بجٹ : چند ضروری باتیں

حکومت اسے عوام دوست جبکہ اپوزیشن اسے عوام دشمن بجٹ قرار دے رہی ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کے بعد کچھ ہی عرصے میں بجلی 40 روپے یونٹ اور پٹرول 310 کا لٹر ہو جائے گا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیڑھ سال کا نہیں‘ ڈیڑھ ماہ کا بجٹ ہے۔ اُن کے خیال میں یہ حکمران اگلے دو ماہ میں ہی حکومت کے جہاز سے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں گے۔
مفتاح اسماعیل اس لحاظ سے ایک خوش قسمت وزیر خزانہ ہیں کہ انہیں بجٹ پیش کرنے کو ''ہوم گرائونڈ‘‘ ملی۔ اپوزیشن کی گلیاں سنجیاں تھیں۔ لے دے کے ان گلیوں میں راجہ ریاض اور نور عالم خان کی زیر قیادت حزبِ اختلاف کے جو ''منحرف ممبران‘‘ براجمان تھے اُن کا طرزِعمل بھی معاندانہ نہیں دوستانہ رہا‘ اس لیے مسلم لیگی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل'' مرزا یار‘‘ بن کر اسمبلی کی فضائوں میں بجٹ کی ڈرائونی دھنیں بکھیرتے اور مستقبل قریب میں مزید جان لیوا اقدامات کے بارے میں خوفناک اشارے کرتے رہے۔
بجٹ کا عوام الناس کو اس لیے انتظار تھا تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ مہنگائی کم ہوگی یا اور بڑھے گی۔ جاتے مالی سال میں مہنگائی سرکاری کاغذوں میں 11 فیصد‘ جبکہ اس بجٹ میں مہنگائی کا تخمینہ ساڑھے گیارہ فی صد لگایا گیا ہے۔ گزشتہ برس بھی بازاروں میں مہنگائی 11 نہیں اٹھارہ‘ بیس فیصد تھی۔ رواں مالی سال میں بھی یہی خدشہ‘ یہی اندیشہ اور یہی تخمینہ ہے کہ مہنگائی 20 فیصد سے کہیں اوپر ہی جائے گی۔ عملاً صورتحال کیا ہے‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے نسبتاً کم وسیلہ افراد کی کسی بھی شہری بستی کا رجوع کریں تو آپ کے سامنے حقیقی تصویر آجائے گی۔
کوئی پندرہ بیس برس پرانی بات ہے کہ جرمنی کے ایک وزیر نے اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی کو بنگلہ دیش بھیجا‘ اسے ڈھاکہ اور دوسرے کئی بنگلہ دیشی شہروں کی عوامی بستیوں کو وزٹ کرنے کی اسائنمنٹ دی۔ اس جرمن خاتون نے بنگلہ دیش کی ان بستیوں کو بچشم خود دیکھنے کے بعد وہاں کی جو رپورٹ دی وہ خاصی ہولناک تھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ؎ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات۔مگر یہاں کوئی وزیر‘ کوئی مشیر‘ کوئی حکومتی عہدیدار ایسا کوئی تکلف نہیں کرتا کہ وہ جا کر ایسی عوامی بستیوں کا دورہ کریں اور معلوم کرے کہ خلقِ خدا کس حال میں ہے۔ مجھے ٹیکساس امریکہ سے پروفیسر زبیربن عمر صدیقی نے توجہ دلائی ہے کہ آپ کے لوگ اپنے وزیروں سے بازپرس کیوں نہیں کرتے کہ وہ جب بارہ پندرہ گھنٹے روزانہ کی لوڈشیڈنگ کی وجوہات پر روشنی ڈال رہے ہوتے ہیں تو خود ٹھنڈے ٹھار کمروں میں سوٹڈ بوٹڈ‘ ٹائی لگا کر عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ تمہاری دنیا اور ہماری دنیا اور۔
وزیراعظم شہباز شریف نے البتہ ایک کام اچھا کیا ہے کہ انہوں نے تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا ہے اور مختلف الائونسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کردیا گیا ہے نیز ایک لاکھ ماہوار آمدنی پر ٹیکس معاف کر دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کمرتوڑ مہنگائی کے دور میں مزدور کی کم سے کم اجرت مختلف صوبوں میں کیا طے پاتی ہے۔ سندھ میں سرکاری طور پر کم سے کم تنخواہ 25ہزار روپے ماہانہ ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق اب یہ اجرت کسی صورت 35ہزار سے کم نہیں ہونی چاہئے۔
ہم نے چونکہ آئی ایم ایف سے قرض لے رکھا ہے اور کئی ماہ سے حالیہ قرضے کی تقریباً ایک بلین ڈالر کی قسط کے لیے آس لگائے بیٹھے ہیں اور اسے خوش کرنے کے لیے ہزار جتن کررہے ہیں۔ پٹرول‘ بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے مگر پھر بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف ابھی خوش نہیں۔ اُس کا مطالبہ ہے کہ ڈو مور۔ دیکھئے خواجہ میر درد کہاں یاد آئے ہیں۔
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
ہمارے درد کا اصل درماں تو یہ ہے کہ ہم اپنی سیاست میں سنجیدگی لائیں اور اپنی معیشت کی بنیادی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے دوررس اقدامات اور اُن پر تسلسل کے ساتھ عملدرآمد بھی کریں۔ ہماری معیشت قرض در قرض اور سود در سود کی ایک مہیب کہانی ہے جس میں بنیادی اصلاحات لانے کے لیے کوئی حکومت تیار نہیں ہوتی۔ ہر حکومت معیشت کی تمام تر خرابیوں کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر بنیادی اصلاحات کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور نہ ہی کثیرالمیعاد منصوبہ بندی کے لیے ہوم ورک کرنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ نتیجتاً ہر آنے والی حکومت اُنہی پامال راستوں پر چلنا شروع کردیتی ہے جن راستوں پر پرانی حکومت گامزن تھی۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ماہانہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے۔ اس سے مراد ہماری درآمدات و برآمدات کے درمیان پایا جانے والا مالیاتی فرق ہے۔ ایک سادہ سی مثال سے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 2000 ء کی دہائی کے اوائل میں ہماری برآمدات‘ درآمدات کے 80 فیصد کے لیے سرمایہ فراہم کرتی تھیں۔ اب یہ تناسب 40 فی صد تک گرچکا ہے۔ گویا ہمیں اپنی برآمدات زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوں گی تاکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم سے کم ہو سکے۔ مگر ابھی تک ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
اگر ہمارے حکمران اور سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ قومی خودداری اور خودمختاری محض بلندبانگ دعووں اور نعروں سے حاصل ہوجائے گی تو وہ بڑے سادہ دل ہیں۔ خودمختاری کا ہدف ایک خودکفیل اور قرض فری قوم کو ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ ہم ایک ہاتھ میں آئی ایم ایف کشکول اور دوسرے ہاتھ میں اعانتِ دوستاں کا کشکول تھام کر اپنے منہ سے اپنی خودی کو بلند کرنے کے پرجوش نعرے بلند کریں گے۔ ان خالی خولی نعروں سے ہم اپنے لیے جگ ہنسائی کا سامان اکٹھا کر رہے ہیں۔ ہمیں سنجیدگی سے زراعت کو پسماندگی سے نکال کر جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناس کرانا ہو گا۔ ہمیں اپنی چھوٹی بڑی صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینا ہو گی۔ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ افزائشِ آبادی کی شرح کو گھٹا کر بڑھتی اور پھیلتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی شرح خواندگی کو سو فیصد کرنا ہو گا اور ہمیں اپنی آدھی آبادی کو ہنر مند بنانا ہو گا۔ برآمدات بڑھانے کے لیے روایتی شعبوں کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری اور ہنرمندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
پاکستان ہی نہیں دنیا کی معیشتوں کے لیے روس ‘یوکرین جنگ کی صورتحال بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ہفتہ کے روز یورپین کمیشن کی صدر سے کیف میں ملاقات کرتے ہوئے یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی نے دنیا کو خبردار کیا کہ اگر روس بحر اسود میں گندم سے لدے ہوئے جہازوں کو گزرنے کا راستہ نہیں دیتا تو پھر ایشیا اور افریقہ کے بعض ممالک میں قحط تک کی نوبت آسکتی ہے۔ اسی جنگ کی بنا پر تیل کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ یوکرینی صدر کا یہ بیان پاکستان کے لیے بھی خطرے کی بہت بڑی گھنٹی ہے۔ اللہ ہمیں ایسی صورت حال سے محفوظ رکھے۔ آمین!
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اچانک موت کی خبر نے پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو غمزدہ کر دیا ہے۔ مرحوم اوائلِ جوانی میں ٹی وی سکرین پر ابھرے اور دلوں پر حکمرانی کرتے چلے گئے۔ آغاز میں اُن کا ہر شو سپرہٹ جاتا تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے کوچۂ سیاست میں بھی قدم رکھا اور وہ دو مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں