شیرین کی موت

ارضِ فلسطین کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ معراجِ پاک کے موقع پر خود خالقِ ارض و سماء نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد ہم نے برکتیں جمع کر دی ہیں تاکہ ہم اپنے بندے کو اپنی نشانیاں دکھائیں بلاشبہ وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے موقع پر فلسطین برطانیہ کے زیرِ کنٹرول تھا۔ تقریباً بیسویں صدی کے اوائل سے ہی ارضِ فلسطین میں عرب مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔ 1947ء میں اقوام متحدہ نے برطانیہ کے زیر انتظام فلسطینی علاقے میں یہودی ریاست کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ فلسطین کے علاقے میں دو ریاستیں قائم ہوں گی۔ ایک یہودی اور ایک عرب۔
1948ء میں علی الاعلان ارضِ فلسطین میں آٹے میں نمک کے برابر یہودیوں کے لیے ایک ریاست اس شان سے بنادی گئی کہ دنیا بھر سے یہودیوں کو ڈھو ڈھو کر فلسطین میں لایا گیا اور یہاں حکمرانوں کی حیثیت سے بسادیا گیا۔ 1967ء کی چھ روزہ عرب‘ اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے یروشلم سمیت بہت سے عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین کے عربوں نے یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ پہلے الفتح کے نام سے اور پھر حماس کے پلیٹ فارم سے۔
1990ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آنا تھا مگر اسرائیل نے امریکہ کی خفیہ و علانیہ شہ پر اب تک اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ اسرائیل نہ صرف اپنے کیے ہوئے معاہدے کی راہ میں حائل ہو گیا ہے بلکہ اس نے غربِ اردن کے فلسطینی علاقوں میں درجنوں صیہونی بستیاں قائم کرلی ہیں جن میں لاکھوں یہودی آباد ہوگئے ہیں۔
اس وقت ارضِ فلسطین کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ مغربی کنارے کا 61 فیصد علاقہ براہ راست اسرائیلی کنٹرول میں ہے جبکہ صرف 39 فیصد علاقہ فلسطینی قومی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے۔ بزرگ فلسطینی سیاست دان محمود عباس ابو مازن یہاں کے سربراہ ہیں۔ وہ امن کی خاطر اسرائیلی حکومت سے مذاکرات کرتے رہتے ہیں اور عالمی کمیونٹی کے وعدئہ فردا پر یقین کر لیتے ہیں۔ مگر 32 برس گزرنے کے باوجود اوسلو معاہدے پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس بنا پر محمود عباس پر اپنے فلسطینی بھائیوں کی طرف سے اکثر تنقیدی تیروں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ غزہ ''آزاد فلسطین‘‘ کا دوسرا علاقہ ہے جو مقبول اسلامی موومنٹ کے زیر انتظام ہے۔
ہم نے فلسطینی-اسرائیلی تنازعے کی مختصر تاریخ اور ارضِ فلسطین کا موجودہ منظرنامہ اس لیے آپ کے سامنے پیش کیا ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ الجزیرہ ٹی وی کی 51 سالہ جرأت مند و بیباک رپورٹر نے 11 مئی کو اپنی جان کے نذرانے کی صورت میں کتنی بڑی قربانی پیش کی ہے۔ فلسطینی امریکن شیرین ابو عاقلہ گزشتہ 25 برس سے الجزیرہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ قطر میں واقع عربی و انگریزی چینل الجزیرہ غالباً عرب دنیا کا واحد آزاد چینل ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینی علاقوں کا ہوائی و سرحدی کنٹرول مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھوں میں ہے۔ اسرائیلی جب چاہتے ہیں ہوائی و زمینی راستوں سے فلسطینی علاقوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
شیرین کی جرأت و شجاعت اور فصیح عربی میں بہترین رپورٹنگ عرب دنیا میں ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ اس وقت وہ ہر عرب گھر کا ایک جانا پہچانا نام ہے جیسے 1970ء کی دہائی میں نیو دہلی میں بی بی سی کے بیورو چیف مارک ٹیلی کو پاکستان اور بھارت میں ہر گھر کا فرد سمجھا جاتا تھا۔ لوگ مارک ٹیلی کی خبروں اور رپورٹوں کا پہروں انتظار کرتے اور اس کے ہر حرف کو سچ مانتے۔ چار پانچ روز قبل الجزیرہ کی یہ سینئر رپورٹر جنین کے مہاجر کیمپ پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کی لائیو کوریج کر رہی تھی۔ شیرین نے صحافتی قواعد و ضوابط کے مطابق ایسی جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی جس پر جلی حروف میں پریس لکھا ہوا تھا۔ اس نے مزید احتیاطی تدابیر کے طور پر سر پر ہیلمٹ پہن رکھا تھا۔
وہ گزشتہ پچیس برس کے دوران فلسطین کے عرب اور اسرائیلی علاقوں میں بڑے بڑے خطرناک حملوں‘ جلسوں اور احتجاجوں کی کوریج پوری دیانتداری کے ساتھ اپنی جان کی پروا کیے بغیر کرتی رہی تھی۔ یروشلم فلسطین میں پیدا ہونے والی شیرین نے اعلیٰ تعلیم امریکی یونیورسٹیوں سے مکمل کی اور تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اُسے امریکی شہریت بھی مل گئی۔ وہ کوئی عام سی رپورٹر نہ تھی۔ اس کی رسائی فلسطین و اسرائیل کے گھروں‘ سیاست دانوں اور لیڈروں کے ڈرائنگ روموں تک بھی تھی۔
11 مئی کو شیرین مغربی کنارے کے شہر جنین کے مہاجر کیمپ پر ہونے والے اسرائیلی حملے کو کوَر کر رہی تھی۔ اس نے وہ جیکٹ زیب تن کر رکھی جس پر جلی حروف میں پریس لکھا ہوا تھا۔ اس نے ہیلمٹ بھی سر پر پہن رکھا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور ہیلمٹ کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے شیرین کے سر میں جا لگی۔ گولی لگتے ہی شیرین گر پڑی۔ اس کی ایک ساتھی رپورٹ یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس نے فوراً چیخنا شروع کر دیا کہ شیرین کو گولی لگی ہے فوراً ایمبولینس بلائی جائے۔ یہاں موجود ایک اور رپورٹر و پروڈیوسر علی صمودی کو بھی ایک گولی پیچھے سے آلگی۔ شیرین تو موقع پر ہی دم توڑ گئی؛ تاہم علی صمودی ہسپتال میں بروقت طبی امداد ملنے سے بچ گئے۔
علی نے بعدازاں ہسپتال سے عالمی میڈیا کو بتایا کہ جہاں شیرین اسرائیلی فوجیوں کی یلغار کو کوَر کر رہی تھی وہاں دور دور تک کوئی فلسطینی گن مین موجود نہ تھا لہٰذا اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینٹ کے اس بیان میں کوئی صداقت نہیں کہ شاید الجزیرہ کی رپورٹر کو کسی فلسطینی مجاہد کی گولی نہ لگی ہو؛ تاہم الجزیرہ نے عرب دنیا کی ہردلعزیز اور جرأت مند رپورٹر کی موت کی خبر نشر کرتے ہوئے اس کی سو فیصد ذمہ داری اسرائیلی حکومت اور اُس کے فوجیوں پر عائد کی۔
جنین سے شیرین کی میت کو ایمبولینس میں مغربی کنارے کے صدر مقام رملہ لایا گیا جس کا فاصلہ تقریباً 100 کلومیٹر ہے۔ اس سارے راستے میں سڑک کے دونوں طرف ہزاروں فلسطینیوںنے اس حق گو جرنلسٹ کی ایمبولینس پر پھول نچھاور کرکے اپنے دلی صدمے اور جذبات کا اظہار کیا؛ تاہم اس موقع پر بھی اسرائیلی پولیس نے شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو شیرین کے جنازے کے ساتھ جانے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔
آج کے دور میں صحافت شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ 2021ء میں ساری دنیا میں 45 صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 45 میں سے 40 مرد اور پانچ خواتین جرنلسٹس تھیں۔ 2021ء میں پاکستان میں بھی پانچ صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔ ان صحافیوں میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ناظم جوکھیو بھی شامل تھے جنہیں اغوا کر کے مقید رکھا گیا اور پھر انہیں نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ گزشتہ تین برس کے دوران پاکستان کے صحافیوں کی زباں بندی کے لیے طرح طرح کی قانون سازیوں اور دھمکیوں سے کام لیا گیا۔ میری پاکستان کے سینئر و جونیئر صحافیوں اور جرنلسٹ تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ بھی باقی دنیا کی طرح پاکستان کے مختلف شہروں میں شیرین ابو عاقلہ کی جرأت مندانہ موت پر اُسے خراجِ تحسین پیش کرنے کا اہتمام کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں