نفرتوں کا سفر

دو تین روز قبل بروز ہفتہ شائع ہونے والے کالم میں میرا تجزیہ یہ تھا کہ تمام تر گرم گفتاری‘ شعلہ بیانی اور دوطرفہ دھمکیوں کے باوجود کسی خانہ جنگی کا کوئی خطرہ ہے نہ خدشہ۔ اس تجزیے سے بہت سے لوگوں نے اتفاق کیا مگر ایک بڑی تعداد نے اختلاف بھی کیا۔ میرے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ شب و روز جس طرح سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین و کارکنان ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں اور ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری و بمباری کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں ان کے پیروکاروں کے ہاتھ عزیزوں‘ دوستوں اور مخالفوں کی گردنوں تک پہنچ چکے ہیں اور ان کی زبانیں چھوٹے بڑے کا لحاظ کیے بغیر بے لگام ہوچکی ہیں۔ بہت سے قارئین نے معاشرے میں سیاسی عدم برداشت کے بارے میں اپنے ذاتی مشاہدات اور چشم دید واقعات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یہاں ہم صرف دو تین انتہائی افسوسناک واقعات کا تذکرہ کریں گے۔
میرا بھتیجا فیصل فرید پراچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ فیصل ہمارے آبائی علاقے سرگودھا کی تحصیل بھلوال میں ایک بڑا پرائیویٹ کالج چلا رہا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ حافظ محمد اویس ان کے کالج کانہایت ہونہار طالب علم تھا۔ وہ سیکنڈ ایئر آئی سی ایس کا طالب علم تھا۔ اپنے اعلیٰ تعلیمی نتائج اور اپنی خوش اخلاقی کی بنا پر وہ کالج کا ہر دلعزیز سٹوڈنٹ تھا۔ جمعۃ المبارک کے روز وہ نماز جمعہ کیلئے گھر سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ درزی کی دکان پر اس کے دو کزن آپس میں گرما گرم سیاسی بحث کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔ اویس نے آگے بڑھ کر دونوں کو چھڑانا چاہا۔ اس دوران غیظ و غضب سے آگ بگولہ ایک کزن نے دوسرے کو تاک کر قینچی ماری۔ نشانہ بننے والا کزن تیزی سے سامنے سے ہٹ گیا اور قینچی سیدھی صلح کروانے والے حافظ اویس کی گردن پر جا لگی جس سے اس کی شہ رگ کٹ گئی اور اس کی موقع پر ہی موت واقع ہوگی۔ یوں والدین کی آنکھوں کا تارا اور بہنوں کا راج دلارا انہیں آن واحد میں داغ مفارقت دے گیا۔ حافظ قرآن بچہ عالم شباب میں شہادت کا درجہ پا کر اپنے رب کے پاس جا پہنچا۔ قارئین کرام! ذرا اویس کے ماں باپ‘ بہن بھائیوں‘ عزیز و اقارب اور دوست احباب کے غم و اندوہ کا اندازہ لگائیے! فیصل نے مجھے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہر دلعزیز بچہ نہ صرف اپنے گھر‘ ہمارے کالج بلکہ سارے بھلوال کو ویران اور سوگوار کر گیا۔
اسی طرح کاایک واقعہ کچھ مدت پہلے ہری پور میں رونما ہو کر سارے شہر کو غمناک کرگیا تھا۔ وہاں بھی ایک دوست نے شعلے اگلتی ہوئی سیاسی بحث کے نتیجے میں اپنے ہی دوست کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ایک دوست نے ذاتی مشاہدے پر مبنی یہ واقعہ لکھ کر مجھے شدید غم اور گہرے فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس واقعے کے مطابق شہر کے اچھے سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی سات سالہ بچی نے اپنے باپ کو بتایا کہ میری کلاس میں تحریک انصاف سے محبت رکھنے والے اور مسلم لیگ (ن) کے گن گانے والے بچوں کی کمرہ جماعت میں ڈیسکوں کی الگ الگ قطاریں لگائی گئی ہیں۔ باپ نے بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بچوں سے تمہاری دوستی سیاسی بنیادوں سے ماورا ہونی چاہئے مگر بچی نے باپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
تازہ ترین منظر نامے کے مطابق دوسابق وزیر داخلہ آپس میں یوں لڑ رہے ہیں کہ جیسے ایک لال حویلی سے اپنے محلہ دار مخالف کو ڈرا دھمکا رہا ہو اور دوسرا فیصل آباد کے علاقے سمن آباد سے مد مقابل کو ''تڑیاں‘‘ لگا رہا ہو۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ لانگ مارچ خونیں ہوگا۔ کبھی شیخ صاحب نے یہ بیان دیا کہ لوگ اپنے آپ کوآگ لگا لیں گے۔ ہماری 75 سالہ تاریخ ایکشن ری پلے سے بھری ہوئی ہے۔ ایوب خان نے اپنے ہی آئین کا تحفظ نہ کیا اور جاتے جاتے وہ اقتدار آئین کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کے بجائے یحییٰ خان کے سپرد کرگیا۔ دوسری طرف مغربی پاکستان کے ایک لیڈر نے مغربی پاکستان سے کسی رکن قومی اسمبلی کے ڈھاکہ جانے کی صورت میں ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی۔ مشرقی پاکستان کے ایک لیڈر مولانا بھاشانی نے ''جالو جالو آگن جالو‘‘ کا نعرہ لگوایا۔ بھٹو صاحب ممبرانِ قومی اسمبلی کی ٹانگیں تونہ توڑ سکے مگر ان کی دھمکیوں سے ملک دولخت ہو گیا۔ یہ سارے ہولناک تاریخی مناظر شیخ رشید نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے کانوں سے سنے ہوں گے۔ شیخ صاحب کی دھمکیوں کے جواب میں موجودہ وزیر داخلہ کو قانون اور آئین کی زبان میں بولنا چاہئے تھا اور بڑھکوں اور دھمکیوں سے اجتناب کرنا چاہئے تھا۔ دونوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ملکی فورم سے بول رہے ہیں۔
میں آج صبح سے غور و خوض کر رہا تھا کہ ایک قوم کو سنجیدہ اور میچور ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟اس غور و فکر کاحاصل یہ ہے کہ جب کوئی قوم تعلیمی و سیاسی تربیت‘ ریاضت‘ دیانت اور محنت کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو وہ دو تین دہائیوں میں ہی اپنی قسمت بدل لیتی ہے۔ البتہ ہمارے جیسی جو قوم اپناوقت ایک دوسرے پر الزام تراشی‘ اپنی ذاتی لیڈری اور باہمی طعن و تشنیع میں برباد کرتی ہے تو وہ اسی کم نصیب دائرے میں چکر لگاتی رہتی ہے اور صدیوں میں بھی اپنی حالت بدل نہیں پاتی۔ ہماری قوم کے ایک محدود طبقے میں مذہبی عدم برداشت تو گزشتہ تین چار دہائیوں سے چلی آرہی تھی مگر سیاسی عدم برداشت کا کلچر گزشتہ چند برس کے دوران سوشل میڈیا کے ذریعے دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی گزشتہ ادوار کے دوران سیاسی اختلاف صرف کوچہ سیاست تک محدود تھے مگر عمران خان نے سیاسی مخالفت کو کفرو ایمان کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ وہ بلا تکلف‘ بلا تحقیق‘ بلا تفتیش اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ عمران خان اپنے پیرو کاروں کو کہتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے منحرفین کا گھیرائو کریں‘ امپورٹڈ حکمران جہاں جائیں ان کا ناطبقہ بند کر دیں۔ شیخ رشید اور فواد چودھری خونریزی اور خانہ جنگی تک کی باتیں کرتے ہیں۔ خان صاحب نے نفرت اور عدم برداشت کو ایک سیاسی فلسفے کے طورپر پیش کردیا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاستدان جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کہاں کھڑا ہے۔ صرف ڈیڑھ دو ماہ میں پاکستان نے آٹھ‘ نو بلین ڈالر غیر ملکی قرضوں کی اقساط کے طورپر ادا کرنے ہیں۔ عدم ادائیگی کی صورت میں خدانخواستہ یہاں بھی سری لنکا والی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ مگر کسی کو پروا نہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین نے پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید کے ایک بیان کے مطابق چین کراچی کے کنفیوشس سنٹر میں دہشت گرد حملے میں مارے جانے والے تین چینی پروفیسروں کی المناک موت پر بہت دلبرداشتہ ہے۔ سوشل میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بڑی تعداد میں چینی ورکر پاکستان سے کوچ کر کے جارہے ہیں۔ اگر ان خبروں میں صداقت ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ سی پیک کو سمیٹا جارہا ہے۔ ادھر بھارت نے کشمیر میں کی جانے والی بنیادی دستوری تبدیلیوں پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔
یہ نازک صورتحال تو سیاست دانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سنجیدہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں مگر تحریک انصاف سردست نفرتوں کو ہوا دینے میں مصروف نظر آتی ہے‘ ادھر مسلم لیگ (ن) بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر کمربستہ دکھائی دیتی ہے۔ خدارا نفرتوں کے سفر کو یہیں روک دیجئے۔ بھڑکتی آگ پر قابو پائیے‘ لپکتے شعلوں پر پانی چھڑکیے اور مل بیٹھ کر باہمی مشاورت اور مفاہمت سے متنازع امور کا حل تلاش کیجئے۔ یہی حالات کا تقاضا ہے اور یہی سلامتی کا راستہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں