آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

ایک تو ماشاء اللہ اپنے ممتاز کالم نگار سینیٹر عرفان صدیقی ہیں اور ایک غزل کے نہایت اعلیٰ انڈین شاعر عرفان صدیقی تھے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مجھے اُن کی غزل کا یہ نہایت خوبصورت شعر بے درد سیاست کی وضاحت کے لیے استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرا شعر دیکھیے: ؎
ریت پہ تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
یہی سوال عوام الناس میاں شہباز شریف سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے پاس معیشت کی اصلاح کا کوئی تیربہدف نسخہ نہ تھا تو آپ نے حکومت سنبھالنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ آپ ہمیں سنہری دنوں کی امید کیوں دلاتے رہے؟ آپ معیشت پر سیاست کیوں چمکاتے رہے؟ ہر حکومت کے پاس ایک آسان طریقہ ہوتا ہے کہ جب اسے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ عوام کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکال لیتی ہے۔ اس حکومت نے آتے ہی ایک ہفتے میں پٹرول فی لٹر 60روپے‘ بجلی فی یونٹ 8روپے‘ گیس 45 فیصد مہنگی کرکے ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز کی قیمت کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارے تین چار کارکن کل سے باری باری مجھ سے مہنگائی کا رونا رو چکے اور تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ میں کل سے سوچ رہا ہوں کہ میں حکومت کی طرح کس کی جیب سے پیسے نکالوں۔ ساری عمر ہی ''دیانت و امانت‘‘ یا کم ہمتی میرے راستے کی دیوار بن کر کھڑی رہی ہے۔ انسان جب پریشان ہوتا ہے تو ماضی میں پناہ لیتا ہے۔
کیا سنہری دور تھا۔ ہر کوئی اتنے ہی پائوں پھیلاتا تھا جتنی اس کی چادر ہوتی تھی۔ 1960ء اور 1970ء کا زمانہ ہمارے بچپن اور لڑکپن کا زمانہ تھا۔ دیہاتی و شہری سوسائٹی میں طبقات ضرور تھے مگر اتنا طبقاتی فرق نہ تھا اور نہ ہی شہروں میں کسی بڑی ایلیٹ کلاس کا کوئی نمایاں وجود تھا۔ غریب اور متوسط کلاس کے تقریباً سبھی لوگ ایک جیسا معیارِ زندگی رکھتے تھے۔ اس زمانے میں شہروں کے اندر سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور طالب علموں‘ بینکوں کے ملازمین‘ فوج کے کرنل رینک تک کے افسران‘ بڑے بڑے تاجروں‘ علمائے کرام حتیٰ کہ مجسٹریٹ و سیشن ججز تک کو بخوشی سائیکلوں پر اپنے گھروں سے کام کی جگہوں پر آتے جاتے میں نے بچشمِ خود دیکھا۔
جہاں تک سکولوں کا تعلق ہے‘ سبھی سکول سرکاری تھے۔ پرائیویٹ کم کم تھے اور وہ بھی سہولتوں کے اعتبار سے سرکاری سکولوں کے ہم پلہ ہی تھے‘ البتہ معیارِ تعلیم سرکاری سکولوں کا بلند تھا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ سرکاری سکولوں میں شہر کے ہر طبقے کے طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا میں میرے کلاس فیلوز میں فوجی و سول افسران اور تاجران کے علاوہ عام شہریوں کے بیٹے شامل تھے۔ اُس زمانے میں ہم سبھی ''طبقاتی شعور‘‘ سے نابلد تھے... کتنا خوشگوار زمانہ تھا۔ 1970ء کی دہائی کے اواخر میں نوجوان ملک سے باہر جانے لگے تو وہ جدید الیکٹرانک سہولتوں سے اپنے گھروں کو آراستہ کرنے لگے‘ تب سے معاشرے میں امیر و غریب کلاس کا شعور اور رشک و حسد کے جذبات پروان چڑھنے لگے۔
ہماری تاریخ کے اس معاشی و سیاسی ٹرننگ پوائنٹ پر نہایت گہرے غور و فکر کی ضرورت تھی۔ بیرونِ ملک سے ہمارے محنت کشوں‘ کاریگروں‘ انجینئرز‘ ڈاکٹرز اور ٹیچرز وغیرہ کے لیے ساری دنیا بالخصوص شرقِ اوسط سے ملنے والی ڈیمانڈ کی روشنی میں مستقبل کی نہایت شاندار منصوبہ بندی ہونی چاہئے تھی‘ جس طرف ہم نے توجہ نہ دی۔ ہمارے منصوبہ سازوں نے یہ اندازہ ہی نہ لگایا کہ اگلی دو تین دہائیوں میں کس شعبے میں ہمارے ماہرین کی ضرورت ہوگی۔ اُس زمانے میں سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے ہمارے بنیادی ایشوز کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ ان ایشوز میں بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی‘ کروڑوں کی تعداد میں اَن پڑھ بچے‘ اسی طرح کروڑوں ہی کی تعداد میں بیروزگار نوجوان‘ کسی جامع منصوبہ بندی کے بغیر پھیلتے ہوئے بڑے شہر اور گھٹتا ہوا زرعی رقبہ شامل تھے۔
1960ء میں ہمارے ہاں چھوٹی اور بڑی صنعتیں لگنا شروع ہو گئی تھیں مگر ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کی دہائی میں برسراقتدار آکر اس زمانے میں پاکستانی صنعتوں اور پرائیویٹ اداروں کو قومیا لیا جبکہ اُسی دور میں کمیونسٹ دنیا بھی فری اکانومی کی طرف مراجعت کے سفر کا آغاز کر چکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے دولخت ہونے اور بنگلہ دیش بننے کے بعد باقی پاکستان کے آل پاورفل حکمران بن کر سامنے آئے۔ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کی ٹریجڈی کی بنا پر ہماری مقتدرہ منقار زیر پر تھی۔ اگر پاکستان کو ایک متفقہ آئین کا تحفہ دینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو خالصتاً جمہوری سیاست دان بن کر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے تو اس ملک کا سیاسی منظرنامہ اسی روز بدل چکا ہوتا۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک مطلق العنان حکمران بننے کو ترجیح دی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ سیاست دانوں کے درمیان ویسی ہی چپقلش شروع ہو گئی جو سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے تھی۔
تب سے لے کر اب تک سیاست دانوں کی باہمی لڑائی کبھی فوج کے اقتدار میں آنے پر منتج ہوتی ہے‘ کبھی کسی سیاست دان کی زندگی کی بازی ہارنے پر اختتام پذیر ہوتی ہے اور کبھی کسی مقبول سیاست دان کی جلاوطنی پر اپنے انجام کو پہنچتی ہے؛ تاہم ابھی تک وہی کھیل جاری ہے اور سیاست دان کسی حقیقی میثاقِ معیشت پر آنے کے بجائے الزام تراشی سے اپنی سیاسی دکان چمکا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام کو تقریباً نصف صدی گزر چکی ہے۔ اس نصف صدی میں ہم آپس میں گتھم گتھا ہوتے رہے‘ معاشی طور پر ہم آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی دریوزہ گری کرتے رہے اور اب تک کر رہے ہیں۔ آج ہمارے پاس زرمبادلہ 10ارب ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ امپورٹ بل ادا کرنے کے بعد بنگلہ دیش کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 42بلین ڈالرز ہیں۔
گزشتہ پانچ دہائیوں سے بنگلہ دیش نے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے‘ مختلف شعبوں میں اپنی برآمدات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے‘ امپورٹ کو کم سے کم کرنے اور ملک میں سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہنے اور کاٹیج انڈسٹری کو ترقی دینے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ بنگلہ دیش نے طبی ماہرین اور علمائے کرام کو ساتھ ملا کر لوگوں کو دینی ہدایات و معلومات کی روشنی میں باور کروایا کہ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ رکھا جائے تو اُن کی تعلیم و تدریس اور صحت و خوراک پر کماحقہٗ توجہ دی جا سکتی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی اسی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے کہ آج اُن کی آبادی صرف 16 کروڑ اور ہماری 22کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
افسوس کا عالم یہ ہے کہ ادھر ہمارے سیاست دانوں نے گزشتہ پچاس برس کے دوران کسی سنجیدہ منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی حکومت کو گرانا اپنا محبوب مشغلہ بنا رکھا ہے۔ اب بھی حالات پہلے سے زیادہ مختلف نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان کی حکومت کی معاشی غلطیوں اور کوتاہیوں کی آڑ میں اُن کی حکومت کو گرا دیا مگر برسراقتدار آنے کے بعد سابقہ اپوزیشن کو معلوم ہوا کہ معیشت پھولوں کی سیج نہیں‘ کانٹوں بھرا تاج ہے۔ اگرچہ میاں شہباز شریف جذباتی تقاریر میں غریبوں کا بہت دم بھرتے ہیں مگر جس طرح سے انہوں نے صرف ڈیڑھ ماہ میں غریبوں کا دم نکالا ہے اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج عمران خان بھی معیشت پر سیاست کرتے ہوئے بقول شاعر وزیراعظم کو یہ طعنہ دے رہے ہیں ع
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں