تخت و تاج اور خونی رشتے

ان دنوں ایک ''مہذب بادشاہت‘‘ میں تخت و تاج کے لیے رسہ کشی کے کئی قصے سننے میں آرہے ہیں۔ بادشاہت کے لیے ایسی رسہ کشی شروع ہو جائے تو پھر تخت و تاج کے دعویدار خونی رشتوں کو بھلا دیتے ہیں۔ بیٹا یہ بھول جاتا ہے کہ وہ جس شخص کو بے تاج کرنے کے لیے بے تاب ہے وہ اس کا باپ ہے یا وہ جس شخص کی اقتدار تک رسائی کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے وہ اس کا بھائی ہے۔ میں نے اقتدار کے لیے خونی رشتے بھلا دینے کی مثالوں کی تلاش میں تاریخ پر ایک نظر ڈالی تو کہیں دور جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ہندوستان میں مغلیہ خاندان اور ترکی کی دولتِ عثمانیہ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں؛ تاہم سلطنتِ مغلیہ میں اقتدار کی رسہ کشی کے کچھ نمایاں واقعات اتنے عبرت ناک اور ٹریجک ہیں خود بخود نگاہ وہاں جا کر ٹھہرتی ہے۔
مغلیہ سلطنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک فارسی کہاوت عام ہوا کرتی تھی ''یا تخت یا تابوت‘‘۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ شاہ جہاں نے اقتدار کی جنگ میں پہلے اپنے دو بھائیوں خسرو اور شہریار کی موت کا حکم دیا تھا۔ 1628ء میں تخت سنبھالنے کے بعد اس نے اپنے دو بھتیجوں اور چچازاد بھائیوں کو بھی مروا دیا تھا۔ یہ المناک روایت شاہ جہاں کے بعد بھی برقرار رہی۔ شاہ جہاں کے بیٹے اورنگ زیب نے اپنے بڑے بھائی داراشکوہ کا سر قلم کروا دیا تھا اور وہ ہندوستان کے تخت پر بادشاہ کی حیثیت سے متمکن ہوگئے تھے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ''Dara Shukoh: The Man Who Would Be King‘‘ کے مصنف ایوک چندا کا کہنا ہے کہ داراشکوہ کی شخصیت میں کئی متنوع اور متضاد رنگ یکجا ہوگئے تھے۔ ایک طرف وہ ایک مفکر‘ عمدہ شاعر‘ اعلیٰ سطح کے صوفی اور فنونِ لطیفہ کے عاشق تھے لیکن دوسری طرف اس شہزادے کو انتظامی اور فوجی امور میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ ایسے زاہد تھے کہ جن کے عرفان سے اکثر لوگوں کو پہچاننے میں بھول ہو جایا کرتی تھی۔ شاہ جہاں اپنے تمام بیٹوں سے بڑھ کر داراشکوہ سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے دارا کو اپنا ولی عہد بنانے کے لیے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا اور اسے ''شاہ بلند اقبال‘‘ کا لقب دیا اور اعلان کروا دیا کہ اُن کے بعد داراشکوہ تخت کا وارث ہوگا۔شاہ جہاں‘ اورنگ زیب کو بالخصوص اور دیگر دو بیٹوں کو بالعموم مختلف فوجی مہمات پر بھیجتے تھے جبکہ وہ اپنے پیارے نورِ نظر داراشکوہ کو اپنی آنکھوں سے دور نہیں ہونے دیتے تھے۔ شاہ جہاں کو ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق تھا۔ ایک بار وہ دو ہاتھیوں سدھاکر اور سورت سندر کے درمیان لڑائی بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے۔ لڑائی میں ہاتھی سورت سندر میدان چھوڑ کر بھاگا تو سدھاکر غیظ و غضب میں ڈوب کر اس کے پیچھے دوڑا۔ لوگ گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اس دوران بدمست ہاتھی نے گھڑسوار چودہ سالہ اورنگ زیب پر حملہ کر دیا۔ اورنگ زیب نے گھبرانے کے بجائے نہایت جرأت و شجاعت اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا نیزہ ہاتھی کے ماتھے پر دے مارا۔ اورنگ زیب نے بپھرے ہوئے ہاتھی سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے اپنی تلوار بھی نکال لی۔ اسی دوران کئی شہزادے ہاتھی پر قابو پانے کے لیے بھاگتے ہوئے آگے آگئے؛ تاہم داراشکوہ نے ایسی کسی جرأت مندی کا مظاہرہ نہ کیا اور وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہا۔ بعدازاں شاہ جہاں نے ایک تقریب میں اورنگ زیب کو بہادر کا لقب دیا اور اسے سینے سے لگایا۔
شاہ جہاں ایک باذوق بادشاہ تھا۔ اس نے کئی عظیم الشان عمارات تعمیر کروائیں۔ اُس نے دلی کی جامعہ مسجد‘ لال قلعہ دہلی اور اپنی محبوب ملکہ ممتاز محل کے لیے بطور یادگار تاج محل آگرہ تعمیر کروائے تھے۔ یہ عمارتیں آج بھی اسی شان و شوکت سے قائم ہیں مگر انہیں تعمیر کروانے والے مسلمان حکمرانوں کی موجودہ نسل ہندوستان میں نہ صرف شان و شوکت بلکہ عزت و توقیر سے بھی محروم ہوچکی ہے۔ لال قلعہ دلی کے دیوانِ خاص کی پیشانی پر شاہ جہاں نے بطور خاص اپنے وزیراعظم سعداللہ خان چنیوٹی کا یہ شعر لکھوایا تھا:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اورنگ زیب نے اپنے بادشاہ باپ کو آگرہ کے قلعے میں نظربند کردیا جہاں آٹھ سال کے بعد ان کی کسمپرسی کی حالت میں موت واقع ہوئی۔
تخت و تاج کی لڑائی سے متعلقہ یہ واقعات مجھے اردن کے شاہ عبداللہ ثانی کے اس اعلان سے یاد آئے جو انہوں نے تین چار روز قبل کیا کہ اُن کے سوتیلے بھائی حمزہ بن شاہ حسین کو ایک سال قبل اُن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک سازش میں شریک ہونے کی بنا پر گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔ شاہ عبداللہ ثانی نے کہا کہ حمزہ ''خودفریبی‘‘ میں مبتلا ہے لہٰذا انہیں گھر میں ہی نظربند رکھا جائے گا۔ اُن کا بیرونی دنیا سے رابطہ کاٹ دیا جائے گا اور انہیں کہیں آنے جانے کی آزادی نہیں ہوگی۔
مغرب سے متاثر ہونے والی اردن کی دولتِ ہاشمیہ میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو مسلمان بادشاہتوں میں گزشتہ کئی صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ شاہ حسین کی دوسری بیگم شہزادی منیٰ کا پہلا بیٹا عبداللہ ثانی 1962ء میں پیدا ہوا تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہی شاہ حسین کا ولی عہد ہوگا۔ تاہم 1965ء میں شاہ حسین پر اپنے بھائی پرنس حسن کی محبت غالب آئی اور انہوں نے 1965ء میں اعلان کر دیا کہ اُن کے بعد شہزادہ حسن اردن کے بادشاہ ہوں گے۔ تاہم 1999ء میں اپنی وفات سے چند ہفتے قبل وہ امریکہ کے ایک ہسپتال سے بھاگم بھاگ اردن پہنچے اور انہوں نے اپنے بھائی کو ہٹا کر اُن کی جگہ اپنے بڑے بیٹے پرنس عبداللہ ثانی کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔ شاید انہیں امریکہ سے یہی ہدایت ملی ہو۔
شہزادہ حسن کی شادی پاکستانی خاتون شہزادی ثروت الحسین سے ہوئی تھی۔ غالباً 2007ء میں شہزادہ حسن انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ایک لیکچر کے لیے آئے تو میری اُن سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ مدبرانہ و مفکرانہ سوچ رکھنے والے پرنس حسن ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔
گزشتہ ایک سال سے نظربندی کے شب وروز گزارنے والے پرنس حمزہ بن حسین شاہ حسین کی امریکہ میں پیدا ہونے والی چوتھی بیگم ملکہ نور کے پہلے صاحبزادے ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے تعلیم یافتہ اور ہیرو سکول سینڈھرسٹ کی رائل ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل اور ایک اچھی شخصیت کے مالک ہیں۔ اب تک پرنس حمزہ کی طرف سے دیے گئے کسی بیان کو ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 1999ء میں شاہ عبداللہ کے ولی عہد کے طور پر پرنس حمزہ کے نام کا اعلان کیا گیا؛ تاہم 2004ء میں شاہ عبداللہ ثانی نے اپنے بھائی کو ہٹا کر اپنے بیٹے حسین بن عبداللہ کو اردن کا کرائون پرنس بنا دیا۔
مضبوط مغربی جمہوریتوں نے دو مسائل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیئے ہیں: ایک انتقالِ اقتدار کا مسئلہ‘ دوسرا ہر آنے والا وزیراعظم یا صدر اسی ''برانڈڈ جمہوریت‘‘ کی پروڈکٹ ہوتا ہے جو کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے۔ ہماری بادشاہتوں اور تیسری دنیا کی جمہوریتوں کے لیے نہیں کہ ایک حکمران خداترس اور عادل و منصف ہوتا ہے جبکہ دوسرا ہر طرح کے قانون سے ماورا ہو کر اپنی من مانی کرتا ہے۔ بہرحال یہ قابل افسوس ہے کہ آج کے بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان بادشاہ بھی خونی رشتے پامال اور نظرانداز کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں