اتفاق سے پیغام تک

گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب حکومت سازی کی بھاگ دوڑ میں ایک بڑے بحران کا شکار ہے۔ بزدار حکومت کے دوران مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والے اراکینِ پنجاب اسمبلی جب اُن سے آ ملیں گے تو انہیں ایوان میں واضح برتری حاصل ہو جائے گی؛ تاہم وسط مئی میں سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والی ایک رولنگ کی بنا پر اُن کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس رولنگ کے مطابق کوئی منحرف رکنِ اسمبلی اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کا ووٹ شمار ہوگا۔ اب مسلم لیگ (ن) کو پی ٹی آئی پر محض تین چار سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اپنے اور بعض اتحادی جماعتوں کے ملا کر کل 177ووٹ بنتے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے ووٹوں کی کل تعداد 173ہے۔
چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے خانوادے میں چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں مثالی اتحاد قائم تھا۔ سیاسی و سماجی حلقوں میں اس خاندانی اتحاد کو بہت سراہا جاتا تھا۔ مختلف اطلاعات کے مطابق چودھری پرویز الٰہی نے اس وقت کی اپوزیشن اور آج کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دعائے خیر بھی کر لی تھی۔ اس ایگریمنٹ کے تحت پی ڈی ایم نے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے پر مکمل رضا مندی کا اظہار کر دیا تھا؛ تاہم بعدازاں چودھری پرویز الٰہی کا جواں سال صاحبزادہ مونس الٰہی انہیں خان صاحب کے درِ دولت پر لے گیا اور یوں چودھری صاحب نے پی ڈی ایم کے بجائے پی ٹی آئی کے شجر سے پیوستہ ہو کر امیدِ بہار سے اپنا دامن بھر لیا تھا۔ اس کے برعکس چودھری شجاعت حسین نے مولانا فضل الرحمن اور زرداری صاحب کو دیے گئے قول کی پاسداری کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ تب سے چودھری خاندان کے شیشے میں ''تریڑ‘‘ پڑ گئی ہے۔
اس وقت پنجاب کا منظرنامہ یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بحیثیت سپیکر پنجاب اسمبلی کی عمارت پر قابض ہیں جبکہ حمزہ شہباز پنجاب حکومت کے مالک و مختار ہیں مگر وہ اپنے اجلاسوں کے لیے پنجاب اسمبلی کی عمارت میں داخل نہیں ہو سکتے‘ لہٰذا وہ ایوانِ اقبال میں پناہ لیتے ہیں۔ اس عرصے میں دونوں پارٹیوں کی عدالت عظمیٰ میں آمدورفت جاری رہی۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم پر 2جولائی بروز ہفتہ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے لیے دوبارہ گنتی ہونی تھی مگر پی ٹی آئی اُسی روز سپریم کورٹ جا پہنچی اور اُس نے وہاں دوبارہ ووٹنگ کے لیے کم از کم سات روز کی مہلت طلب کرنے کی استدعا کی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور اُن کے دو ساتھی ججز نے حکمت اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ایک ہی روز میں معاملہ نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور چودھری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی‘ جو کہ اب وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار بھی ہیں‘ دونوں کو چیف جسٹس نے دانش اور ہوش مندی سے کام لینے کی تلقین کی اور انہیں باہمی مشورے کے لیے وقت بھی دیا۔ اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہوا کہ فریقین نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ 17جولائی کو ہاؤس مکمل ہونے کے بعد انتخاب کروا لیا جائے۔ اس اتفاق پر چیف جسٹس آف پاکستان نے رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا۔ باہمی افہام و تفہیم کی اس فضا سے ہم نے یہ امید قائم کر لی تھی کہ اب اس اتفاق کی خوشبو صوبے سے بڑھ کر مرکز میں بھی پھیل سکتی ہے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سب سے بڑا اختلاف قبل از وقت انتخابات کا اعلان ہے۔ اس کے علاوہ معیشت کی بہتری کا حل بھی اتفاقِ رائے سے نکل سکتا ہے۔ میرا حسنِ ظن یہ تھا کہ پی ٹی آئی سمیت ساری جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھنے پر اتفاق کر لیں گی۔ میں دل ہی دل میں اس اتفاق پر پاکستانیوں کو مبارک باد دیتا رہا۔ دیکھیے ڈاکٹر خورشید رضوی کا کیسا حسبِ حال شعر یاد آیا ہے:
اس اعتراف سے رس گھل رہا ہے کانوں میں
وہ اعتراف جو اس نے ابھی کیا بھی نہیں
ہفتے کی شب عمران خان کی تند و تیز تقریر سنتے ہوئے میری ساری امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ اس خطاب میں خان صاحب نے بزعم خود ''عدالتی منصب‘‘ بھی سنبھال لیا۔ انہوں نے ایک نہیں کئی فیصلے صادر فرما دیے۔ اُن کا پہلا فیصلہ یہ تھا کہ موجودہ حکومت چوروں کا ٹولہ ہے۔ اُن کا دوسرا فیصلہ مؤثر بہ ماضی نہیں مؤثر بہ مستقبل تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ امپائر امپورٹڈ حکومت کے ساتھ ہیں پھر بھی انہیں شکست دینی ہے۔ انہوں نے ایک فرمان یہ بھی جاری کیا کہ امریکی غلاموں کی امپورٹڈ حکومت کبھی نہیں مانوں گا۔ عمران خان کے خطاب کا نقطۂ عروج نہایت حیران کن تھا۔انہوں نے اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نیوٹرلز! آپ کے پاس طاقت تھی‘ کیوں ان چوروں کو مسلط ہونے دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے علی الاعلان یہ بھی کہا کہ اداروں کے لیے پیغام ہے کہ چوروں سے ملک بچا لو۔ جناب عمران خان گزشتہ اڑھائی تین ماہ سے سراپا اضطراب و تضاد بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ کے پی اور پنجاب کی اسمبلیوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور پنجاب میں اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان بظاہر قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں مگر عملاً ایسا نہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی تاحال پارلیمنٹ لاجز میں براجمان ہیں اور اپنی تنخواہ بھی لیتے ہیں۔
گزشتہ کئی برس کے دوران ہم خان صاحب کی زبانی برطانیہ میں اعلیٰ پارلیمانی روایات اور قانون کی عملداری کے قصے اور ریاستِ مدینہ کے مقدس تذکرے سینکڑوں بار سن چکے ہیں۔ مگر قوم اُن سے یہ سوال کرتی ہے کہ وہ کس ضابطے کے مطابق اداروں سے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے قانونی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آنے والی حکومت کو بزورِ شمشیر کیوں نہیں روکا؟ خان صاحب یہ کس دستوری شق کے تحت پیغام دے رہے ہیں کہ وہ'' چوروں‘‘ سے ملک کو بچا لیں۔ اس سے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان کو دو ماہ میں ہی معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کسی سپورٹ اور معاونت کے بغیر برسراقتدار نہیں آسکتے۔ انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے پہلے کی طرح غیبی امداد کی ضرورت ہو گی۔ یہ تو قانون دان ہی بتا سکتے ہیں کہ عمران خان کا اداروں کے نام یہ پیغام کس کس دستوری شق کی خلاف ورزی ہے۔
اس وقت ملک میں مہنگائی 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ آٹا‘ خوردنی تیل‘ گوشت‘ دودھ وغیرہ کی قیمتیں تو 26 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ دم توڑتی خلقت کی چیخیں ساتویں آسمان تک پہنچ رہی ہیں۔ ارضِ پاکستان میں تو ان غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ معیشت کی بحالی اور عوام کی خوش حالی کے لیے سیاسی استحکام ازبسکہ ضروری ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے آئی ایم ایف اعتبار نہیں کر رہا جبکہ خان صاحب کا کہنا ہے کہ ہم نے اڑھائی سال آئی ایم ایف کو ڈیل کیا اور مہنگائی نہیں ہونے دی۔ ہمارے مسائل کا علاج سیاسی جماعتوں کے درمیان جنگ و جدل میں نہیں بلکہ باہمی افہام و تفہیم میں ہے۔ خان صاحب کو بھی یہ باور کر لینا چاہئے کہ بحران کا حل اتفاق میں ہے ''پیغام‘‘ میں نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں