الٹی میٹم یا مذاکرات؟

گزشتہ دو تین ماہ سے ایک ہی طرح کے سیاسی تماشوں سے دل اُکتا چکا تھا۔ مرشد اقبال نے ایسی ہی کیفیات کے بارے میں علاج بھی تجویز کر دیا تھا
دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
مرتا ہوں خامشی پر‘ یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
جہاں نتھیا گلی کی چوٹی پر شاہوں اور اہلِ ثروت کے بڑے بڑے محلات اور عالی شان رہائش گاہیں ہیں وہاں اسی علاقے کے دامن کوہ میں ایک جھونپڑے تک ہماری بھی رسائی ہے۔ دل کا فیصلہ یہی تھا کہ اس جھونپڑے کو کورونا کی حشرسامانیوں کے بعد چار پانچ روز کے لیے آباد کیا جائے۔
ادھر میں وادیٔ کوہسار میں وارد ہوا اور اُدھر عمران خان نے 25 مئی سے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر دیا۔ اس دامن کوہ میں موسم نہایت خوشگوار اور لاجواب تھا مگر خان صاحب کے لاکھوں کی تعداد میں لامحدود مدت کے دھرنے سے گھبرا کر میں نے بھی واپسی کی ٹھان لی اور 24 مئی کو رات گئے میں اپنے بیٹے سلمان پراچہ کے پاس سرگودھا پہنچ گیا جو یہاں یونیورسٹی میں لیکچرار ہے۔
25 مئی کو عمران خان کا دھرنا شروع ہوا۔ اگرچہ حکومت نے ہر بڑے شہر کے داخلی و خارجی راستوں کو سیل کر دیا تھا مگر جس طرح عمران خان نے بیس‘ پچیس لاکھ لوگوں کے باہر نکلنے اور اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کی دھمکی دی تھی ویسی صورت حال کہیں دیکھنے میں نہ آئی۔ خان صاحب کی پکار پر لاکھوں تو کیا‘ ہزاروں بھی باہر نہ نکلے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر بار سیاست دان اپنی باہمی لڑائی میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ تمام تر ایوانوں‘ کمیٹیوں اور ضابطوں کی موجودگی میں اپنے مسائل خود حل کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ سیاست دان آپس کی لڑائی میں باہمی مشاورت سے امور طے کرنے کے بجائے آدھے ملک کو انائوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ 1971ء میں عوامی لیگ کے صدر مجیب الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اپنی مقبولیت کی معراج پر تھے مگر وہ باہمی مذاکرات سے مسائل کا کوئی متفقہ حل نہ نکال سکے اور نتیجتاً پاکستان دولخت ہوگیا اور مجیب الرحمن ایک المناک انجام سے دوچار ہوئے۔
1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو باقی ماندہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اسلامی جمہوری دستور قوم کو دینے میں کامیاب ہوئے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی رکھ دی۔ ان کامیابیوں کے بعد بھٹو صاحب نے ایک صاف شفاف سیاسی و انتخابی کلچر اپنانے کے بجائے 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کی۔ اس دھاندلی کے ردعمل کے طور پر اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوگئیں اور انہوں نے بھٹو صاحب کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی۔ بالغ نظر بزرگ سیاست دانوں نے باہمی مذاکرات سے معاملات سلجھا لیے مگر معاہدہ پر دستخط کرنے سے پہلے بھٹو صاحب غیرملکی دورے پر روانہ ہو گئے اور وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ اس دوران معاملات سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ باقی تاریخ ہے جو خاصی المناک ہے۔
2014ء سے عمران خان نے انتخابی سیاست سے بڑھ کر جارحانہ سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ انہوں نے 126 روز تک اسلام آباد میں دھرنا دیا اور اس جارحانہ دھرنے میں خان صاحب کے ایما پر اُن کے کارکنوں نے ریڈیو اور پارلیمنٹ وغیرہ پر حملہ بھی کیا۔ 2018ء کا انتخاب جیتنے کے بعد عمران خان پونے چار برس کی حکمرانی میں نہ معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کر سکے نہ گڈ گورننس قائم کر سکے اور نہ عام آدمی کے لیے عدل و انصاف اور روزگار کا حصول آسان بنا سکے اور نہ ہی اپوزیشن کو اپنے ساتھ لے کر چل سکے۔ جب انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار چھوڑنا پڑا تو انہوں نے ایوان میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے کے بجائے نئی قائم شدہ حکومت کے خلاف کبھی امریکی غلامی سے نجات کی بنا پر اور کبھی یہ کہہ کر کہ 'وہ سیاست نہیں جہاد کر رہے ہیں‘ اور کبھی نئے انتخابات کی تاریخ کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں غیرمحدود مدت تک دھرنے کا اعلان کر دیا۔
25 مئی کی صبح کو عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ایچ نائن پارک کے بجائے لوگوں کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دی اور وہاں ڈی چوک کے قریب جناح ایونیو میں خطاب کیا اور اچانک 6 روز کا الٹی میٹم دے کر دھرنا ختم کر دیا اور واپس پشاور روانہ ہو گئے۔ جب جناح ایونیو میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے اور نئے انتخاب کی تاریخ لینے کے لیے اپنی توپوں کی گھن گرج کے دہانے کھولنے کو تیار ہو رہے تھے تو اس موقع پر قاسم سوری نے خان صاحب کے کان میں کہا کہ آپ اپنے خطاب میں اسلامی ٹچ بھی دیں۔ رسول صلی اللہ ﷺ کی زندگی کے کسی واقعے کا تذکرہ کریں۔ قاسم سوری کی آواز سب کو سنائی دی۔ نعوذ باللہ‘ نعوذ باللہ اسلامی ٹچ اور عشق رسولﷺاُن کے نزدیک مطلب براری کا ایک طریقہ ہے۔
25 مئی کی دوپہر کو ایک بجے کے قریب یہ خبر آئی تھی کہ پی ٹی آئی کے بعض لیڈران جن میں اسد قیصر بھی شامل تھے‘ مسلم لیگ (ن) کے بعض قائدین کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کر رہے ہیں اور یہ مذاکرات خان صاحب کی اشیرباد سے ہو رہے ہیں؛ تاہم بعد میں خان صاحب نے اس کی تردید کر دی اور چھ روز کا الٹی میٹم دے دیا۔
25 مئی کو دنیا کے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور پاکستان و ہندوستان کے مسلمانوں اور کشمیریوں کے لیے بالخصوص ایک مغموم کر دینے والی خبر تھی۔ بھارت کی ایک سپیشل عدالت نے کشمیری تحریک مزاحمت کے ایک ممتاز رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ اُن کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کے بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔ بھارتی حکومت کے اس ظالمانہ فیصلے کی ہر جگہ مذمت کی جا رہی ہے مگر پاکستان میں اسی روز عمران خان کے دھرنے کی بنا پر یہ خبر پس منظر میں چلی گئی۔
قارئین کرام! آج 28 مئی کا وہ تاریخی دن ہے جب 1998ء میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گیا۔ میں اُن دنوں سعودی عرب میں مقیم تھا۔ اس خبر کے آتے ہی پاکستانی ساری دنیا میں سر اُٹھا کر چلنے لگے۔
ہمیں تب ہی سمجھ لینا چاہئے تھا کہ کسی قوم کی عظمت محض ایک دفاعی کامیابی سے قائم نہیں ہو جاتی۔ کوئی قوم محض نعرے لگانے یا سپرپاورز کو للکارنے سے عظیم نہیں بن جاتی۔ عظمت ایک مکمل پیکیج ہے جس میں دفاعی قوت‘ مضبوط معیشت‘ عدل و انصاف اور اعلیٰ تعلیم و تربیت شامل ہیں۔ آئی ایم ایف نے 900 ملین ڈالرز کی قسط دینے کے لیے ہماری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پٹرول اور ڈیزل کی سبسڈی واپس لے۔ 26 مئی کو موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے فی لیٹر کا ناقابل برداشت اضافہ کر دیا ہے۔
اگر ہماری سیاسی پارٹیاں اسی طرح اپنے حال بلکہ بدحالی سے بے نیاز ہوکر دھرنوں اور بڑھکوں میں مشغول رہیں اور دوطرفہ الٹی میٹم دیتی رہیں اور سنجیدہ مذاکرات کی طرف نہ آئیں تو سوچ لیجئے کہ ہمارا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں