کیا پاکستان کے مسائل ناقابلِ حل ہیں؟

گزشتہ ہفتے مجھے لاہور کی ایک جدید یونیورسٹی کے ہال میں نوجوان طلبہ و طالبات اور پروفیسر خواتین و حضرات سے خطاب کرنے اور اُن کے خیالات و سوالات سننے کا موقع ملا۔ مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ نوجوان نہ صرف ملکی حالات سے کما حقہٗ آگاہ تھے بلکہ عالمی منظرنامے پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ مہمان مقررین میں صرف ایک یہ بندۂ درویش اور ملک کی ممتاز شاعرہ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ شامل تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے پاکستان اور کشمیر سے متعلق اپنی شاعری پیش کرکے ایک سماں باندھ دیا۔
میرا موضوع ''پاکستان: ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ تھا۔ نوجوانوں نے فقیر کی گزارشات کو نہایت توجہ سے سنا اور بعدازاں جو سوالات کیے وہ ان کی ذہانت اور پاکستان سے گہری محبت کے آئینہ دار تھے۔ ایک طالب علم نے پوچھا: یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اگر ہم ایٹم بم حاصل کر لیں گے تو ہم ایک عظیم قوم بن جائیں گے مگر اب معلوم ہوا ہے کہ کسی ملک کا عسکری قوت ہونا ہی کافی نہیں‘ اسے معاشی قوت بھی ہونا چاہیے۔ طالب علم نے پوچھا کہ کیا آپ میرے تجزیے سے متفق ہیں؟ میں نے جواباً عرض کیا کہ میں آپ کے بیان کردہ حل سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ قرضوں کے بوجھ تلے دب کر ایٹم بم رکھنے کے باوجود ہم اپنی خودی و خودمختاری کو بلند نہیں کر سکتے۔
سوالات کا یہ سلسلہ دس پندرہ منٹ تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بی ایس فائنل کی ایک طالبہ کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ طالبہ کا سوال تھا Sir, is Pakistan an ungovernable country? اگرچہ یہ ایک چبھتا ہوا مگر نہایت ہی برمحل اور درست سوال تھا۔ وہاں تو میں نے اس استفسار کا مختصر جواب دیا؛ تاہم آج یہی جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا واقعی ہمارے مسائل ناقابلِ حل ہیں۔ ہم گزشتہ 75 برس کے دوران مسائل کا کوہ ہمالیہ تو کھڑا کرتے رہے ہیں مگر انہیں حل کرنے کے لیے تسلسل کے ساتھ کوئی مؤثر پالیسی اختیار نہیں کر سکے۔
یورپ اور امریکہ جیسے کامیاب ملکوں کو تو چھوڑیں ہم اگر اپنے ہی خطے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ چین‘ جاپان‘ سنگاپور اور ملائیشیا وغیرہ کی ترقی کا راز وہاں کی حکومتوں کا اپنے اپنے دساتیر پر تسلسل کے ساتھ کاربند رہنا ہے۔ ایشیائی ممالک کی ان کامیاب حکومتوں نے ہمیشہ اپنے دستوری دائرے میں رہتے ہوئے اپنے سیاسی و معاشی مسائل حل کیے ہیں مگر ہمارے ہاں کبھی سول اور کبھی ڈکٹیٹر حکومتیں بنتی رہیں اور دستور کو پامال کر کے سول حکومت کا تختہ الٹا جاتا رہا ہے۔
اداروں کے عدم تسلسل کی اس پرانی بیماری کے علاوہ آج ہمیں کچھ ایسی پریشانیوں نے آن گھیرا ہے جو پہلے اتنی شدت کے ساتھ کبھی ہمیں لاحق نہ تھیں۔ آج ہماری سیاست سوسائٹی اور فیملی تک شدید نوعیت کی تقسیم کا شکار ہو گئی ہے۔ ہمارے واجب الاحترام ادارے پہلے کبھی یوں نشانۂ تنقید نہ بنے تھے جیسے آج بن رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے ایک ایسا سیاسی کلچر پیدا کر دیا ہے کہ اُن کا کوئی پیروکار ایوانِ سیاست میں‘ سوسائٹی میں اور نہ ہی اپنی فیملی کے اندر اپنے مؤقف کے برعکس اپنی عزیز ترین ہستی کی بات بھی سننے پر آمادہ ہے۔ ہیٔت مقتدرہ اور الیکشن کمیشن پر بھی کسی دلیل اور کسی ثبوت کے بغیر تنقید کی جاتی ہے۔ عمران خان ملک میں ایک ایسا سیاسی کلچر رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں اپوزیشن کے ساتھ گفت و شنید ہے نہ افہام و تفہیم اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کی فیصلہ کن حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
ایک ہولناک سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ اس وقت معیشت کی ناگفتہ بہ صورت حال نے ہمیں ایک ایسے گرداب میں پھنسا دیا ہے جس سے نکلنے کی بظاہر کوئی فوری صورت دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ چار دہائیوں یعنی 1980ء کے وسط سے لے کر اب تک ہر حکومت نے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے وہ وقت گزاری اور قرض کی ''مے خوری‘‘ کی پالیسی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ان چار دہائیوں کی سول اور آمرانہ حکومتوں نے بنیادی معاشی اصلاحات اختیار کرنے اور ملکی وسائل پر انحصار کرنے اور انہیں وسعت دینے کے بجائے اندرونی و بیرونی قرضے لینے کو ترجیح دی۔ اس عرصے میں ہم نے سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر پر بھی انحصار کیا مگر اُن کے زرمبادلہ کو ہماری کسی حکومت بشمول پی ٹی آئی نے بھی چھوٹی بڑی سرمایہ کاری کے لیے استعمال نہیں کیا۔
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے‘ ان چار دہائیوں کی حکومتوں نے خسارے کی معیشتوں کا حل یہ نکالا کہ زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپے جائیں۔ بیرونی و اندرونی قرضے لیے جائیں۔ آئی ایم ایف اور ایسے دیگر اداروں کے قرضوں پر واجب الادا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جائیں۔ بنیادی معاشی اصلاحات کرنے اور ٹیکسوں کا دائرہ وسیع کرنے کے بجائے ہر حکومت نے ''ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی سے کام لیا اور ہولناک معاشی مسائل کو آنے والی حکومت کے لیے چھوڑ دیا۔ اس وقت یہ خوفناک معاشی صورت حال اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی ہے۔
قرض در قرض اور سود در سود کے روایتی مسائل کے علاوہ اس وقت ہماری معیشت کئی فوری نوعیت کے معاشی خطرات کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ ان خطرات میں سرفہرست پٹرول اور ڈیزل کی ہوشربا قیمتوں کا مسئلہ ہے۔ اگر روس‘ یوکرین جنگ کا جلد خاتمہ نہیں ہوتا تو تیل کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی بلکہ مزید بڑھیں گی۔ اس صورت حال میں تیل سے جڑے ہمارے مسائل میں اور بھی اضافہ ہو گا جو ہماری 90فیصد آبادی کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگا۔ اس کے علاوہ پاور پلانٹس کے گردشی قرضوں کا حجم تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں چار ہزار ارب روپے سود اور سود کی ادائیگی کے لیے حاصل کیے جانے والے مہنگے قرضوں پر اضافی رقوم کی صورت میں ادا کرنا ہیں جو ایک جان لیوا معاملہ ہے۔ اس کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدر جتنی کم ہوتی ہے اتنا ہی ہمارے مسائل کے انبار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
میں اسے بدنصیبی ہی کہوں گا کہ تقریباً چار دہائیوں سے ہماری حکومتیں حقیقت پسندی اور صدقِ مقال کی صفات سے محروم چلی آرہی ہیں۔ ہماری ہر آنے والی حکومت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس دور کی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتی ہے اور جب خود حکومت میں آجاتی ہے تو وہی پالیسیاں اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہے۔
معاشی مسائل پر سیاست کرنے کو ہماری ہر اپوزیشن ایک وقتی کامیابی کے لیے ایک تیربہدف نسخے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ اپوزیشن ایسا سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے کرتی اور یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ جب وہ خود برسراقتدار آئے گی تو اسے بھی وہی کچھ کرنا پڑے گا جو موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کر رہے ہیں۔ وہ سیاسی معاملات اور خطرناک نوعیت کے نازک معاشی مسائل کے حل کے لیے کسی قسم کے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں قبل از وقت انتخابات کی تاریخ دی جائے۔ عمران خان اور اُن کی معاشی ٹیم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دوبارہ برسراقتدار آکر بھی وہ اقتصادی صورت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
اگر ہمارے سیاست دان بالعموم اور عمران خان بالخصوص خوفناک حد تک تقسیم شدہ سیاست اور ہولناک معاشی مسائل کے حل کے لیے کوئی متفقہ فارمولا نہیں اپناتے‘ اور اگر ہمارے سیاسی قائدین عوامی مفادات کو اپنی وقتی سیاست پر ترجیح نہیں دیتے تو پھر پاکستان کو ایک Ungovernable ملک کے الزام سے نہیں بچایا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں