وہ ایسا محض سیاسی فائدے کے لیے کر رہے ہیں۔ اس دلیل کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹریپ میں خوش دلی سے آگئے تھے جس نے کشمیر کے تصفیے کی بات کی تھی۔ وہ تصفیہ تو ہوا نہیں مگر نریندر مودی نے کشمیر کی ریاستی خودمختاری کو ہڑپ کرلیا۔
پاکستانی ایک جذباتی قوم ضرور ہے مگر جب دلیل سے اس کے سامنے بات رکھی جائے تو وہ اپنے موقف پر نظرثانی کرلیتی ہے۔ خانہ جنگی کی دھمکیاں دینے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان یوگنڈا ہے نہ ہی روانڈا۔ یہاں تمام ادارے جن میں عدالتیں سرفہرست ہیں وہ دستور و قانون کے مطابق کام کررہی ہیں‘ فوج دنیا کی بہترین سپاہ تسلیم کی جاتی ہے‘ ہمارے پاس ایک متفقہ اسلامی و جمہوری دستور ہے جس کی خلاف ورزی غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ خان صاحب کی ساری ٹیم میں ان کے اپنے سمیت سوائے شیخ رشید کے شاید کسی اور کو جیل جانے کا تجربہ نہیں۔ خان صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جون کی 47 درجے سنٹی گریڈ گرمی میں ایلیٹ کلاس یا مڈل کلاس یا یوتھ کتنے روز آسمان سے شعلے برساتی دھوپ میں واش رومز کی سہولتوں کے بغیر دھرنا دے سکتی ہے۔ ہر جماعت کی اپنی اپنی سیاسی تربیت ہے۔ پاکستان میں بے خوف اور نڈر ہوکر جماعت اسلامی کے لیڈران اور کارکنان جیلوں میں جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان حسبِ ضرورت جیلیں بھر سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکنان بھی حسبِ موقع جیلوں سے پیچھے نہیں رہتے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے لیڈران نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ مہینوں بلکہ سالوں تک جیلیں کاٹ سکتے ہیں۔ مگر جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے اُس کے بارے میں اُس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ وہ جیلیں بھرنے کا کوئی ثبوت پیش نہ کر دیں۔
خان صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جب 2014ء میں وہ دھرنا دینے اسلام آباد آئے تھے تب انہیں بے پناہ مالی‘ انتظامی‘ غیبی اور ٹی وی کوریج وغیرہ کی بھرپور سہولت حاصل تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ دھرنا طول نہیں پکڑ سکتا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حکومت عام پریس کانفرنسوں سے اجتناب کرے اور قوم کو ناقابل تردید اعدادو شمار اور شواہد کی روشنی میں بتائے کہ ہماری معیشت کیسے گور کنارے پہنچ چکی تھی‘ کس طرح سے قومی خزانے میں درآمدات کے لیے پیسے تھے نہ ہی قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لیے زرمبادلہ تھا۔ اس کے علاوہ سابقہ حکومت نے سعودی عرب‘ چین اور دوسرے کئی ممالک کے ساتھ پاکستان کے جو تعلقات بگاڑے تھے اُس کی تفصیل بھی قوم کے سامنے آنی چاہئے۔ وسیع البنیاد حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ اُن کی بقا باہمی اتحاد سے مشروط ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے گھر گھر کو میدانِ جنگ بنا دیا ہے۔ آئے روز بعض ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھروں کو عدم برداشت کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے۔ بڑے بڑے سیاست دان تو ''بقائے باہمی‘‘ کے اصول پر کاربند ہیں مگر بیچارے عوام الناس تو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ایک ہی چھت تلے اسد عمر اور زبیر عمر رہائش رکھتے ہیں اور بھائیوں کے آپس میں نہایت خوشگوار تعلقات ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ خان صاحب نے اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کو اوورسیز پاکستانیوں تک پہنچا کر انتہائی غیردانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس سلسلے میں ابوظہبی اور بحرین وارننگ دے چکے ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی میں پاکستانیوں کی گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں۔
چند ہفتے قبل جب عمران خان نے پارلیمانی قواعد اور قانون و آئین کی خلاف ورزی کی تو ملک کے ادارے آئین کے تحفظ کے لیے سامنے آگئے۔ عدالتوں نے قانون کے مطابق فیصلے دے کر‘ مقتدرہ نے نیوٹرل ہو کر‘ پارلیمنٹ نے قواعدو ضوابط کے مطابق اپنا اپنا فرض انجام دے کر دستور کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سارے ادارے ان شاء اللہ آئندہ بھی اپنی اپنی دستوری کمٹمنٹ نبھائیں گے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو ایک بات معلوم ہونی چاہئے کہ موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا صرف سونامی اور بربادی ہے۔ وہ اگر کوئی کپ جیتنا چاہتے ہیں تو ایسا صرف کھیل کے میدان کے اندر ہی ممکن ہے۔ نظام کے اندر رہ کر وہ دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں اور سسٹم سے باہر نکل کر انہیں مایوسی کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ پاکستان کو کسی خانہ جنگی کا کوئی خطرہ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں