فلسفۂ قربانی

آج سعودی عرب اور کل 10جولائی کو پاکستان میں سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے قربانیاں کی جائیں گی۔ میں فقیہ ہوں نہ ہی مفتی‘ اس لیے قربانی کی شرعی حیثیت کا ٹھیک ٹھیک تعین کرنے سے قاصر ہوں۔ مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ رب ذوالجلال اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تسلیم و رضا کا جو رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے‘ اس کی بہترین تصویر کشی سورۃ الصافات کی آیت نمبر 102میں موجود ہے۔ خالق خواب کے ذریعے اپنے پیغمبر کو ایک فرمان جاری کرتا ہے اور اپنے پیارے پیغمبر سے اپنی عزیز ترین متاع کی قربانی طلب کرتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا تو کہا اے بیٹے! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ پس دیکھ تیری کیا رائے ہے‘ کہا اے ابا! جو حکم آپ کو ہوا ہے‘ کر دیجئے۔ آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔ تسلیم و رضا کا یہ نقطۂ عروج ہے۔ نہ پیغمبر نے خدا سے پوچھا کہ میں اپنی متاع عزیز کو کیوں قربان کروں؟ نہ بیٹے نے اپنے باپ سے کوئی سوال جواب کیے کہ آپ کی بات عقل میں نہیں آتی۔
وہ عقل جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
بے خطر آتش نمرود میں کودنے کا مرحلہ ہو یا اپنے لختِ جگر کی گردن پر تیزدھار چھری رکھنے کا معاملہ ہو‘ اس میں بے چاری عقل ایک طرف ہو کر سوچ میں گم تھی۔ تبھی تو علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ: عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی۔
میں نے اس قرآنی واقعے کا قدرے تفصیل سے اس لیے ذکر کیا ہے کہ ہر سال عیدِ قربان کے موقع پر چند روشن خیال دانشور اور مذہبی سکالر قربانی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس کا قرآن کریم میں کہاں حکم ہے؟ حالانکہ انہی آیات میں واضح حکم موجود ہے کہ ہم نے بعد میں آنے والوں کے لیے بھی اسے ایک روایت بنا دیا۔ سورۃ الحج کی آیت نمبر 37 میں ارشاد ہے کہ یاد رکھو اللہ تک ان قربانیوں کا نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔ اُس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تمہارا تقویٰ ہے۔
مذکورہ بالا روشن خیال کالم نگار اور دانشور یہ فلسفہ بھی بیان کرتے ہیں سارے گھر میں ایک قربانی کریں اور باقی رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں۔ غالباً یہ فلسفیانہ موشگافی کرتے ہوئے یہ حضرات اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ اسلام میں جتنا ضرورت مندوں کی حاجت روائی پر زور دیا گیا ہے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے‘ اتنا کسی اور مذہب میں موجود نہیں۔ ان دانشوروں کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہئے جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے لیے آج کے دن خون بہانے (یعنی قربانی پیش کرنے) سے زیادہ افضل کوئی عمل نہیں۔ ایک اور حدیث میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دن قربانی پر خرچ کیے ہوئے مال کی سب سے زیادہ فضیلت ہے۔
دس ذی الحجہ کا روزِ سعید وجلیل سال بھر کے بعد جب آتا ہے تو اپنے ہمراہ جذبۂ تسلیم و رضا اور جذبۂ ایثار و قربانی بھی لاتا ہے۔ یاد رکھئے عیدِ قربان ہم مسلمانوں کا عظیم مذہبی تہوار ہے جسے اسلامی دنیا کے علاوہ غیرمسلم دنیا میں بھی جہاں جہاں مسلمان ہیں وہاں وہاں نہایت عقیدت و محبت‘ شوق و ذوق اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن اللہ کے حکم پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کے عہد کی تجدید ہوتی ہے۔ حضرت محمد مصطفیﷺکی امت کسی فلسفہ و تاویل میں پڑے بغیر سنت ابراہیمی اور سنت مصطفوی کی یاد میں خون بہاتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو عنداللہ مطلوب و مقصود ہے۔
اب آئیے مہنگائی کی طرف۔ ہر سال قربانی کے جانوروں کی قیمتیں گزشتہ برس کے مقابلے میں بہت بڑھ چکی ہوتی ہیں؛ تاہم اب کے گرانی کا وہ عالم ہے جو اس سے پہلے نہ کبھی سنا نہ دیکھا تھا۔ ان حالات میں فقہا کا تو یہی کہنا ہے کہ جو بھی صاحبِ نصاب ہے یعنی جس پر زکوٰۃ واجب ہے‘ اسے قربانی بھی بطیب خاطر پیش کرنی چاہئے اور مسرت و تسلیم و رضا کے اس موقعے پر لیت و لعل اور تاویلات سے کام نہیں لینا چاہئے۔ اگر کسی میں مینڈھے یا بکرے کی استطاعت نہیں تو وہ گائے میں شراکت داری اختیار کر لے۔ بس دل میں یہ بات ہونی چاہئے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی کا یہ لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
عیدِ قربان کے تین ایام میں مسلم دنیا میں قربانیوں کا ہی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی کئی ادارے لوگوں کے دیے ہوئے عطیات سے پاکستان کے دور دراز علاقوں اور دیگر کئی ممالک میں کم وسیلہ لوگوں کے لیے قربانیوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ عیدِ قربان کی خوشی میں وہ بھی براہِ راست شامل ہو سکیں۔ یقینا یہ ایک نہایت مستحسن عمل ہے۔
ہمیں دنیا کے کئی اسلامی و غیراسلامی ممالک میں سکونت اور سیر و سیاحت کا موقع ملا ہے۔ اکثر جدید طرزِ زندگی والے ممالک میں تو شہروں کے اندر جانوروں کو لانے کی ممانعت ہوتی ہے۔ قربانیوں کے لیے مذبح خانوں اور لائیو سٹاک فارموں میں جانا پڑتا ہے۔ تاہم کئی کئی روز پہلے جانور خریدنے اور ان کی نگہداشت اور خاطر مدارات کرنے کا کلچر تو شاید اب پاکستان یا دیگر دوچار ممالک تک ہی محدود ہے۔ اس طرح جانور کے ساتھ ایک خاص انس اور الفت پیدا ہو جاتی ہے اور جب اسے قربان کیا جاتا ہے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی متاعِ عزیز قربان کی جا رہی ہے۔
دنیا کی ہر قوم سال کے چند روز تہواروں کے لیے مخصوص کر لیتی ہے۔ مل کر خوشی منانا کسی بھی معاشرے میں اجتماعی روح پیدا کرتی ہے اور سوسائٹی کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط رکھتی ہے۔ قوموں کے تہوار ان کے عقائد و تصورات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ کہیں یہ تہوار محض راگ رنگ اور کھیل و تفریح تک محدود ہوتے ہیں اور کہیں یہ تہوار مہذب حدود کے اندر رہتے ہوئے اخلاقی روح بیدار کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے اس لیے اس کے تہوار کسی علاقے‘ کسی خاص موسم‘ یا کسی کلچر کے ساتھ منسلک نہیں ہوتے۔
سال کا پہلا تہوار عیدالفطر ہے جو رمضان المبارک کے روزے مکمل ہونے پر ہدیۂ خداوندی کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے تاکہ ہر امیر غریب عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکے۔ اسی طرح عیدالاضحی کے موقع پر بھی عزیزو اقارب اور کم وسیلہ لوگوں تک گوشت پہنچانے کا حکم ہے تاکہ معاشرے کا ہر فرد کسی نہ کسی حد تک عید قربان کی خوشیوں میں بھی شامل ہو سکے۔ ہمیں بھی اس حکم کی پیروی اس کی روح کے مطابق کرنی چاہئے اور عیدالاضحی کے دنوں میں غریب بستیوں تک کچا گوشت یا پکے ہوئے کھانے پہنچانے کا اہتمام و انتظام کرنا چاہئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے ہر سال سوسائٹی کا ایک انتہائی محدود روشن خیال طبقہ اپنا فلسفۂ قربانی پیش کر کے فرمانِ خداوندی اور فرمانِ مصطفیﷺ کی اہمیت پوری طرح اجاگر نہیں کرتا ہے۔ یہ رویہ انتہائی نامناسب ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے عظیم فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مقدس ذکر سے تاقیامت یہ فضائیں اور ہوائیں گونجتی رہیں گی۔
ان شاء اللہ خوشنودیٔ خدا کی خاطر یہ یومِ عظیم زندہ و تابندہ رہے گا اور یہی حقیقی فلسفۂ قربانی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں